خود اپنی تعریف کچھ اچھی نہیں لگتی بلکہ معیوب ہوتی ہے، مگر میں سچ بیان کررہا ہوں کہ میں نے بطور بزرگ صحافی کے کبھی کوئی ناجائز سرکاری مراعات حاصل نہیں کی، سوائے اس رہائشی پلاٹ کے جو وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے مجھے دیا اور غالباً اس خوشی پر دیا کہ جب وہ پیپلز پارٹی سے الگ ہو کر ایک اور پارٹی بنانے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے اس نئی پارٹی کا جو نشان بنایا وہ ایک انسانی پنجے کی صورت میں تھا، میں نے پوچھا کہ یہ نشان کیا ہے؟ کیا یہ پنجہ صاحب ہے؟ انہوں نے کہا نہیں یہ حضرت موسیٰ ؑ کا ید بیضا (روشن ہاتھ) ہے۔ میں نے ازراہ مذاق اپنے کالم میں لکھا کہ طور کا جلوا دیکھ کر موسیٰ ؑ بے ہوش ہوگئے تھے مگر ان کے گدھے کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ غالباً اس فقرے کے معاوضے میں حنیف رامے نے ریواز گارڈن لاہور میں ملٹی فلیٹس کے سامنے مجھے ایک کارنر پلاٹ الاٹ کردیا اور مجھے کہا کہ آپ نے جو درخواست دی تھی یہ اس کے جواب میں ہے جائیں اور جا کر اپنا پلاٹ دیکھ لیں۔ میں نے کہا میں نے تو ایسی کوئی درخواست نہیں دی تو انہوں نے کہا: نہیں آپ نے درخواست دی تھی میں نے کہا اچھا تو پھر شکریہ۔یہ اس وقت میرے گھر کا پلاٹ بن چکا ہے، تو یوں میں نے اپنے گھر کا پلاٹ بھی منیر احمد قریشی کے نام سے الاٹ کروایا ہے، دوسری بار لاہور پریس کلب میں کچھ اور پہلے سے پلاٹ یافتہ صحافیوں کو پلاٹ الاٹ کئے جو کہ نہر کے کنارے ہیں، اس پلاٹ کو فروخت کر کے میں نے 55لاکھ روپے اپنی بیٹی سجل منیر کو دیے۔ یوں میں نے ثابت کیا کہ میں نے بطور صحافی حکومت سے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی، سوائے ان غیر ملکی دوروں کے جو میں نے SAFMA کے صدر ہونے کی حیثیت میں کئے۔ ایسے دوروں میں ہندوستان کے دو دورے شامل ہیں جبکہ ایک دورہ میں نے بنگلہ دیش کے راستے سے کیا کیوں کہ بھارت نے پاکستان پر ہندوستان کے اوپر سے طیارے میں سفر کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔دوسرا دورہ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ’’پی ایف یو‘‘ کے صدارتی انتخاب میں اسرار احمد کو ووٹ دینے کے لئے اختیار کیا تھا، اس کے بعد SAFMA کے صدر کی حیثیت سے مجھے ڈھاکہ جانے کا اتفاق ہوا، مجھے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ڈھاکہ سے باہر کے علاقوں میں جانے کا بھی اتفاق ہوا، اس کا مطلب ہے میں نے حکومت سے کبھی کوئی مراعات یا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت پڑی۔نارمل حالات میں صحافیوں نے جو بھی فائدہ حاصل کیا میں اس میں شریک ضرور تھا مگر کوئی ایسی شرمسار کرنے والی حرکت نہیں کی۔ SAFMAکے صدر کی حیثیت سے اگر مجھے بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ اور سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا تو وہ میرے جائز سرکاری دورے تھے۔ایک اوربات کا بھی مجھے فخر حاصل ہے کہ میں صحافیوں کی پہلے ویج بورڈ ایوارڈ کا رکن تھا جس میں مجید نظامی، میر خلیل الرحمان اور منہاج برنا بھی میرے ساتھ تھے اور کارکن صحافیوں کی نمائندگی کررہے تھے جبکہ اخبار مالکان اس ویج بورڈ کے فریق تھے، اس ویج بورڈ میں مجید نظامی صاحب نے چیئرمین جج صاحب کو بتایا کہ ٹیلی ویژن کے شروع ہونے سے ہمارے اخباری اشتہارات تھوڑے ہوگئے ہیں، چنانچہ ہم اپنے کارکنوں کی طر ف سے اپنے اوپر مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ چیئرمین جج صاحب نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا نظامی صاحب غلط کہہ رہے ہیں، بورڈ کو گمراہ کررہے ہیں، صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے۔ جج صاحب نے کہا کیا آپ یہ بات ثابت کرسکتے ہیں؟ میں نے کہا مجھے لکھ کر دیں کہ میں اشتہاروں کی کمپنیوں سے اس کی سند حاصل کروں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ یہ لکھ دیں گے۔ اس تحریر یا حکم کے ساتھ میں تمام بڑی اشتہاری کمپنیوں کے پاس گیا جہاں سے مجھے یہ معلومات حاصل ہوئی کہ ٹیلی ویژن کے آنے سے اخبارات کے اشتہارات کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھ گئے ہیں۔میں نے یہ رپورٹ بورڈ کے اگلے اجلاس میں پیش کی اور کہا کہ مجید نظامی نے بورڈ کو گمراہ کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کی انہیں سزا بھی ملنی چاہئے۔ مگر چیئرمین نے اس مطالبے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اسی بورڈ کے اجلاس میں میر خلیل الرحمان نے مجھے کہا کہ میں آپ کو جنگ اخبار میں لے جانا چاہتا ہوں اور اس میں کامیاب بھی ہو جائوں گا۔ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوئے جب 1981ء میں لاہور سے جنگ چھپنا شروع ہوا اور یوں میرے پاس میر شکیل الرحمان آئے جن کے ساتھ کشور ناہید بھی تھیں اور کہا کہ میں آپ کو اپنے باپ کی خواہش پر جنگ میں لانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا میری امروز اخبار کی تنخواہ 2000 روپے ہے انہوں نے کہا ہم آپ کو 3000روپے دیں گے۔ کشور ناہید نے کہا اب زیادہ مطالبات نہ کرنا اور یوں میں جنگ اخبار میں لاہور کے سٹاف کا ممبر بن گیا۔ یہ بھی میرا افتخار اور امتیاز ہے کہ چند صحافیوں کی طرح میری بھی کسی اخبار کے دفتر میں شامل ہونے کی درخواست نہیں ہے۔ جنگ اخبار کی لاہور ایڈیشن کی یہ ملازمت ابھی تک 85سال کی عمر میں میرے پاس ہے اور جائز مراعات حاصل کررہا ہوں۔ میرے مہربان میر خلیل الرحمان وفات پا چکے ہیں خدا ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ میر خلیل الرحمان میر شکیل الرحمان اور میر جاوید الرحمان کے باپ ہونے کے علاوہ پاکستانی صحافت کے روشن مستقبل اور حال کے ایک درخشاں باب بھی تھے۔