گل دائودی کی تاریخ ایک صدی سے بھی پرانی ہے۔ گل دائودی چائنہ سے نکلا اور آج پھول کی اقسام کے حوالے سے پاکستان میں اس کی وافر اقسام پائی جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی افزائش میں مزید بہتری آرہی ہے اور آج گل دائودی بہت سے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ گل دائودی کی تیاری میں 11ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور یہ 15سے 20دن کیلئے کھلتا ہے۔ریس کورس پارک میں پی ایچ اے کے زیر اہتمام منعقد کی جانے والی گل دائودی کی نمائش بہت دلکش اور آنکھوں کو بھلی لگنے والی تھی۔ جس میں بہت سے تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ کمپنیوں نے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حصہ لیا اور بہت سے لوگ ان پھولوں سے لطف اٹھاتے رہے۔ خواتین، بچے اور بچیاں بھی اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ ایسی تقریبات اس ملک میں بلکہ تمام ملکوں کے شہروں میں ہونی چاہئیں۔ خاص طور پر پہلا انعام لینے والے اشخاص اپنے معاوضے سے بے فکر ہو کر ایسے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور یوں لاہوریوں کی صحت کے محافظ بنیں۔ یہ جگہ یعنی ریس کورس پارک سندس فائونڈیشن سے کچھ دور نہیں ہے مگر مجھے وہاں تک پہنچنے میں وہیل چیئر کی ضرورت پڑی اور اس وہیل چیئر میں میرے ساتھ میرے عزیز مصروف کار رہے۔چاہوں گا کہ اس قسم کی نمائش میں پورے ملک سے تمام سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ سندس فائونڈیشن اور دیگر ادارے بھی پی ایچ اے کی اجازت سے نمائش میں بلڈ کیمپ لگائیں اور بیماریوں سے متعلق لوگوں کو آگاہی بھی دیں۔ اس نمائش میں سینکڑوں اقسام کے پھول بڑی ترتیب سے رکھے گئے تھے اور بہت عرصہ بعد ان پھولوں پر رنگ برنگی، خداوندتعالیٰ کی تخلیق کردہ تتلیوں کو بھی دیکھا۔ تتلیاں اور دیگر پرندے جیسے قصہ پارینہ ہوچکے ہوں لیکن اگر تمام لوگ آج بھی اپنے گھروں میں پھولوں کی کیاریاں یا گملوں میں پھول اگائیں تو آج بھی تتلیاں اور شہد کی مکھیاں ان سے رس حاصل کرسکیں گی، اس وجہ سے لوگ صحتمند بھی ہوں گے اور پھولوں کی مہک سے مسرور بھی ہوں گے۔ میں بہت عرصہ بعد اس گل دائودی سے محظوظ ہوا اور چاہتا ہوں کہ اس سے میرے ہم وطن بھی ہمیشہ محظوظ ہوتے رہیں۔اس کے علاوہ اس ادارے کے ملازمین جن میں کچھ ورکرز کے نام میں جانتا ہوں، شاید کچھ ایسے بھی ہوں جو اس کی ضرورت محسوس نہ کریں اور یہ بھی چاہوں گا کہ دیگر ادارے بھی زیادہ سے زیادہ پھول اگانے اور انہیں پالنے کی سعی کریں۔ پھول گیندے کے تھے مگر یہ گیندا مختلف رنگوں میں تھا۔ تقریباً اس رنگ میں یہ پھول کچھ زیادہ اچھے لگ رہے تھے اور انہیں دیکھ کر لوگوں کو ان کی خواتین کو اور ان بچوں کو زبردست خوشی حاصل ہو رہی تھی اور انہی پھولوں کے سامنے کھڑے ہوکر انہوں نے میرے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے یا نہیں جانتے ہوں گے کہ یہ پھول کہاں سے اور کس ملک سے یہاں نمائش کے لئے آئے ہیں۔ ریس کورس پارک میں جو آبشار کی شکل میں فوارہ لگا ہے وہ بھی ہمارے ملک کے شہر کے بچوں کو بہت پسند آیا اور میرے بچوں نے بھی اس میں خوشی سے حصہ لیا۔ ان بچوں میں ندال بھی شامل تھا اور مجھے معلوم ہے کہ میرے اپنے بچے بھی اس قسم کی خوبصورت نمائش دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ ان میں میرے دوست یاسین خان اور علی رئوف بھی اپنے بچوں کو لے کر گئے۔ نمائش کی راہداری کو رنگا رنگ چھتریوں کے ساتھ خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔میں جناب افتخار احمد صاحب چیئرمین پی ایچ اے، جناب شکیل احمد صاحب ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے اور محترمہ ناہید گل بلوچ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے اور ان کے پورے عملے کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے۔مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ خادم اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے کروڑوں روپے کا بجٹ پی ایچ اے کو دیا ہے اور وہ لاہور اور دیگر شہروں میں بھی پارکس میں ہریالی کے لئے اقدامات کر رہی ہیں اور اس بات کی مزید خوشی ہوئی کہ اب پورے پنجاب میں ریلوے ٹریکس کے ساتھ جہاں گندگی کے ڈھیر ہوتے تھے وہاں بھی ٹریکس کے ساتھ خوبصورت درخت و پودے اور گھاس اگائیں گے جس سے ماحول بہتر ہوگا،ذ آلودگی میں کمی آئے گی اور لوگ صحتمند زندگی گزار سکیں گے۔