ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور باجوہ کا حالیہ دنوں میں ایک مثبت بیان سامنے آیا ہے کہ پاک فوج میں ہر مذہب، فرقے، رنگ اور نسل کے پاکستانی باشندے شامل ہیں اور جب وہ فوجی وردی پہن لیتے ہیں تو ان کا مقصدِ حیات مادرِ وطن پاکستان کا دفاع ہوتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ایک اور خوشخبری سننے کو ملی کہ پاکستان دو سال کے وقفے کے بعد اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، میری نظر میں پاکستان کی اس عظیم کامیابی کے عوامل میں موجودہ حکومت کے دور میں قائد میاں نواز شریف، اپوزیشن رہنماؤں عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کی تقریبات میں بھرپور شرکت اور وزیراعظم ہاؤس میں شرمین عبید چنائے کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات بھی شامل ہیں جس سے عالمی برادری کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ملک میں بسنے والے تمام باشندوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے متحد ہے، ان حالات میں جب دنیا کا اعتماد انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان پر بحال ہورہا ہے تو پارلیمنٹ کے فلور پر اقلیتی مسلک پر قومی اداروں کے دروازے بند کرنے کا مطالبہ قابلِ مذمت ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے معاشرے میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے بلکہ بیرونی قوتوں کے مذموم عزائم کو بھی تقویت مل سکتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کونسل کی نشست جیتنے کے بعد ہم پر یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم جذبات میں آکر ایسا کوئی منفی اقدام نہ اٹھائیں جس سے مذہبی اقلیتیں خوف و ہراس کا شکار ہوں یا وطن عزیز کی نیک نامی پر حرف آتا ہو۔میں اپنے گزشتہ کالموں میں متعدد مرتبہ تذکرہ کرچکا ہوں کہ انگریز سامراج نے برصغیر میں اپنے دورِ حکومت میں’’تقسیم کرو اور حکومت کروـ‘‘ کی نفرت انگیز پالیسی کو پروان چڑھایا، تقسیم برصغیر کے بعد انگریز تو ہمیشہ کیلئے ہمارے ملک سے چلا گیا لیکن ورثے میں مذہبی تفرقہ بازی جیسے حساس ایشوز دے گیاجو آج بھی ہمارے قومی وجود کو کچوکے لگا رہی ہے۔ آزادی کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں پاکستان کے امورِ مملکت چلانے کیلئے واضح پالیسی بیان کردی تھی کہ پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہونگے، قائداعظم یہ حقیقت جانتے تھے کہ وہی معاشرے ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتے ہیں جہاں بسنے والے تمام باشندوں کو امن و سکون سے ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے دیاجاتا ہے، انہوں نے اپنے الفاظ کا پاس غیرمسلموں کو اپنی کابینہ میں اہم ذمہ داریاں سونپ کر کیا، انکی ایک اپیل پر پاکستان میں بسنے والے سینکڑوں غیرمسلم گھرانوں نے ہجرت کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنا لیالیکن قائداعظم کی وفات کے بعد غیرمسلم پاکستانیوں کے حقوق کی فراہمی تو دور کی بات مشرقی حصے میں بسنے والوں کی شکایات کا ازالہ نہ کیاجاسکا جسکا خمیازہ ملک دولخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ہم نے اپنی ستر سالہ ملکی تاریخ میں بے شمار غلطیاں کی ہیں، متعدد قومی اداروں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھایا، آج عوام کا اعتماد بدعنوانی کی شکایات عام ہونے کی وجہ سے کم و بیش تمام اداروں پر سے اٹھتا جارہا ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ اور پاک فوج کا وقار محب وطن عوام کے دلوں میں قائم و دائم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں اہم ترین قومی ادارے میرٹ کے فروغ اور قومی ہم آہنگی کی وجہ سے عوام میں مقبول ہیں۔ ملکی تاریخ میں ایک روشن باب رانا بھگوان داس کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی صورت میں رقم ہوا جب اسلامی ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں ایک غیرمسلم اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوا، آنجہانی رانا بھگوان داس کے ایماندارانہ فیصلے تاریخ کا حصہ ہیں اور آج تک کسی کو انگلی اٹھانے کی مجال نہیں ہوئی اس لئے کہ انکے کسی فیصلے سے تعصب کی بو نہیں آتی تھی، دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے قابلِ تحسین فیصلوں کی بنا پر عالمی برادری میں پاکستان کا نام روشن ہوا۔ میرے خیال میں یہی ایک جمہوری اور انصاف پسند معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے کہ وہاں مختلف سماجی اور مذہبی وابستگیوں کے حامل افراد اپنے وطن کے مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کڑا وقت آنے پر دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، ہم مذہبی طور پر مختلف عقائد سے تعلق ضرور رکھ سکتے ہیں اور ہمارے مابین اختلافِ رائے بھی ممکن ہے لیکن پاکستان سے حب الوطنی کے نام پر کسی خاص کمیونٹی کو تعصب کا نشانہ بنانا سراسر ناانصافی ہے۔ آج پاک فوج کی جانب سے کینیڈین مغویوں کو بازیاب کرانے کیلئے موثر کردار اداکر نے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی پاکستان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور کردیا ہے تو دوسری طرف حال ہی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے پاک فوج کے بہادر جوان لال چندنے جنوبی وزیرستان میں جاری آپریشن کے دوران اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ کچھ شدت پسند عناصر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی موجودگی اور قومی اداروں میں شمولیت کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ انکا یہ موقف سراسر لاعلمی اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے، پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا تھا اورمیری معلومات کے مطابق اسلام غیرمسلم شہریوں پرایسی کوئی قدغن نہیں لگا تاکہ وہ قومی عہدوں پر فائز نہیں ہوسکتے، دنیا کی پہلی اسلامی مملکت مدینہ منورہ میں پیغمبراسلام ﷺ نے قائم کی تھی اور میثاقِ مدینہ کے تحت وہاں بسنے والے غیرمسلم شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کئے گئے بلکہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دشمن کے حملے کی صورت میں مسلمان اور غیرمسلم شہری باہمی طور پر مدینہ کا دفاع کریں گے۔یہ قانونِ فطرت ہے کہ عدل و انصاف کے یہ سنہری اصول جس قو م نے اختیار کئے وہ ترقی و خوشحالی کی معراج پر جاپہنچی اور جو معاشرہ سماجی ناانصافی اور مذہبی تعصب کا شکار ہوا ، ذلت و ناکامی اسکا مقدر بنی۔ امریکہ کو سپرپاور امریکہ بنانے میں دنیا بھر کے ان تارکین وطن کا ہاتھ ہے جنہیں ایک ایسا انسانی حقوق، شخصی آزادی اور جمہوریت کا نام لیوا معاشرہ میسر آیا جس نے انکی صلاحیتوں کا اعتراف کیا، دوسری طرف سوویت یونین جیسی مضبوط اقتصادی طاقت اپنے بے جا غرور، گھمنڈ، انسانی حقوق کی پامالی اور غیرجمہوری اقدامات کی وجہ سے دنیا کے نقشے سے مِٹ گئی۔ میں نے اپنے حالیہ دورہِ کوریا کے دوران وہاں یہ تفریق واضح دیکھی کہ ایک طرف جمہوریت پسند جنوبی کوریا ترقی کی دوڑ میں دن بدن آگے نکلتا جارہا ہے تو دوسری طرف مہلک ہتھیاروں کے رسیا شمالی کوریا کے عوام غربت و افلاس کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ اگر ہم حقیقت میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو شدت پسند عناصر کے منفی نظریات کو رد کرتے ہوئے برداشت، رواداری اور تحمل پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے تمام پاکستانی شہریوں کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کیلئے یکساں مواقع فراہم کرنا ہونگے، ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ تحریکِ پاکستان میںمسلمانوں کے شانہ بشانہ غیرمسلموں نے بھی اپنا کردار ادا کیاتھا، بانی پاکستان قائداعظم نے غیرمسلم وزراء کو اپنی کابینہ میں شامل مذہبی عقیدے کی بنا پر نہیں بلکہ انکی قابلیت کی وجہ سے کیا تھا، قائداعظم یونیورسٹی میں ایک غیرمسلم پاکستانی سائنسدان کے نام سے منسوب بلاک مذہبی وابستگی نہیں بلکہ سائنسی میدان میں پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے کی بنا پر ہے۔وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اعلیٰ عدلیہ اور پاک فوج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اکثریت اور اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام پاکستانی شہریوں کیلئے ترقی کے دروازے میرٹ کی بنیاد پرکھولنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔