• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم و تدریس انتہائی اہم اور مقدس شعبہ ہے جبکہ تعلیمی ادارے تقدیس و تہذیب کی علامت کا درجہ رکھتے ہیں۔ تدریسی اداروں کے نصاب میں ہر برائی کی ممانعت اور اچھائی کی تلقین پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ تصور بھی کسی انسانی معاشرے میں موجود نہیں ہوگا کہ جن درس گاہوں میں ابنِ آدم کو جانور سے انسان بنانے کیلئے بھیجا جاتا ہے، وہاں کسی منفی سرگرمی کا دور دورہ ہو۔ یہ اعزاز صرف اور صرف پاکستان ہی کو حاصل ہے جہاں ملک کا کوئی بھی ادارہ کرپشن، اقربا پروری، طاقتور میرٹ اور فیورٹ ازم سے پاک نہیں ہے۔ افسوس کہ اس خطرناک وائرس نے اب تعلیم و تدریس کے مقدس اداروں کو بھی بری طرح مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک ترقی پذیر قوم کی حیثیت سے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم نئی نسل کی تعلیم و تربیت جدید دور کے تقاضوں اور اصولوں کے مطابق کریں کیونکہ یہ چیلنجوں کا دور ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل جدید سائنسی علوم اور آئی ٹی میں مہارت رکھتی ہو۔ یہ سارا کچھ تبھی ممکن ہے اگر وفاقی و صوبائی قیادتیں ملک سے فرسودہ نظام کا خاتمہ کرکے حقیقی تبدیلی کا آغاز کریں اور صوبوں کی تقدیر بدلنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے حکمرانوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے تعلیمی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کریں تاکہ تدریسی ادارے تعلیمی میدان میں عوام کی خدمت اور ان کی شکایات کے ازالے کے لئے مؤثر طریقے سے اپنی خدمات انجام دے سکیں اور صوبوں کی بدولت ملک حقیقی معنوں میں ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اِن تمام تر خواہشات کے باوجود یہ ایک سراب اور دیوانے کا خواب ہی ہے جو آنے والے چند سالوں میں پنجاب اور سندھ کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ جائے گا۔ صوبائی خود مختاری کے تحت تعلیمی نظام انفرادی طور پر صوبوں کو منتقل ہو جانے کے بعد پاکستان میں مجموعی شرح خواندگی کا تناسب بدستور تنزلی کی طرف مائل ہے۔ صوبہ پنجاب جو قبل ازیں گنجان آبادی کی بدولت تعلیمی شعبہ میں قدرے متناسب کیفیت کا حامل تھا مگر اِس وقت پنجاب کی تعلیمی حیثیت دیگر صوبوں کی نسبت حوصلہ شکن حد تک خطِ جہالت سے پینگیں بڑھا رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی ایجوکیشن سیکٹر میں عدم دلچسپی، محکمہ تعلیم میں خلافِ میرٹ بھرتیاں، تعلیمی اداروں کے سفارشی بھرتی کئے ہوئے عملہ کی دل دہلا دینے والی کرپشن اور اختیارات کا غیر مجازانہ اور بے رحمانہ استعمال، غیر معیاری نصاب اور تعلیم کا گرتا ہوا گراف ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کا تعلیمی بجٹ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ پرائمری، مڈل، ہائی اسکولوں اور کالجوں کی اَپ گریڈیشن کا کوئی جامع پروگرام کاغذوں کی حد تک بھی موجود نہیں ہے۔ آبادی میں خوفناک حد تک اضافے کے باوجود گاؤں، یونین کونسلوں اور تحصیلوں کی سطح پر نئے اسکول، کالج بنانے کا کوئی انفراسٹرکچر صوبائی حکومت کی طرف سے شروع ہی نہیںکیا گیا، جس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پرائیویٹ سیکٹر نے شہروں سے لیکر دیہات تک تعلیم کے شعبے میں پنجے گاڑ لئے ہیں، نتیجتاً محنت کشوں اور مزدوروں کے بچے یا تو مدرسوں کا رُخ کر رہے ہیں یا پھر بھٹوں اور چائے کی دُکانوں پر ذلتوں کی سندیں حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے پنجاب اور اندرونِ سندھ کی کارکردگی انتہائی پست ہے جبکہ خیبر پختونخوا ایجوکیشن سیکٹر میں اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر تمام صوبوں سے نسبتاً اعلیٰ پرفارمنس کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بلوچستان حکومت بھی تعلیمی و تدریسی شعبوں پر حوصلہ افزا بجٹ خرچ کر رہی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ گلگت بلتستان کی طرح بلوچستان بھی شرح خواندگی میں پنجاب اور سندھ سے سبقت لے جائے۔ تعلیم پر اگر کوئی صوبہ قابلِ اطمینان حد تک کام کر رہا ہے تو وہ صرف خیبر پختونخوا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت عوام کی فلاح وبہبود کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اس نے اپنے چار سال کے دورِ حکومت کے دوران تعلیم کے شعبے میں اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے قابلِ ذکر، تاریخ ساز ، ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ ،جامع تعلیمی و فنی ماحول کی فراہمی اور خواتین کے لئے تعلیمی میدان میں عمر کی حد ختم کرنے کے لئے ریکارڈ قانون سازی کی ہے۔ تعلیمی میدان میں یہ ایسے غیر معمولی اقدامات ہیں جومستقبل قریب میں خیبر پختونخوا کو سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والا صوبہ بنانے میں پیش پیش ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب محکمہ تعلیم سندھ میںکرپشن، جعلسازی اور جعلی بھرتیوں کا سلسلہ آسمان کو چھو رہا ہے۔ محکمہ مستقبل کے معماروںکی تعمیر سازی میں اتنی بدنیتی دَر آئی ہے کہ کرپشن کے مختلف ریکارڈ اپنے نام کرنے والے ایک افسر کو دوبارہ ایک ادارے کا چیئرمین تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ ایک دوسرے افسر کو بحال کرنے کی سمری بھی تیار کر لی گئی ہے۔ ان دونوں افسران کے خلاف بالترتیب کرپشن کے پہاڑ توڑنے اور دو ہزار سے زائد جعلی بھرتیاں کرنے کے الزام میں نیب میں انکوائری چل رہی ہے۔ ایسی ہی کچھ دس ہزار جعلی بھرتیاں سندھ کی ایک سابق حکومت کے دور میں بھی ہوئی تھیں جس میں 36 افسران ملوث پائے گئے تھے، ان افسران کی پروجیکٹ میںمبینہ کرپشن کی وجہ سے سندھ میں 4ہزار اسکول بند کر دیئے گئے تھے۔ محکمہ تعلیم سندھ کے خلاف مختلف عدالتوں میں کرپشن اور ہیر پھیر کے مقدمات کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جس پر محکمہ تعلیم کے لیگل آفیسر نے صرف اسلئے معذرت کر لی کہ وہ بیک وقت ہائی کورٹ، نیب کورٹ اور اینٹی کرپشن کورٹ میں پیش نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح پنجاب کے پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کے اعدادوشمار کا اندازہ لگایا جائے تو حکومتی کھاتے میں لگنے والا چونا ہی اربوں کا ہے۔ ایک سال ہونے کو ہے۔
مگر برطانیہ سے ملنے والی 700 ملین کی امداد غائب ہونے پر قوم کو ابھی تک کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیاگیا۔ ایک ہائی اسکول کی پرنسپل پر لاکھوں کی گرانٹ جعلی اور بوگس بِل بنا کر خوردبرد کرنے کا الزام ثابت ہونے کے باوجود انکوائری کو سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایک ضلع کی پرائیویٹ اسکولز کی رجسٹریشن برانچ میں رجسٹریشن، ویری فکیشن اور عمارتوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی مد میں ایک کلرک کروڑوں پتی اور جائیدادوں کا مالک کیسے بن گیا، یہ انکوائری بھی رُکی ہوئی ہے۔ ایک اور ضلع میں ہونے والی بڑے پیمانے پر کرپشن، سرکار کو کروڑوں کا چونا، خودساختہ سینکڑوں اساتذہ کی بھرتیاں، عدالتی احکامات کی آڑ میں سینکڑوں ملازمین کی بحالیاں اور تعیناتیاں، بوگس بِل، بقایا جات اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہائیکورٹ میں ثابت ہو جانے کے باوجود انکوائری آفیسر متعلقہ دستاویزی ریکارڈ اینٹی کرپشن کو مہیا کیوںنہیں کر رہا، اس مصلحت کا پول بھی نہیں کھل سکا۔ اس طرح کے ہزاروں کیسز ہیںجن سے پردہ اُٹھ جائے تو عقل دنگ رہ جائے۔ (جاری ہے)



.
تازہ ترین