• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکتوب چترال،بڑے اجتماع میں قومی اورن لیگ کے پرچموں کی بہار

( محمد صالح ظافر/ خصوصی تجزیہ نگار) چترال کے پی کے کا دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ شمار ہوتا ہے جسکی آبادی چھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اسکے بیچوں بیچ لہراتا اور بل کھاتا دریائے کابل کوہ ہندو کش کی دامن سے اترتا ہے اور اسکی دل آویزی میں اضافے کا موجب بنتا ہے یہاں سے نکل کر یہ دریا افغانستان میں داخل ہوتا ہے  اور دوبارہ پاکستان میں نوشہرہ کے قریب جولانیاں دکھاتا ہے ، بھارتی دریائے کابل پر پاکستان میں اسکے دوبارہ داخل ہونے کے مقام سے متصل آبی ذخیرہ تعمیر کرنے پر کاربند ہیں جسکے نتیجے میں کے پی کے کا وسیع زرخیز علاقہ اس دریاکے پانی سے محروم ہو جائے گا اور زرعی اراضی نخلستان بن سکتی ہے حکومت پاکستان پوری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے وہ  چترال کے نواح میں پانی کا ذخیرہ بنانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے جس سے چترال اور اسکے نواحی علاقوں کیلئے بجلی کی فراوانی ہو سکے گی  اور زراعت کیلئے پانی بھی مہیا ہو سکے گا یہ ذخیرہ آب تعمیر ہوگیا تو افغانستان کے وسیع علاقے کو جس میں کابل بھی شامل ہے پانی کی کمیابی کا سامنا کرنا پڑے گا ایسے میں بھارتیوں کا منصوبہ بھی خاک ہو جائے گا ۔ دریا کی گزر گاہ میں پانی نہیں ہوگا تو وہ ذخیرہ آب کہاں تعمیر کر سکیں گے اس بارے میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی گروپ لیڈر قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ خان نے بدھ کو چترال میں اس وقت جزئیات سے وزیراعظم نواز شریف کو آگاہ کیا جب وہ چترال اور لواری ٹاپ کے ایک روزہ طوفانی دورے پر پہنچے تھے۔ ملک کے پسماندہ علاقوں میں اس نوعیت کا ایک ہفتے سے بھی کم دنوں میں ان کا یہ دوسرا دورہ تھا۔ چترال  کی حدود افغانستان سے بھی ملتی ہیں اور اس سے ملحقہ افغان علاقے  میں طالبان کو قابل لحاظ اثر و نفوذ حاصل ہے یہ چترال ہی کی فضا تھی جس سے امریکی میرین رات کی تاریکی میں اپنے ہیلی کاپٹر سے  داخل ہوئے اور ایبٹ آباد کے شہر میں اسامہ بن لادن کی اقامت گاہ پر حملہ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر ان کا جسدخاکی لیکر واپس افغانستان چلے گئے۔ چترال سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن شہزادہ افتخار الدین سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی پارٹی کے ایوان میں  اکلوتے رکن ہیں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی خدمت میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور  وزیراعظم نواز شریف کی قیادت پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ۔ اس بہت بڑے اجتماع میں قومی پرچموں اور حکمران پاکستان مسلم لیگ نون کے جھنڈوں کی بہار دکھائی دے رہی تھی، حاضرین جن میں ہر عمر کے مرد و خواتین شامل تھے بڑے والہانہ پن سے وزیراعظم نواز شریف کی حمایت میں نعرہ ہائے تحسین بلند کر رہے تھے دوسری جانب اسٹیج پر شہزادہ افتخار الدین کے علاوہ جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی کے گروپ لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ خان، جماعت اسلامی سے منسلک ضلعی حکومت کے ناظم مغفرت شاہ، پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ، جمعیت العلمائے اسلام کے رہنما اور بعض دوسری جماعتوں کے اکابرین بھی موجود تھے ، تحریک انصاف کے سوا تقریباً سبھی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی عوام کا جم غفیر تھا اور نواز شریف جنکے چہرے پر مسکراہٹ کھل رہی تھی وہ جلسہ گاہ میں نمودار ہوئے تو ہزاروں کے اجتماع نے دیکھو دیکھو کون آیا۔ شیر آیا شیر آیا، کے فلک شگاف نعروں سے آسمان سر پر اٹھالیا۔ چھ لاکھ کی آبادی کے اس ضلع میں اتنا بڑا اجتماع حیران کن تھا۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت محترمہ انوشہ رحمٰن احمد خان، وزیراعظم کے مشیر امیر مقام خان، قومی اسمبلی کے پارسی رکن اسفن یار بھنڈارا بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے، چترال کے لوگ حد درجہ جفاکش اور ذہین ہیں یہاں شہریوں کو درس و تدریس میں گہری دلچسپی ہے لیکن یہ علاقہ تاحال یونیورسٹی کی نعمت سے محروم چلا آرہا تھا، وزیراعظم نواز شریف نے چترال کیلئے یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا اور اپنے پروگرام کے تحت اڑھائی سو بستروں کے اسپتال کے قیام کی منظوری بھی دی اس جدید اسپتال میں بعدازاں مزید توسیع کی جائے گی ۔ اسی طرح اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبے کیلئے بھی نئے منصوبوں کا بھی وزیراعظم نے اعلان کیا جسکے سنگ بنیاد کی نقاب کشائی وزیراعظم نواز شریف اور محترمہ انوشہ رحمٰن احمد خان پہلے ہی کرچکے تھے۔ چترال سیکڑوں سال پرانی تہذیب کا گہوارہ ہے جہاں کے شہری بہت روایت پسند ہیں اور وہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ان کی یہی محبت نواز شریف سے انکے لگائو کا باعث ہے ، وزیراعظم جو بہت ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے چترال کے جلسہ عام اور ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے کے بعد اپنے ذاتی خدمت گار عابد اللہ جان کے گھر پر گئے جو غیرت نامی گائوں میں پہاڑ کی بلند و بالا چوٹی پر واقع ہے وزیراعظم نواز شریف اس دشوار گزار پہاڑی چوٹی پر جیپ کے ذریعے روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں ایک دو مقامات پر پاپیادہ  بھی جانا پڑا کیونکہ جیپ کیلئے بلندی چڑھنا محال ہو رہا تھا عابد اللہ خان اور ان کا پورا خاندان وزیراعظم کی اپنے گھر آمد پر پھولا نہیں سما رہا تھا جس نے مہمانوں کی اپنی بساط سے بڑھ کر خاطر تواضع کی۔ وزیراعظم بعدازاں دشوار ترین اور انتہائی بلند کوہستانی سلسلے میں سے گزرتے ہوئے لواری ٹاپ پہنچے جہاں انہوں نے زیر تعمیر لواری ٹنل کا معائنہ کیا یہ ٹنل 1955 میں بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ،۔ تعمیر شروع ہونے کے بعد لگاتار تاخیر کا شکار رہا ہے وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا کہ لواری ٹنل کا آئندہ سال جون میں افتتاح کر دیا جائے گا۔
تازہ ترین