کل کے سوویت یونین اور آج کے روس اور پاکستان کے مابین تعلقات ہمیشہ سے نشیب وفراز کا شکار رہے۔ مورخین کے خیال میں سوویت یونین کی کمیونسٹ قیادت 1947ء میں متحدہ ہندوستان خاص کر پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے ناخوش تھی۔ شاید اسی لئے جوزف اسٹالن نے گورنر جنرل محمد علی جناح کو آزادی کی مبارکباد دینا گوارا نہ کیا۔ مگر 1949ء میںبھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی امریکہ یاترا اور دولت مشترکہ میں بھارتی شمولیت کے تناظر میں سوویت یونین نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔ پاکستانی وزیر خارجہ سرظفر اللہ خان سوویت نائب وزیر خارجہ آندرے گرومائیکو کے مابین رابطوں کے باوجود دونوں ممالک کے میں سرد مہری کی بنیادی وجہ قیامِ پاکستان کا اسلامی نظریاتی پس منظر اور سوویت یونین کا لادین بالشویک ریاست ہونا تھا۔ تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھی جب مبینہ سوویت ایما پر کمیونسٹ خیالات کے حامل میجر جنرل اکبر خان نے اپنے جنگِ عظیم دوم کے ماتحت لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) فیض احمد فیض وغیرہ کی اشیر باد سے1950ء میں لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت (راولپنڈی سازش کیس) کی کوشش کی ۔
1954-55 ء میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا توسوویت یونین مزید ناخوش۔ پاکستان کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے معاہدوں کے خلاف مشرقی پاکستان میں چند مظاہرے بھی ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین نے مشرقی پاکستان کی کیمونسٹ پارٹی کے ذریعے 1956ء کی بنگالی زبان تحریک کی مبینہ خفیہ سرپرستی بھی کی ۔وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے پاک سوویت تعلقات بحال کرنے کا آغاز کیا۔سوویت فلموں کی پاکستان میں نمائش ہوئی۔ سوویت ثقافتی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی وفد سوویت صنعتی وزرعی ترقی کے مطالعہ کیلئے ماسکو گیا۔ 1956ء میں سوویت وزیراعظم نیکولائی بلگائنن نے پاکستانی حکومت کو تکنیکی و سائنسی امداد اور ایٹمی تعاون کے پرامن استعمال میں تعاون کی پیشکش کی ۔ مگر ہوا یوں کہ جولائی 1957ء میں امریکی صدر آئزن ہاور نے وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کی حکومت سے پشاور کے قریب خفیہ انٹیلی جنس سینٹر کے قیام کی سہولت حاصل کر لی۔ یکم مئی 1960ء کوامریکی سی آئی اے کے جاسوس طیارے نے پشاور ایئر بیس سے پرواز کی ۔ سوویت ایئر ڈیفنس نے جاسوس طیارہ تباہ کر کے پائلٹ فرانسس گیری پاورزکو گرفتار کر لیا اورطیارے کی باقیات سے سوویت ائیربیسز اور ملٹری انسٹالیشنز کی تصاویر برآمد کر لیں۔اسی روز سوویت وزیراعظم نکیتا سرگیووچ خرو شیف نے پشاور کے گرد سُرخ دائرہ لگانے اور پاکستان کو آگ سے نہ کھیلنے کی دھمکی دی۔
1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں سوویت یونین نے بھارت کو بھر پور فوجی امداد دی۔ بعد ازاں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور صدر ایوب خان نے ماسکو کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کم ہوا۔ دانشوروں، سائنسدانوں، فنکاروں، کھلاڑیوں،موسیقی اور ریڈیو وٹیلی وژن پروگراموں کے باہمی تبادلے ہوئے۔ 1968ء میں سوویت وزیراعظم الیکسی کو سیجن نے پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی اسٹیل ملز، نیوکلیئر پاور پلانٹ اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے معاشی امداد کے اعلانات کئے۔ استقبالیہ تقریب میں حفیظ جالندھری نے ایک نظم پڑھی جس میں سوویت وزیراعظم کی پاکستان آمد کو کشمیری عوام کیلئے انصاف اور حق خود ارادیت کی صبح کے طلوع ہونے کا ذریعہ قرار دیا ۔ الیکسی کوسیجن شاعری سے محظوظ ہوئے مگر مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیاررکھی ۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں سوویت یونین نے بھارتی افواج و مکتی باہنی کی حمایت کی۔ سوویت نیوی کی دو ایٹمی آبدوزیں کے۔320 اور چارلی بحر ہند بھجوائی گئیں جنھوں نے امریکی بحری بیڑے ٹاسک فورس ۔74 کا تعاقب کیا تاکہ بھارتی بحریہ کو امریکی بحری بیڑے کے ممکنہ حملے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں سوویت یونین اور پاکستان کے مابین تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہوئے ۔1971ء میں سوویت یونین نے کراچی میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی اسٹیل ملز کے قیام کیلئے پاکستان کو تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے ۔ دسمبر 1973ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس عظیم منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا ۔
ڈیورنڈ لائن کے مسئلہ پر 1970-80ء کی دہائی میں سوویت یونین نے افغان کیمونسٹ حکومت کی حمایت کی۔1979 ء میں سوویت افواج نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستان نے امریکہ ، برطانیہ ، یورپی ممالک ، سعودی عرب اور چین کے ساتھ مل کرافغان مجاہدین کی اعلانیہ امداد کی ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی حمایتی تھیں۔1980ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے بعض رہنمائوں نے سوویت یونین میں سیاسی پناہ حاصل کی اور فوجی حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ سوویت افواج کیخلاف افغان مزاحمت کی حمایت نہ کرے ۔ایک طرف پاکستان اور سو ویت یونین افغانستان کے مسئلے پر باہم برسرپیکار تھے اور ان کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر تھے۔ دوسری طرف 1981ء میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن کے قیام کے لئے سوویت یونین نے نہ صرف مالی وتکنیکی امداد دی بلکہ ایک نیو کلیئر پاور پلانٹ کے قیام کی پیشکش کر کے پاکستان کو حیران کر دیا ۔اپریل 1981ء میں سوویت یونین نے زرعی ٹریکٹر بنانے کیلئے پاکستان کو 20 ملین امریکی ڈالر کی امداد دی ۔اُسی سال نومبر میں سوویت سفیر نے برآمدی مصنوعات والی صنعتوں کے قیام کیلئے پاکستان کی مالی وتکنیکی امداد کی حامی بھری ۔ 1983 ء میں ملتان میں بھاری پانی کے ریکٹر کی تنصیب کے لئے سوویت یونین نے سازوسامان مہیا کیا اور پاکستانی ماہرِ طبعیات ڈاکٹر عبدالسلام کو طلائی تمغہ سے نواز ا ۔15 جنوری 1985ء کو سوویت نمائندوں کی موجودگی میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے سوویت سرمائے سے مکمل ہونے والی پاکستان اسٹیل ملز کا افتتاح کیا ۔ پاکستان اسٹیل ملز کراچی کو آج بھی پاک روس تعلقات کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
.