کراچی (نیوز ڈیسک) بھارتی ریاست گوا کے ایک پرتگالی نژاد بھارتی مصنف لوئس ڈی آسس کورئیا نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کی اہلیہ جودھا بائی دراصل راجپوت شہزادی نہیں بلکہ پرتگالی شہری ڈونا ماریہ ماسکرناس تھیں جنہیں ان کی بہن جولیانا کے ہمراہ پرتگال سے خطے میں آمد کے موقع پر بحیرۂ عرب کے سمندروں سے گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں گجرات کے حکمران بہادر شاہ نے ان دونوں بہنوں کو جلال الدین محمد اکبر کو بطور تحفہ بھیج دیا۔ بھارتی مصنف کا کہنا ہے کہ جب ڈونا ماریہ اکبر کے دربار پہنچیں تو مغل حکمران ان پر فریفتہ ہوگئے۔ اس وقت اکبر کی عمر 18؍سال تھی اور وہ شادی شدہ تھے اور ڈونا ماریہ کی عمر 17 سال تھی۔ پناجی میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے بھارتی مصنف نے مزید بتایا کہ دربار میں آمد کے موقع پر جلال الدین محمد اکبر نے دونوں بہنوں کو اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے حرم بھجوادیا۔ چونکہ پرتگالی اور کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے مسیحی یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ڈونا ماریہ کسی مسلمان کے حرم میں رہے جبکہ مغل دربار کے لوگ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے کہ کوئی فرنگی مغل بادشاہ کی اہلیہ بن سکے، اسی لیے برطانوی اور مغل مورخین نے جودھا بائی کی کہانی گھڑی۔ انہوں نے کہا کہ اکبر اور جہانگیر کی تحریروں سے بھی کسی جودھا بائی کا ذکر نہیں ملتا۔ 173؍ صفحات پر مشتمل کتاب میں اشارہ ملتا ہے کہ ڈونا ماریہ ممکنہ طور پر مغل حکمران جہانگیر کی والدہ تھیں اور ان کا حوالہ مریم الزمانی یا پھر جودھا بائی یا پھر ہرکا بائی کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ مغل ریکارڈ کے مطابق، جہانگیر کی والدہ کا نام کہیں بھی مریم زمانی نہیں بتایا گیا۔ پرتگالی نژاد بھارتی مصنف لوئس ڈی آسس کورئیا کہتے ہیں کہ یہ ایک پہیلی ہے کہ مغل مورخ و مترجم عبدالقادر بدایونی اور ابو الفضل نے جہانگیر کی ماں کا ذکر نام کے ساتھ کیوں نہیں کیا۔ اگر جہانگیر کی ماں راجپوت گھرانے کی معروف شہزادی ہوتی تو یقیناً اس بات کو شان و شوکت کے ساتھ تحریر کیا جا چکا ہوتا کیونکہ مغل خاندان راجپوتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد قائم کرنے کیلئے پرجوش نظر آتا تھا۔ پرتگالی نژاد بھارتی مصنف نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پروفیسر شیرین موسوی کا حوالہ بھی پیش کیا اور کہا کہ اکبر نامہ یا پھر کسی بھی مغل دستاویز میں جودھا بائی کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اکبر نے کچھاوا قبیلے کے سربراہ بھا مل کی بیٹی سے شادی کی تھی لیکن اس لڑکی کا نام جودھا بائی نہیں تھا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جس طرح مغل بادشاہ جہانگیر نے مسیحی برادری اور رومن کیتھولک مذہب کی تبلیغ کرنے والوں کی حمایت اور سرپرستی کی اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جہانگیر کا شجرہ کسی راجپوت شہزادی سے نہیں بلکہ پرتگالی خاتون سے ملتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ ایک راز ہے کہ جہانگیر نے کبھی اپنی ماں کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ کیا وہ کوئی ایسی مسلم یا ہندو خاتون نہیں تھیں کہ جس کا ذکر کیا جا سکے؟