مقبوضہ کشمیر میں ایک علاقہ اننت ناگ ہے جو اسلام آباد کے نام سے مشہور ہے۔ گیارہ فروری کو کشمیری حریت پسند مقبول بٹ شہید کی برسی تھی۔ اس دن اننت ناگ کے ایک نوجوان مشتاق ڈار نے کہیں سے ایک میگا فون کا بندوبست کیا۔ کچھ دوستوں کو ساتھ ملایا اور ایک بازار میں کھڑے ہو کر میگا فون پر بلند آواز میں یہ شعر پڑھنا شروع کردیا۔
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر ظالم و جابر کا کرتے ہی چلو سرخم
کچھ ہی دیر میں اس نوجوان کے اردگرد بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے اور پھر ان سب نے مل کر کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ تھوڑی دیر میں وہاں پولیس آگئی، مجمع منتشر ہوگیا اور پولیس مشتاق ڈار کو پکڑ کر تھانے لے گئی۔ تھانے میں اس سے پوچھا گیا کہ وہ کون سے شاعر کا شعر پڑھ رہا تھا؟ نوجوان نے بتایا کہ وہ حبیب جالب کا شعر پڑھ رہا تھا۔ نوجوان سے پوچھا گیا کہ وہ حبیب جالب کو کیسے جانتا ہے؟ نوجوان نے بتایا کہ اس نے کچھ دن پہلے جیو ٹی وی پر حبیب جالب کا یہ شعر سنا تھا اور یاد کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نوجوان کا بڑا بھائی ایک وکیل کے ہمراہ تھانے پہنچ گیا اور معاملہ ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اس دوران انٹیلی جنس کے لوگ بھی تھانے پہنچ گئے۔ انہیں شک تھا کہ مشتاق ڈار کو حبیب جالب کی پوری نظم کسی پمفلٹ یا ایس ایم ایس پیغام کی صورت میں فراہم کی گئی تاکہ وہ اس نظم کے ذریعے گیارہ فروری کو اننت ناگ میں باغیانہ خیالات کا پرچار کرسکے۔ انٹیلی جنس والوں نے اس کا موبائل فون چیک کیا۔ اس کی جامہ تلاشی بھی لی لیکن حبیب جالب کی نظم کہیں نہ ملی۔ یہ انٹیلی جنس والے مشتاق ڈار کو خاموشی سے اپنے ساتھ لے گئے اور اس کے بھائی سے کہا گیا کہ صاف صاف بتائو حبیب جالب کا شعر کہاں سے آیا؟ بھائی گھر واپس آیا، اس نے مشتاق ڈار کے دوستوں سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ حبیب جالب کا یہ شعر چار فروری کی رات جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں پڑھا گیا تھا۔ اس رات مشتاق ڈار سرینگر میں تھا اور اس نے اپنے ماموں کے گھر ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے یہ شعر سنا اور پھر اس نے یہ شعر ایک کاغذ پر لکھ کر جیب میں ڈال لیا۔ مشتاق ڈار کے بھائی نے وکیل کی مدد سے مزید معلومات حاصل کیں اور انٹیلی جنس والوں کو بتایا کہ جیو نیوز مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں کیبل پر دیکھا جاتا ہے اور چار فروری کو جیو نیوز پر حبیب جالب کا شعر حامد میر نے اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں پڑھا تھا۔کافی تگ و دو کے بعد مشتاق ڈار کو اس یقین دہانی کے بعد چھوڑ دیا گیا کہ وہ آئندہ حبیب جالب کا کوئی شعر سڑک پر کھڑے ہو کر نہیں پڑھے گا۔ مجھے اس واقعے کی تفصیل سرینگر کے ایک صحافی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ اس صحافی نے 5 فروری کو’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے و الے کالم میں حبیب جالب کے علاوہ احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی کا ذکر بھی پڑھا تھا جنہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کے حق میں کئی نظمیں کہیں۔ اس صحافی نے تقاضا کیا کہ میں اپنے کالم میں ان شاعروں کی نظمیں بھی قارئین کی نذر کروں۔ اخباری کالم کا دامن کافی تنگ ہوتا ہے لہٰذا میں یہ فرمائش پوری نہ کرسکا۔ اس دوران گاندربل اور سوپور سے ٹوئٹر پر کچھ کرم فرمائوں نے جالب صاحب کی پوری نظم بھجوانے کا تقاضا کیا۔ 15 فروری کو پاکستان اور بھارت میں کرکٹ میچ تھا۔ کرکٹ میچ میں ہار جیت ایک معمول ہے لیکن 15 فروری کی صبح صبح مجھے مقبوضہ کشمیر سے پیغام ملا کہ آج تو حبیب جالب کی نظم کے مزید اشعار ہر صورت بھجوائوکیونکہ گلیوں بازاروں میں نوجوان بھارت کے خلاف نعرے لگارہے ہیں۔ بہت سے نوجوان جالب کے صرف ایک شعر پراکتفا نہیں کرسکتے کچھ مزید اشعار عطا فرمادیجئے۔ میں نے ٹوئٹر کے ذریعہ یہ اشعار بھجوائے؎
اس وادی پرخوں سے اٹھے گا دھواں کب تک
محکومئی گلشن پہ روئے گا سماں کب تک
محروم نوا ہوگی غنچوں کی زباں کب تک
ہر پھول ہےفریادی آنکھوں میں لئے شبنم
کشمیر کی وادی میں لہر کے رہو پرچم
ہر ظالم و جابر کا کرتے ہی چلو سرخم
اٹھے ہو نگاہوں میں تم سوز یقین لے کر
امریکہ کی بندوقیں ہوجائیں گی خاکستر
پروردہ واشنگٹن جائیں گے کہاں بچ کر
ان جنگ پرستوں سے ہے سارا جہاں برہم
کشمیر کی وادی میں لہر کے رہو پرچم
ہر ظالم و جابر کا کرتے ہی چلو سرخم
حبیب جالب کی اس نظم کے باقی اشعار پھر کبھی لیکن جوش ملیح آبادی کے یہ اشعار بھی اہم ہیں؎
اے جنت کشمیر کے بیدار جوانو!
اے ہمت مردانہ کے ذی روح نشانو!
سو بات کی پہ بات ہے اس بات کو مانو
جینے کا جو ارمان ہے تو موت کی ٹھانو
ان اشعار پر غور کیجئے اور اپنے دل سے پوچھئے کہ کیاحبیب جالب اور جوش ملیح آبادی دہشت گردوں کے ساتھی تھے؟آج کچھ لوگ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کرتے ہوئے محض اس لئے جھجکتے ہیں کہ امریکہ ناراض نہ ہوجائے لیکن پاکستان کے ایک عظیم شاعر احمد فراز بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ انہوں نےعنفوان شباب میںکشمیر کی تحریک آزادی میں عملی طور پر حصہ لیا۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ جنرل پرویز مشرف سے بہت ناراض تھے۔ ایک دن بہت بیمار تھے لیکن پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے مشرف کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے دھرنے میں نظر آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی مشرف سے کیا لڑائی ہے؟ احمد فراز نے کہا کہ مشرف نے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کو جہنم بنادیا ہے اور اس سے بڑا ظلم کشمیریوں کے ساتھ کیا ہے اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر بھارت کو خوش کردیا ہے۔ احمد فراز شہیدِکشمیر مقبول بٹ سے بہت قلبی لگائو رکھتے تھے۔ مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی اور ان کا جسد خاکی جیل میں دفن کردیا گیا۔ فراز نے مقبول بٹ کے بارے میں کہا؎
گو آنکھ سے دور جا چکا تو
روشن مگر چراغ سا تو
محروم لبوں کا حرف زندہ
مظلوم دلوں کا ہم نوا تو
میں بھی تیرا ہم سفر تھا لیکن
میں آبلہ پا تھا برق پا تو
زنداں کے عذاب تک رہا میں
اور منزل دار تک گیا تو
دشمن کے حصار میں اکیلا
لشکر کے مقابلے پر تھا تو
کب قتل ہوئی ہے سچ کی آواز
خوشبو کی طرح ہے جابجا تو
اے جان جہاں سرفروشاں
لیلائے وطن کا دلرُبا تو
تھا تذکرہ مسیح و منصور
بے ساختہ یاد آگیا تو
اے کشتہ شب فراز کو بھی
مرنے کا ہنر سکھا گیا تو
اس نظم میں فراز نے باقاعدہ خود کو مقبول بٹ کا ہم سفر قرار دیا۔ ایک دن فراز صاحب نے کہا کہ میں مشرف کو اقتدار سے نکال کر مروں گا۔ مشرف نے 18 اگست 2008ء کو صدارت سے استعفیٰ دیا اور احمد فراز 25 اگست2008ء کو یہ دنیا چھوڑ کر اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔