50 سال پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں آمد تاریخ کا وہ جبرتھا جو بقول کارل مارکس ’’جب حالات تیار ہو جائیں تو وہ تبدیلی کے لئے ایسا لیڈر تلاش کر ہی لیتی ہے جو تبدیلی کے عمل کو منطقی انجام تک لے جاسکے‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسی شخصیت تھے جن کے ہاتھ عوام کی نبض پر تھے اور حالات کی پرکھ تاریخی تناظر میں شاید ہی ان سے بہتر کوئی کرسکتا ہو، تبدیلی کی طرف بڑھتے حالات کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل کی اور بہت مختصر عرصے میں وہ تبدیلی برپا کر دی جس کے خواب عوام دیکھ رہے تھے۔اپنی ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے اس وقت کے سیاسی سٹیج کے کسی بھی شناخت سے محروم افراد کا انتخاب کیا لیکن یہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر ایک انجمن تھے اور مختلف شعبوں میں ان کی مہارت مسلمہ تھی۔ گو میدان سیاست کے لئے چہرے نئے تھے مگر امور ریاست اور علم ودانش میں یکتا تھے۔ جو چند سیاسی افراد ان کے ساتھ شامل ہوئے ان میں ملک معراج خالد، غلام مصطفیٰ کھر، غلام مصطفیٰ جتوئی، مخدوم طالب المولیٰ، رسول بخش تالپور، معراج محمد خان اور طاہر محمد خان وغیرہ قابل ذکر ہیں جو کہ بے داغ دامن کے مالک تھے اور عوامی سیاست ان کا طرہ امتیاز تھا۔ دانشوروں میں جے اے رحیم، صحافت میں حنیف رامے اور اسی طرح کے نام جن کی اپنی متعلقہ حلقوں میں بے پناہ عزت تھی۔ آج جب پاکستان پیپلز پارٹی اپنی 50سالہ تقریب کا اہتمام کررہی ہے تو اس وقت بھی ویسے ہی حالات ہیں جو 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد کا باعث بنے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد جب 1988ء میں جنرل ضیاءالحق اپنے اعمال کا خدا کی ذات کو حساب کتاب دینے دنیا سے رخصت ہوئے تو محترمہ بینظیر بھٹو مقتدر حلقوں کی تمام تر سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے انتخابات جیت کر ایوان اقتدار میں داخل ہوئیں اور ایوان صدارت ان کی حلف برداری کی تقریب میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس وقت جب مقتدر حلقوں کو انتقام کا خوف تھا تو اس وقت بی بی نے کہا کہ جمہوریت ہی آمریت کے خلاف سب سے بڑا انتقام ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چار بنیادی نعروں میں پانچواں نعرہ ’’شہادت ہی ہماری منزل ہے‘‘ شامل کیا۔ اپنے خاندان پر ہوئے مظالم کو فراموش کرتے ہوئے بی بی نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو میزائل ٹیکنالوجی دے کر پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔پچھلے دنوں بلاول بھٹو زرداری میری تیمارداری کے لئے میرے گھر آئے تو بہت سی ماضی کی باتیں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو، نانی بیگم نصرت بھٹو اور ان کی والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے سے بھی ہوئیں اور وہیں پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوا اور بالخصوص پارٹی کے ان کارکنان کا جنہوں نے پارٹی کا نام زندہ رکھنے کے لئے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اس ملاقات میں طارق خورشید ملک، فرخ سہیل گوئندی اور الطاف قریشی بھی موجود تھے۔آج جب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو خاندان کی تیسری نسل کو منتقل ہو رہی ہے اور بلاول بھٹو پارٹی کی قیادت سنبھال رہے ہیں تو مجھے انہیں صرف ایک ہی مشورہ دینا ہے کہ اپنے نانا اور والدہ کی پالیسیوں کا جائزہ لیں اور ان کے انداز تقریر کو اپنایئے۔ انہوں نے آپ کی والدہ کو مشورہ دیا تھا کہ ’’تمہاری جنت ماں کے پائوں کے نیچے ہے، اور درحقیقت ایک سیاستدان کی جنت عوام کے پائوں کے نیچے ہوتی ہے‘‘ لہٰذا عوام کے مسائل کو سمجھ کر اور اپنے نانا جیسی ٹیم کو ساتھ لے کر عوام کی آواز بنئے ، مستقبل آپ کا ہے۔ملاقات کے اختتام پر میں نے ان سے کراچی میں سندس فائونڈیشن کے سینٹر کے قیام کے لئے مالی امداد اور معاونت کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کی اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو جلد ہدایات جاری کریں گے اور اپنا وعدہ پورا کریں گے۔