• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناموس رسالت ﷺ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تفصیلی فیصلہ

Todays Print

آپؐ کی حفاظت،جلال و تکریم میں لوگوں کی فداکاری، کسی اور کیلئے نظیر نہیں ملتی
(قسط نمبر5)
جسٹس شوکت عزیز صدیقی
یا اسی طرح کی وہ تکالیف جو کافروں نے آپ ﷺ کو پہنچائیں مگر اس امید پر کہ آیندہ یہ اسلام قبول کر لیں گے آپ ﷺ نے انہیں معاف فرما دیا یا آپﷺ نےاس یہودی کو معاف فرما دیا جس نے آپ ﷺ پر جادو کیا تھا یااس اعرابی کو جس نے آپﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا یااس یہودی عورت کو جس نے آپ ﷺ کو زہر دے دیا تھا بعض کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نےاسے قتل کرایا اور اسی قسم کی وہ تکلیفیں تھیں جو آپ ﷺ کو اہل کتاب اور منافقین سے پہنچی تھیں، مگر آپ ﷺ نے انہیں اس لیے درگزر فرما دیا کہ انہیں اور دوسروں کو اسلام سے محبت پیدا ہو ۔
10۔اکثر اہل مغرب کو اپنے مذہبی پس منظر اور اپنی مخصوص مذہبی تاریخ کے باعث اس امر کو سمجھنے میں شدید مغالطہ ہے کہ اسلام میں شاتم رسول کی عقوبت قتل کیوں مقرر کی گئی ہے ، لیکن باعث حیرت ہے کہ بعض مسلمان بھی مغرب کی اندھی تقلید میں ان وجوہات کو قطعاً نظر انداز کر دیتے ہیں جن کی بنیاد پر اسلام میں شاتم رسول کی عبرت ناک سزا مقرر کی گئی ہے ۔ اسلام اور اسلام کے مزاج و تعلیمات سے ناآشنائی کے سبب ایک غیر مسلم کی قانون توہین رسالت پر تنقید تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس مسئلہ میں ان مسلمانو ں کی اہل مغرب کی بے چوں و چرا اطاعت سمجھ سے بالا تر ہے ۔انٹر نیٹ پر غلاظت سے بھر پور مواد میں ایک وافر حصہ ایسے مواد کا بھی ملتا ہے جس میں قانون توہین رسالت کی آڑ میں نبی مہربان ﷺ کی ذات پاک کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے ۔ اور بد قسمتی سے چند نام نہاد مسلمان بھی اسی دوڑ میں اہل مغرب سے پیچھے نہیں رہے ۔ اس موقع پر یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ قرآن و سنت ' آثار صحابہ ، تعامل امت اور محققین کے دلائل کی روشنی میں اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ وہ کیا وجوہات اور اسباب ہیں جن کی بناء پر شاتم رسول اسلامی شریعت کی روشنی میں مباح الدم اور واجب القتل ٹھہرایا گیا ہے ، یقیناً اس حوالے سے تمام دلائل کا احاطہ ممکن نہیں بہر حال بنیادی عوامل درج ذیل ہیں :
i.اسلام میں محبت رسول ﷺ کی شرعی و قانونی حیثیت :
ہر مسلمان نبی کریم ﷺ سے والہانہ محبت کرتا ہے ۔ ایسی محبت کہ وہ خود اپنی ذات سے بھی اتنی محبت نہیں کر سکتا ۔ کسی بھی مذہب یا نظریے کے پیروکاروں کا اپنی مقدس ہستیوں یا لیڈروں سے شدید ذہنی وابستگی اور محبت و عقیدت کا اظہار اور ان کے حوالے سے جذباتی تعلق ایک فطری امر ہے۔جو کہ انسان کی سرشت میں شامل ہے لیکن اسلام نے محبت ِ رسول ﷺ کو ایمان کا معیار مقرر کیا ہے ۔ بلکہ محبوب کی فہرست میں نبی ﷺ کا مقام سر فہرست ہونا ایمان کا لازمی تقاضا ہے ۔ اللہ رب العزت نے خود ہی قرآن مجید میں محبت رسول ﷺ کو ایمان کا لوازمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول(ﷺ) سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
قاضی عیاض اپنی مشہور کتاب "الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ " میں اس آیت کریمہ کے ذیل میں لکھتے ہیں :
" اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضور ﷺ کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آپ سے محبت کرنے پر اُبھارا اور تنبیہ فرمائی ہے ۔ یہ آیت اس بات پر حجت اور دلیل ہے اور معلوم ہوا کہ آپ کی محبت فرض اور لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جھڑکا ہے جنہیں ان کا مال اور اولاد اور آباء و اجداد اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے زیادہ پیارے ہوں اورا نہیں اپنے اس قول کے ذریعے ڈرایا ہے اور ان کو جتلایا ہے کہ بے شک ایسے لوگ گم کردہ راہ ہیں اور اللہ نے انہیں ہدایت نہیں دی ہے "۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
بلاشبہ نبی (ﷺ )مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور نبی (ﷺ)کی بیویاں مومنوں کی ما ئیں ہیں ۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے :
حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے بچوں والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اور حضرت انس ؓہی سے روایت ہے :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی اس کو ایمان کا مزہ آجائے گا جس شخص سے محبت کرے صرف اللہ کے لئے کرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اس کو تمام عالم سے زیادہ محبوب ہوں جب اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دے دی تو پھر کفر کی طرف لوٹنے سے زیادہ آگ میں ڈالے جانے کو اچھا سمجھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بارنبی کریم ﷺ کو عرض کیا کہ اے نبی ﷺ ! میں آپ کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں سوائے میری جان کے ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُ س کو اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ قسم ہے اُ س ذات کی جس نے آپ پر قرآن نازل کیا کہ آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں اس پر نبی ﷺ نے فرمایا الآن یا عمر……اب ٹھیک ہے عمر !
اس ضمن میں اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں ۔صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے قبیلہ کی جانب سے حضور ﷺ کے پاس بطور نمائندہ حاضر ہونے والے عروہ بن مسعودکا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کاحضور اکرم کے ساتھ والہانہ عشق اوروارفتگی کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔جسے محدثین نے تفصیلاً نقل کیا ہے ۔ عروہ بن مسعود نے اپنی قوم میں واپس جا کر اصحاب رسولﷺ کی رسول اللہ ﷺ سے محبت کا جو نقشہ پیش کیا وہ کچھ یوں ہے :
"اے لوگو اللہ کی قسم، میں بادشاہوں کے دربار میں گیا، قیصر وقصریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا، مگر اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمدؐ کی یہ تعظیم کرتے ہیں، اللہ کی قسم، جب تھوکتے ہیں، تو وہ جس کسی کے ہاتھ پڑتا ہے، وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ کسی بات کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو ان کے اصحاب بہت جلد اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں، جب وضو کرتے ہیں، تو ان کے غسالہ وضو کیلئے لڑتے مرتے ہیں اپنی آوازیں ان کے سامنے پست رکھتے ہیں، نیز بغرض تعظیم ان کی طرف دیکھتے تک نہیں، بےشک انہوں نے تمہارے سامنے ایک عمدہ مسئلہ پیش کیا ہے، لہٰذا تم اس کو مان لو"
درج بالا آیات و احادیث میں محبت رسول ﷺ کو ایمان کے ساتھ مکمل پیوست کر دیا گیا ہے جس کے بعد ایسے کسی ایمان کا تصور بھی ناممکن ہے جو حُب رسول ﷺ سے عاری ہو ۔ ایک ایسی امت جس کے دل میں نبی ﷺ کی محبت اپنی جان سے ، اپنے مال ومتاع سے ، اہل وعیال سے بڑھ کر ہو کیسے توہین رسالت برداشت کر سکتی ہے ؟ کیسے اپنے عزیز از جان نبی ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی پر سکون اور ہوش کا دامن تھام سکتی ہے ؟یہ خود اللہ کی شان کریمی کے خلاف تھا کہ خود اپنے نبی سے محبت کا حکم بھی دیتا اور دوسری طرف گستاخان ِ رسول کو شتر بے مہار جیسی آزادی بھی عطا کر دیتا کہ وہ نبی ﷺ اور اس کے عاشقان کی دل آزاری کریں ۔ نبی ﷺ سے والہانہ محبت کا جو پہلو امت محمدیہ میں ہے اس کی کو ئی نظیر ملنا محال ہے ۔ اس لیے شاتم رسول کی سنگین سزا کا مقرر کیا جانا حُب رسول ﷺ کا لازمی نتیجہ ہے ۔ محبت کے تقاضوں میں ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ محبوب کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والی زبانوں کو لگا م دیا جائے ۔ اس لیے اسلامی قانون نے یہ راستہ ہموار کیا ہے ۔
ii.اسلام میں نبی ﷺ کی تعظیم اور احترام کے بارے میں واضح احکامات :
توہین رسالت کے اسلامی قانون کی دوسری بنیا د نبی کریم ﷺ کے حکم کی تعظیم اور آپ ؐ کی ذات کی تکریم ہے ۔ اسلام رسول ﷺ کی اطاعت وفاداری ہی فرض نہیں کرتا بلکہ ان کا ہر لحاظ سے مکمل ادب و احترام بھی لازم قرار دیتا ہے ۔ نبی ﷺ کی شان اقدس میں ذرہ برابر بے ادبی اور آپ ﷺ کی ذات کے بارے میں خفیف سی بدگمانی بھی ایک مسلمان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں ناکامی و نامرادی کا سبب بن سکتی ہے اور اس کے زندگی بھر کے تمام نیک اعمال غارت ہو سکتے ہیں ۔ اسلام نبی کریم ﷺ کے ادب و احترام کے بارے میں اس قدر محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہے کہ اپنی آواز بھی رسول ﷺ کی آواز سے پست رکھی جائے ۔ آپ ﷺ کی آواز سے بلند آواز نیکی کے تمام اعمال ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔
(ترجمہ) یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔تاکہ (اے مسلمانو)، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام۔ (سورۃ الفتح،آیت 8-9)
(ترجمہ) اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے آگے نہ بڑھواور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی(ﷺ) کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔ (الحجرات 1،2 )
(ترجمہ) تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انھیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں ۔سنو جو لوگ حکم رسول ﷺکی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
مولاناصفی الرحمٰن مبارکپوری اپنی کتاب " الرحیق المختوم " میں لکھتے ہیں ؛
"نبی کریم ﷺ ایسے جمالِ خلق اور کمالِ خلق سے متصف تھے جو حیطہء بیان سے باہر ہے ۔ اس جمال و کمال کا اثر یہ تھا کہ دل آپ ؐ کی تعظیم اور قدرومنزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہو جاتے تھے ۔ چناچہ آپ ؐ کی حفاظت اور اجلال و تکریم میں لوگوں نے ایسی ایسی فداکاری و جاں نثاری کاثبوت دیا جس کی نظیر دنیا کی کسی اور شخصیت کے سلسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی ۔ آپؐ کے رفقاء اور ہم نشین وارفتگی کی حد تک آپ ؐ سے محبت کرتے تھے ۔ انہیں گوارا نہ تھا کہ آپ ؐ کو خراش تک آ جائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کاٹ دی جائیں ۔ اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادۃً جن کمالات پر جان چھڑکی جاتی ہے ان کمالات سے جس قدر حصہ وافر آپ ؐ کو عطاہوا تھاکسی اور انسان کو نہ ملا۔ "
اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس طرح حضور ﷺ کی توقیر و تعظیم آپ(ﷺ) کی حیات میں لازم تھی اسی طرح آپ (ﷺ)کی وفات کے بعد بھی آپ (ﷺ)کا احترام لازم ہے ۔ (قاضی عیاض / الشفاء)
یہ تمام آیات اور حادیث و آثار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ایمان اور ادب بارگاہ مصطفیٰﷺ لازم و ملزوم ہیں کہ جو مذہب اپنے ماننے والوں کو رسول ﷺ کا اس درجہ مطیع اورفرماں بردار بناتا ہے کہ رسول ﷺکی محفل میں اونچی آواز سے بات کرنے ، رسول ﷺ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آوازے دینے ،رسول ؐ سے آگے بڑھنے اور رسول ؐ کو عام انسانوں کی طرح مخاطب کرنے کو " تمام اعمال کے ضیاع " کے مترادف قرار دے تو پھر پیروان ِ محمد ؐ سے یہ کیسے تو قع کی جاسکتی ہے کہ کوئی بد بخت آپﷺ کی ذات کو (نعوذ باللہ) ہدف طعن و ملامت بنائے اور اسے آزادی اظہار کے نام پر اپنے مکروہ اور شنیع دھندے کو دہرانے کا موقع دیا جائے تاکہ دوسرے بھی اس سے حوصلہ پکڑیں اور پھر توہین کے بازار کو گرم ہونے کا موقع دیا جائے ۔ ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا ایسی ناپاک جسارت کی بیخ کنی کے لیے اسلامی قانون فوراً حرکت میں آتا ہے اور شاتم رسول کو کیفر کردار تک پہنچاکر احترام رسول ﷺ کے قرآنی تقاضے کی تکمیل کرتا ہے ۔
iii.اسلام میں نبی ﷺ کے اسو ہ حسنہ کا واجب الاتباع ہونے کا تصور :
اسلام میں سرور عالم ﷺ کا جو مقام ہے اس کا احاطہ نہ کسی عدالتی فیصلے میں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی بشر کے لیے ممکن ہے کہ آپ ﷺ کے مرتبہ ومقام کو ضبط تحریر میں لا سکے۔ خود اللہ رب العالمین ہی کی ذات آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ کو بہتر جانتی ہے۔
آپ ﷺکی ذات بابرکات جہاں ایک طرف وحی الٰہی کی شارح ہے 'وہیں دوسری طرف شارع بھی ۔ آپ ؐ کاہر قول ' ہر فعل اور ہر عمل اللہ رب العزت کی مرضی و منشاءکا ترجمان ہے ۔ اسلام نے اپنے پیغمبر ﷺ کی زندگی کو انسانیت کے لیے ایک بہترین نمونہ بنایا اور مسلمانوں کے لیے آپ (ﷺ) کی پیروی کو خدا کی محبت کا ذریعہ بتایا۔ قرآن مجیدکی واضح تصریحات کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور سے آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ تسلیم کیا ہے کہ قرآن کے بعد قانون کا دوسرا ماخذ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔ سنت کے ماخذ ِقانون ہونے اور واجب الاتباع ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ امت محمد یہ کا یہ واضح مؤقف ہے کہ آپ ﷺ کی ذات بحیثیت معلم و مربی ، بحیثیت پیشوا و نمونہ تقلید ، بحیثیت شارح قرآن مجید ، بحیثیت قاضی ، بحیثیت حاکم و فرمانروا اور بحیثیت شارع، اتباع اور پیروی کی لازم حیثیت رکھتی ہے ۔
بیاں کے روپ میں قرآن تجھ پہ اترا تھا
عمل کے روپ میں قرآں عطا کیا تو نے
(نعیم صدیقی)
جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ رسول ﷺ شارح قرآن بھی تھے اور خدا کے مقرر کردہ شارع بھی ۔ان کا منصب یہ بھی تھا کہ " لوگوں کے لیے خدا کے نازل کردہ احکام کی تشریح کریں " اور یہ بھی کہ " پاک چیزیں لوگوں کے لیے حلال کریں اور ناپاک چیزوں کو اُن پر حرام کردیں " ۔ قرآن مجیدبار بار اس امر کی صراحت کرتا ہے کہ رسول ہونے کی حیثیت سے جو فرائض رسول اللہ ﷺ پر عائد کیے گئے تھے اور جو خدمات آپ ﷺ کے سپر دکی گئی تھیں اُن کی انجام دہی میں آپ ﷺ اپنے ذاتی خیالات و خواہشات کے مطابق کام کرنے کے لیے آزاد نہ تھے بلکہ وحی الٰہی کے پابند تھے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ " اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۭ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں
آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے ۔
کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ ٹیڑھی راہ پر ہے ۔اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ اور عقل بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کو خدا کی طرف سے رسول مقرر کیا جائے تو پھر اُسے رسالت کا کام اپنی خواہشات و رجحانات اور ذاتی آرا کے مطابق انجام دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ وہ وحی الٰہی اور امر الٰہی کا پابند ہے ۔ ابتدائی دور سے لے کر آج تک مسلمان اس امر پر یکسو ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے قول و عمل سے اسلامی انداز فکر اور دین کے اصول و احکام کی جو تشریح فرمائی ہے ، اس میں آپ ﷺ کی پیروی ہم پرواجب بھی ہے اور ہمارے ایمان کی بنیاد بھی ۔ جو کچھ رسول ﷺ دیں و ہ لے لو اور جس سے وہ منع کر دیں اُس سے رُک جاؤ،جس قول و عمل کی سند آپ ﷺ دیں صرف اُسی کو اپنے لیے نمونہ سمجھو، جس کو و ہ حق بتائیں اُسی کو معیار حق تصور کرو ، جو فیصلہ وہ دیں اُسی فیصلے کی طرف رجوع کرو ، ان کے فیصلے کی بظاہر ہی نہیں دل سے تائید کرو ، اور پھر اگر اللہ کی محبت مطلوب ہے تو اللہ کے رسول کی اتباع کرو ۔ یہ وہ اختیارات ہیں جو احکم الحاکمین اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو تفویض کیے ہیں اور یہ ہے دین اسلام میں رسول ﷺ کی اصل حیثیت جسے قرآن اتنی وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔
بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا (۱) جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت (۲) سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (آل عمران3- 164)
یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں ۔ (النحل -44)
3۔وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (٢) اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں (الاعراف ۔ 157 )
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔(الحشر -7)
ہم نے ہر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے۔( النساء -64)
اس رسو ل( ﷺ )کی جو اطاعت کرے اسی نےاللہ کی اطاعت کی (النساء -80)
ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول (ﷺ)کی ماتحتی کرو (النور -54 )
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے (الاحزاب -21 )
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ(ﷺ) کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ(ﷺ) ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔ (النساء -65)
اے ایمان والو!فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو (رسولﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ (۱) پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ (النسا ء -59)
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو (آل عمران 3/31)
اسی آیت کے ضمن میں علامہ سید سلیمان ندویؒ نےاپنی معرکۃ الاراء تصنیف ' خطبات مدراس ' میں اتباع رسول ﷺ کی اسی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ "آپ ﷺ کی اتباع یعنی آپ کی زندگی کی نقل و عکس کو خداکی محبت کا معیار بتایا ۔ ایک لمحہ کے لیے نشئہ دینی سے سر مست ہو کر اپنی جان دینا آسان ہے مگر پوری عمر ہر چیز میں ' ہر حالت میں ' ہر کیفیت میں آپکی اتباع کے پل صراط کو اس طرح طے کرنا کہ کسی بات میں سنت محمدی ؐ سے قدم اِ دھر اُدھر نہ ہو ' سب سے مشکل امتحان ہے ۔ اس اتباع کے امتحان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پورے اُترے اور اسی جذبہ سے صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثین، مورخین اور ارباب سیر کا یہ اہم فرض قرار دیا کہ آپ ؐ کی ایک ایک بات ، ایک ایک چیز ، ایک ایک جنبش کو معلوم کریں ' پچھلوں کو بتائیں تاکہ اپنے اپنے امکان بھر ہر مسلمان اس پر چلنے کی کوشش کرے ۔ اس نکتہ سے ظاہر ہو گا کہ آنحضرت ؐ کی زندگی ان کے جاننے والوں کی نگاہ میں پوری کامل تھی ، تب ہی تو اسکی نقل کو انہوں نے کمال کا معیار ِیقین کیا "۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے آپ ؐ کی سیرت کے اسی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "چونکہ نوع انسانی کی سعادت و تنویر کا مبداء وجود انبیاء ہے اور حقیقت محمد ان پر سب سے مافوق اور شمس و کواکب اور صباح و مصباح کے معاملے کا حکم رکھتی ہے ، اسی لیے حیات قائمہ و دائمہ کا نور الانوار اور مصباح المصباح وہی دائرہ ٹھہرا " اور مزید فرمایا کہ " قرآن کے بعد اگر کوئی اور ہستی لوح محفوظ ہو سکتی ہے تو وہ صرف وہی روح اعظم و خالد ہے جس کے ذکر کو خود قرآن نے اپنی آغوش حفظ و صیانت میں ہمیشہ کے لیے لیا ہے " ۔ اس ضمن میں خود نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہی کافی و شافی ہے کہ
(تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اُس کی خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لے کر آیا ہوں ۔)
لہٰذا اس دین کی بنیاد نبی مہربان ﷺ کی ذات کی اتباع پر ہے ،یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ذات شریعت کا منبع و مصدر اور ماخذ قانون ہو اور جو ذات امت محمدیہ کے ہر فرد کے لیے مشعل راہ ہو اس کی تضحیک وہرزہ سرائی کو برداشت کیا جائے ؟ نبی کریم ﷺ کو بطور کامل نمونہ تسلیم کرتے ساتھ ہی یہ امر خود بخود لازم ٹھہرتا ہے کہ آپ ﷺ کی ذات پر الزام تو درکنار کو ئی ادنٰی سا شائبہ بھی اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے کافی ہے اس لیے شریعت کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کہ آپ ﷺ کی ذات گرامی اور ناموس کی حفاظت فرمائی جاتی اسی لیے شریعت نے گستاخی رسول (ﷺ)کے معاملے میں عدم استثناء کا رویہ اپنایا ۔ یہ بات سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ اگر موجودہ دور میں ایک ریاست اپنے بانیوں اور آزادی کے لیڈروں کے احترام کی حفاظت کرتی ہے اور جس طرح ریاست کے دستور کو پامال کرنے والا باغی ٹھہرتا ہے اور جس طرح ریاست کے خلاف کام کرنے والا ریاست کا دشمن اور غدار تصور ہوتا ہے ، افواج کو بدنام کرنے والا اور عدلیہ کی تضحیک کرنے والاسخت سزا کا مستحق تو آخر کیا وجہ ہے کہ وہ دین جس کی بنیاد ہی نبی کریم ﷺ کی ذات ہے اس کی حرمت و تقدس کی حفاظت کے لیے مناسب اقدام نہ کیا جا تا ؟
iv.اسلام میں رسول پاک ﷺ کی ابدی اور عالم گیر رہنمائی کا تصور :
مسلمانوں کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید پوری انسانیت اور تا قیامت ہر زمانے کے لیے خدا کی آخری الہامی کتاب اور رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے اسی طرح آپ ﷺ کی رسالت بھی تمام انسانوں کے لیے تا ابد ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔ عہد نبوی ؐ سے چودہ صدیوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود درحقیقت یہ اُسی عہد کا حصہ اور تسلسل ہے ۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کسی قوم کی طرف نہیں بلکہ ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اس لیے آپ ﷺ ہماری اکیسویں صدی کے لیے بھی اسی طرح رسول ہیں جس طرح چھٹی صدی کے تھے ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ
"قرآن مجید اس بات پر شاہد ہے کہ جس طرح وہ خود ایک خاص زمانے میں ، ایک خاص قوم کو خطاب کرنے کے باوجود ایک عالم گیر اور دائمی ہدایت ہے ، اسی طرح اس کا لانے والا رسول ﷺ بھی ایک معاشرے کے اندر چند سال تک فرائضِ رسالت انجام دینے کے باوجود تمام انسانوں کے لیے ابد تک ہادی اور راہ نما ہے ۔ جس طرح قرآن کے متعلق یہ فرمایا
اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں (الانعام -19)
ٹھیک اسی طرح قرآن کے لانے والے رسول ﷺ کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ:
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے۔ (الاعراف -158)
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے (سباء -28 )
(لوگو) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں (۱) لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اورخاتم النبین ہیں (الاحزاب -40 )
اس لحاظ سے قرآن مجید اور محمد ﷺ کی راہ نمائی میں کوئی فرق نہیں ۔اگر وقتی اور محدود ہیں تو دونوں ہیں ، اگر دائمی اور عالمگیر ہیں تو دونوں ہیں ۔"
اس امر میں کو ئی شک و شبہ نہیں کہ دونوں دائمی اور عالم گیر ہیں یہی وجہ ہے کہ جو ہستی دائمی ، عالم گیر اور اکملیت و جامعیت کے بے مثال اوصاف سے متصف ہو ،اس شخصیت کے وقار ، تقدس ، حرمت اور شان میں کوئی تنقیص برداشت نہیں کی جاسکتی ۔اس لیے شریعتِ اسلامیہ کا مزاج یہی ہے کہ سلسلہ انبیاء کے آخری فرد ، شاہد و مبشر ، داعی و نذیر اور سراج منیر ﷺ کی ذات کے تقدس کی حفاظت کی جائے ۔آپ ﷺ کی ذات کی عالم گیریت کی بابت مولانا سید سلمان ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ "ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر انسانی گروہ اور ہر انسانی حالت کے مختلف مواقع پر ہر قسم کے صحیح جذبات اور مکمل اخلاق کا مجموعہ ہو صرف محمد رسو ل اللہ ﷺ کی سیرت ہے ۔ " مزید کہتے ہیں " اسلام ان تمام انسانوں کو سنت ِ نبوی ﷺ کی دعوت دیتا ہے ۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسلام مختلف طبقاتِ انسانی کے لیے اپنے پیغمبر کی عملی سیرت میں نمونے اور مثالیں رکھتا ہے ، جو ان میں سےہر ایک کے لیے الگ الگ ہدایت کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ اسلام کے صرف اسی نظریے سے ثابت ہو جاتاہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت میں جامعیت ۔ یعنی انسانوں کے ہر طبقے اور گروہ کے لیے اس سیرت میں نصیحت حاصل کرنے کے مواقع اور عمل کے لیے درس اور سبق موجود ہے ۔ " اس پر مزید کہتے ہیں " پیدائش ، دودھ پینے کی عمر ، بچپن ، ہوش و تمیز ، جوانی ، تجارت ، آمد و رفت ، شادی ، دوست احباب ، نبوت سے پہلے قریش کی لڑائی اور قریش کے معاہدے میں شرکت ،امین بننا ، خانہ کعبہ میں پتھر نصب کرنا ، رفتہ رفتہ تنہائی پسندی ، غارِ حرا کی گوشہ نشینی ، وحی ، اسلام کا ظہور ،دعوت ، تبلیغ ، مخالفت ، طائف کا سفر ، معراج کا واقعہ ، ہجرت ، غزوات ، حدیبیہ کی صلح ، دعوت اسلام کے حوالہ سے خط و کتابت ،اسلام کی اشاعت ، تکمیل ِ دین ، حجۃ الوداع ،وصال ، ان میں سے کون سازمانہ ہے جو انسانوں کی نگاہوں کے سامنے نہیں اور آپ ﷺ کی کون سی حالت ہے جس سے اہل تاریخ ناواقف ہیں۔ اُٹھنا بیٹھنا ، سونا جاگنا ، شادی بیاہ ، بال بچے ، دوست احباب ،نماز روزہ،دن رات کی عبادت ،صلح وجنگ ،سفر و حضر ، نہانا دھونا ، کھانا پینا ، ہنسنا رونا ، پہننا اوڑھنا ،چلنا پھرنا ،ہنسی مذاق ،بول چال، خلوت وجلوت ،ملنا جلنا ،طور طریق ،رنگ و بو ، خدوخال ،قدو قامت ،یہاںتک کہ بیوی سے خانگی تعلقات اور نجی معاملات بھی پوری روشنی میں بیان کیے گئے ہیں اور معلو م و محفوظ ہیں۔ " آگے فرماتے ہیں " حضور ﷺ محفل میں ہوں یا اکیلے ہوں، مسجد میں ہوں یا میدانِ جہاد میں ، رات کے آخری اوقات میں نماز میں مصروف ہوں یا عین میدان ِ جنگ میں فوجوں کی درستگی میں ، منبر پر ہوں یا گو شہ تنہائی میں ، ہر قوم اور ہر شخص کو حکم تھا کہ جو کچھ آپ ﷺ کی حالت اور کیفیت ہو وہ سب منظر عام پر لائی جائے ۔ ایک طرف ازواج مطہرات رضوان اللہ علیھم اجمعین آپ ﷺ کے ذاتی اور گھریلو حالات سنانے اور بتانے میں مصروف رہیں اور دوسری طرف اصحاب ِ صفہ رضی اللہ عنھم عقیدت مند شاگردوں کی طرح شب و روز ذوق و شوق کے ساتھ آپ ﷺ کے حالات دیکھنے اور دوسروں سے ان کو بیان کرنے میں مصروف رہتے رہے ۔ مدینے میں رہنے والی آبادی دس برس تک مستقل آپﷺ کی ایک ایک حرکت و سکون اور ایک ایک جنبش کو دیکھتی رہی ۔ غزوات اورلڑائیوں کے موقع پر ہزار ہا صحابہ کو شب و روز آپﷺ کی زندگی کا کون سا پہلو ہو گا جو پردے میں رہا ہو گا اور اس پر بھی ایک شخص تک کو بلکہ بڑے سے بڑے دشمن اور مخالف کو پوری چھان بین ، تلاش اور کوشش کے بعد بھی آپ ﷺ پر انگلی اُٹھانے کو کوئی موقع نہ مل سکا ۔ "
ایسی ہستی جو چہار دانگ عالم کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہو ، جو قیامت تک کامل ترین اور موزوں ترین ہدایت نامہ زندگی کی حامل ہو ۔ جو اپنی ذات میں اکملیت و جامعیت کے اُس منبر پر فائز ہو جہاں بشریت کی رسائی محال ہو ، جہاں کسی ترمیم اور اضافے کی ضرورت ختم ہو جائے اور انسانوں پر اتمام حجت ہو جائے ۔ جو سارے زمانوں ،سارے جہانوں ، سارے گروہوں ، طبقوں ، قوموں ، نسلوں اور علاقوں کے لیے رحمت ِ کامل بن جائے ۔ جس کی ایک ایک ادا کی نقل انسانیت کی فلاح اور معراج کی دلیل بن جائے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آزادئ فکر و خیال و اظہار کے لبادے میں سرکار دوعالم ﷺ کی تضحیک کے مکروہ دھندے کی اجازت دی جائے؟
منصبِ رسالت ﷺ کی اسی جامعیت و اکملیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا پیر محمد کرم شاہ الزہریؒ،سابق جج شریعت اپیلیٹ بینچ، عدالتِ عظمیٰ پاکستان نے فرمایا :
" جو انسا ن اسلام کی تعلیما ت کو بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے یا حضور اکرم ﷺ کے دامن ِ حیات کو رزائل سے آلودہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے نسلِ آدم ؑ کو پاک کرنے کے لیے آپ ﷺ نے اپنی ساری زندگی وقف کر دی ، وہ صرف مسلمانوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ ساری انسانیت پر ظلم کرتا ہے ۔ وہ حق کی جستجو کرنے والوں کے لیے منزلِ حق تک پہنچنے والے تمام راستوں کو مسدود کرنے کی مذموم کوشش میں مصروف ہے وہ نہ اپنی ذات کا خیر خوا ہ ہےاور نہ ہی اپنے مذہب اور ملت کا ہمدرد۔ وہ ساری انسانیت کا قاتل ہے اور اس کے دستِ جفا کو روکنا ہمارا حق ہی نہیں فرض بھی ہے"۔
نبی کریمؐ سے مسلمانوں کی والہانہ محبت ووابستگی کااعتراف نیپولین بوناپارٹ کی اپنی انتظامیہ کو جاری کردہ اس ہدایت سےبھی ہوتا ہے جس میں اس نے اپنی انتظامیہ کو خبردار کیا کہ وہ مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ وہ قرآن مجیدسے محبت اورنبی کریمؐ سے عقیدت رکھتے ہیں، وگرنہ اس ضمن میں بلاسوچے سمجھے ایک چھوٹاسا ادا کیاگیا لفظ یااقدام سالہا سال کی محنت کو رائیگاں کرسکتا ہے۔ نیپولین بوناپارٹ جب ۱۷۹۹ میں مصرسے واپس جانے لگا تو اس نے جاتے ہوئے مصر پرقابض اپنی فرانسیسی انتظامیہ کوہدایت کی:
ترجمہ: "ہمیں مسلمانوں کو نہایت احتیاط سے یہ باور کروانا ہے کہ ہم قرآن مجید سے محبت کرتے ہیں اور رسولﷺ کا بےحد احترام کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں بلا سوچے سمجھے کہا گیا ایک لفظ یا معمولی سا عمل ہماری سالہا سال کی جدوجہد پر پانی پھیر سکتا ہے ۔"
(جاری ہے)

تازہ ترین