• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں ایک لاکھ قسم کے مختلف جسمانی امراض بنی نوع آدم کی نسل کو مٹا رہے ہیں۔ بیماریاں جراثیم کے ذریعے پھیلتی ہیں اور جراثیم سے بچنے کا حکم ہمارے دین کے ذریعے بھی ہمیں ملا اور صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا۔ گویا کسی کا چھپا ہوا نصف ایمان دیکھنا ہو تو اس کے ماحول میں صفائی کے معیار کو دیکھ لیا جائے۔ گندگی میں پھیلنے والے بہت سے جراثیم فضا میں سفر کرتے ہیں اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ جراثیم بذریعہ خوراک جسمانی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ انسانوں کا طرز زندگی بھی بہت سی بیماریوں کو جنم دیتا ہے، کئی امراض بڑھتی ہوئی عمر میں انسان کو پکڑ لیتے ہیں اور کچھ امراض ایسے بھی ہیں جن کا تعلق والدین سے ہوتا ہے اور وہ پچھلی نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان میں 10نوعیت کے امراض انتہائی خطرناک ہیں۔ پاکستان میں پائی جانے والی زیادہ تر بیماریوں کا تعلق سانس کی نالی سے ہے۔ ان بیماریوں میں نمونیہ اور نزلہ زیادہ عام ہیں۔ دیہی علاقوں میں ملیریا غریب طبقے کا دشمن ہے۔ پسماندہ اور نواحی بستیوں میں بھی ملیریے کے کیسز زیادہ ہیں۔ ناقص سینٹری سسٹم اور سیوریج کے باعث پیدا ہونے والے مچھروں اور مکھیوں کے ذریعے سے یہ بیماری پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد 1کروڑ 20لاکھ کے قریب ہے۔ چھوٹی آنت کی ایک بیماری ہیضہ ہے۔ قابل علاج ہونے کے باوجود یہ پاکستان میں لاعلاج ہے۔ برسات میں اس کے جراثیم زیادہ شدت سے پھیلتے ہیں۔ ڈینگی بخار قابل علاج ہونے کے باوجود انسان کے قابو سے باہر ہے۔ ٹی بی کا شمار بھی موذی بیماریوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹی بی کے امراض کی تعداد زیادہ ہے۔ پاکستان میں چھاتی کا سرطان ایک عام بیماری ہے۔ ہر 9ویں عورت اس میں مبتلا ہے جبکہ ہر سال 40ہزار خواتین اس مرض میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں دل کے امراض سے ہونے والی شرح اموات دو لاکھ سالانہ سے تجاوز کر چکی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں بڑھتا ہوا موٹاپا اور ذیابیطس دل کے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد 70لاکھ ہے اور یہ تناسب جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پھیپھڑوں کے سرطان سے 1لاکھ افراد ہر سال مر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق 90فیصد مریضوں میں اس مرض کی وجہ سگریٹ نوشی ہے۔والدین سے بچوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں میں سب سے مہلک تکلیف دہ اور دردناک بیماری تھیلے سیمیا اور ہیمو فیلیا ہیں۔ بیشمار غریب لوگ ان بیماریوں کا علاج سوچ ہی نہیں سکتے، اس لئے بہت سے ادارے اس کوشش میں مصروف ہیں اور میری دعا ہے کہ ان سب اداروں کو کامیابی نصیب ہو اور یہ بیماریاں، ہمارے ملک سے اس طرح چلی جائیں، جس طرح وہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں سے غائب ہو چکی ہیں۔ ہم ایک صاف ستھرا اور بیماریوں سے پاک پاکستان دیکھ سکیں۔ یہ تو میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں نے تھیلے سیمیا اور ہیمو فیلیا کی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے لئے اپنی زندگی کا باقی ماندہ حصہ وقف کر رکھا ہے یہ جو میری موت تک چلے گا، لیکن میں یہاں اپنی اس خواہش کو بھی پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ جس طرح امراض کے جراثیم پچھلی نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میرے اس مقصد میں بھی میری اگلی نسل شامل ہو جائے اور میرے گھرانے کے افراد میرے بچوں، بھانجوں، بانجھیوں، بھتیجوں اور بھتیجیوں میں سے بھی کچھ لوگ ان موذی امراض کے خلاف نبردآزما ہو جائیں اور میری اس وراثت کے حصے دار بنیں جو انسانیت کی اصل معراج ہے۔

تازہ ترین