(تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے فیض صاحب اس مصرعے میں بہار سے مراد سوشلسٹ انقلاب ہے ، فیض صاحب پی پی ایل کے مشہور ترین انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے اور دیگر اخباروں کے سرپرست تھے اور ان کی شخصیت کی نیک نامی کا یہ ثبوت ہے کہ کوئی بھی کسی بھی بہانے سے ان کے سامنے اپنی مشکل بیان کرتا تھا تو فیض صاحب اس مشکل کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتے ۔ فیض صاحب کے علاوہ احمد ندیم قاسمی اور سبط حسن امروز اور لیل و نہار کے ایڈیٹر تھے ، ہمارے سٹاف میں بہت سارے حمید تھے مثلاً حمید ہاشمی اور حمید اختر شامل ۔ اس کے علاوہ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور مقبول اور اپنے فن کا زبردست ماہر ایف ای چودھری بھی تھے جن کا اصل نام فضل الہٰی مسیح تھا اور وہ اپنے ادارے میں بہت مقبولیت اور عزت رکھتے تھے انہوں نے 107سال کی عمر پائی ، وہ ائیر فورس کے مشہور پائلٹ سیسل چودھری کے والد تھے جو کہ ائیر فورس کے بعد ماہر تعلیم کے طور پر ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ بنے اور اپنے علاقے اور لوگوں میں بہت مقبول ہیں فیض احمد اپنے سٹاف کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان کی تمام ضروریات پوری کرتے تھے۔فیض صاحب کا انتقال استاد دامن کے انتقال سے پہلے ہوا۔ ان کی ایک صاحبزادی سلیمہ ہاشمی ہے اور سلیمہ ہاشمی کے بھائی کے ساتھ چھوٹی بہن کی شادی ہوئی ۔ سلیمہ ہاشمی اپنے وقت کی بہت بڑی پینٹر ثابت ہوئیں چنانچہ بہت سی کامیاب تصویروں کی نمائش کی ذمہ دار ہیں ۔ فیض صاحب نے جہاں یہ کہا کہتلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے۔اس میں اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انقلاب پاکستان میں بہت دفعہ رونما ہونے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے والےکچھ طاقتور دکھائی نہیں دیتے۔فیض صاحب کے قریبی دوستوں میں مصور ، صادقین اور بہت سے لوگ تھے ،فیض صاحب کے بعض ملنے والے جن میں امجد اسلام امجد ، عطاالحق قاسمی اور میرے دوست فتح محمد ملک بھی شامل ہیں وہ اس کوشش میں رہے کہ احمد ندیم قاسمی کو فیض صاحب سے بڑا یا برابر کا شاعر ثابت کیا جائے، مگر یہ بہت مشکل کام تھا اس لئے اس پر زیادہ محنت نہیں کی گئی ہاں یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے قاسمی اور امجد کو بھوت یا خبیث روحیں کہا جاتا ہے جو اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکیں بلکہ ناکام رہیں ابھی تک یہ کوشش موجود ہے لیکن اس کے کامیاب ہونے کی امید نہیں ہے کیوں کہ فیض صاحب اور قاسمی صاحب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ فیض صاحب کے اخباری سٹاف میں جہاں آئی اے رحمان اور ان کے دوست حسین نقی وغیرہ بھی پاکستان کی ان مطبوعات میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ فیض صاحب کی قبر ماڈل ٹائون کے قبرستان میں ہے اور وہ ہم سبکے لئے قابل زیارت اور قابل قدر ہے۔فیض صاحب کی کتابوں میں پہلی کتاب ’’دست صبا‘‘ ہے فیض صاحب کی وفات ہوئی تو پنجابی کے معروف شاعر استاد دامن وہاں پر تشریف لائے جبکہ وہ ہسپتال میں داخل کئے گئے تھے میں نے پوچھا استاد جی آپ کو فوتیدگی کا کیسے پتہ چلا؟انہوں نے کہا کہ فیض صاحب کوئی ایسی کمزور شخصیت نہیں تھے کہ کوئی ان کے بارے میں نہ بتاسکتا فیض صاحب کا جنازہ ادیبوں کے جنازوں میں بہت بڑا تھا فیض صاحب کی شاعری کی کتابوں میں عالمی شہرت اور احترام کی جھلک بھی پائی جاتی ہے۔ان کی ان کتابوں میں وہ آج بھی زندہ ہیںاور انشااللہ بہت عرصے تک زندہ رہیں گے ،فیض صاحب کی اور ایلس فیض کی شادی نکاح کی رسم شیخ عبداللہ نے ادا کی اور ان کے انتقال سے پاکستان ایک بہت بڑے شاعر اور دانشور سے محروم ہو گیا ۔ فیض صاحب کو عالمی سطح پر پہلی بار ایک ایوارڈ ’’لینن پرائز‘‘ سے نوازہ گیا جو کہ عجیب بات ہے کہ مقتول دانشور ٹرٹسکی کے قاتل نے ایوارڈ دیا تھا یہ پاکستان کا پہلا عالمی ایوارڈ نہیں تھا ان کے علاوہ فزکس کے عالمی شہرت کے سائنسدان عبدالالسلام نے نوبل پرائز حاصل کیا اور جس کے بارے میں لوگوں کے اندر کوئی احترام نہیں پایا جاتا۔فیض صاحب نے مجھے عربی کے مشہور دانشوروں کی نظمیں اردو میں ترجمہ کرنے کے لئے بھی دیں، جن میں ان کے دوست نثار قبانی اور محمود درویش بھی شامل ہیں میں نے ان کتابوں کا پورے احترام اور عزت کے ساتھ اردو ترجمہ کیا، اور یہ کتابیں چھپ کر معروف اور مشہور ہو چکی ہیں، ان کے شعروں میں:تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہےتلاش میں ہے سحر باربار گزری ہےاور مشرقی پاکستان سے الگ ہونے پر ایک یادگار نظم لکھی جو اس مصرعے سے شروع ہوتی ہےہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنیمداراتوں کے بعدپھر بنیں گے آشنا کتنیملاقاتوں کے بعدفیض صاحب کے بارے میں میر ی ایک نظم بھی ہے جو ان مصرعوں پر ختم ہوتی ہے:جے سانوں اک وی نعمت مل جاوے ساڈی جان نوں کل جہاں ملےجے اے نعمتاں کٹھیاں ہو کہ تے کدی فیروی آون تے فیض بن جائےفیض مرحوم کے دنیا کے کئی ملکوں میں پسند کرنے والے اور ان کے شاعری کا ترجمہ کرنے والے مل جائیں گے۔