آئی ایم ایف کی ہدایت پر’’کے الیکٹرک‘‘ کی انتظامیہ کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ بجلی کے نرخوںمیں 19سے30فیصد اضافہ کرے اور اس پر عملدرآمد کا اعلان 14 جولائی سے ہوچکا ہے۔اس تناظر میں سیاسی پارٹیاں خاموش ہیں لیکن کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار ویرہ نے کے الیکٹرک کو گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے نرخوںمیں اجازت دینے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کے الیکٹرک نے گھریلو صارفین کیلئے مختلف سلیب کے تحت نرخوںمیں ظالمانہ اضافہ کردیا ہے۔ امریکی خام تیل کی قیمت ساڑھے چھ برس کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ جس کے مطابق 32سینٹ کمی کے بعد 40.48ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے۔یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی اور گیس دونوں کے نرخوںمیں اضافہ کرکے نہ صرف ایماندار صارفین کا گلا دبایا جارہا ہے بلکہ’’اووربلنگ‘‘بھی کی جارہی ہے۔میرا جاننے والا ایک شخص روزانہ صبح 9بجے میٹر ریڈنگ کو ریکارڈ کرتا ہے۔ بل جو تین اگست کو وصول ہوا اس میں موجودہ ریڈنگ کے خانے میں وہ اعداد و شمار 9اگست کے درج ہیں اس ہیرا پھیری میں 500سے 600یونٹ زیادہ لگادیئے جاتے ہیں۔ اخباروں میں بتایا گیا ہےکہ 30فیصد نرخ بڑھانے کے بعد 15سے18 روپے فی یونٹ چارج کئے جائیںگے۔ لیکن اس شخص کے بل میں 20روپے فی یونٹ کے حساب سے بل بنایا گیا ہے۔ جبکہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ نئے میٹر 35فیصد تیز چلتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ شخص کے بل میں 5700 روپے انکم ٹیکس بھی وصول کیا گیا ہے جبکہ وہ ایک بڑے اخبار میں کام کرتا ہے۔ اس کا بیٹا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم اور بہو ایک بڑے اسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ ان سب کی تنخواہوں کے سورس سے ہی ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ شخص اپنے وکیلوں سے بات چیت کررہا ہے، یہ کونسا 235Aایکٹ ہے جس کے ذریعے ایف بی آر کی جگہ بجلی کا ادارہ انکم ٹیکس بغیر کسی تحقیق کے کاٹ رہا ہے اور کس تناسب سے کاٹ رہا ہے۔ یہ نیچرل جسٹس کے عین منافی کام ہورہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ملک میں امارت اور غربت کا یہ عالم ہےکہ 24 سال کے نوجوانوں کی تعداد 10 کروڑ ہوچکی ہے جن کا 70فیصد بیروزگار ہے اور لوگوں کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے اور گزشتہ کئی برسوںسے انرجی کے بحران کے دوران بجلی اور گیس کے نرخ مسلسل بڑھائے جارہے ہیں۔ ایک طرف عوام کی اکثریت تعلیم اور صحت تو کجا ایک وقت کی روٹی کھلانے کیلئے جدوجہد کررہی ہے اور دوسری طرف متوازئ معیشت کا یہ عالم ہےکہ انکم ٹیکس مالدار ترین لوگ ادا نہیں کرتے جبکہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق کاروںکی فروخت میں 2015 میں 120فیصد اضافہ ہوا ہے (خبر) ’’اووربلنگ‘‘ کی شکایت عام ہے پھر سیلز ٹیکس، سرچارج اور انکم ٹیکس بھی لیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تحقیق اگر نہ ہوئی تو عوام کا غصہ جب اجتماعی غصے کی شکل اختیار کرے گا تو انارکی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ حالت یہ کہ بجلی کے ادارے حکومتوں سے اربوں روپے کے بجلی بلوںکی واجب الادا رقم وصول نہیں کرسکتے اور ظلم یہ کرتے ہیں کہ وہ گھریلو صارفین کے بلوں میں اضافہ کرنے میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ امید ہے کہ وکلاء اس بارے میں عدالتوں کو آگاہ کریں گے کیونکہ پنجاب میں کراچی کے مقابلے میں زیادہ بلوں کی خرابی ہے۔ اب تو یہ کہنا پڑتا ہے ’’گھر کو اپنے آگ لگائیں روشن کالی رات کریں‘‘۔