تاریخ گواہ ہے کہ قوالی کو امیر خسرو نے’پڑوس کی سرزمین‘ پر جنم دیاتھا لیکن آج قوالی کو ’پال پوس‘ کر جوان کیا توپاکستان نے۔۔۔ پروان چڑھایا تو پاکستان نے اور اگر یہ فن آگے بڑھ رہا ہے تو پاکستان کے ہر دلعزیز قوال راحت فتح علی خان کے سہارے۔
انہوں نے قوالی کو فلمی موسیقی کے رنگ میں ڈھال کر اسے نئی جدت بخشی، وہ گوگل ہیڈ کوارٹر کے مہمان بنے، نوبل انعام برائے امن جیسے دنیا کے بڑے فورم میں قوالی کے ذریعے پاکستان کی امیج بہتر کی تو برطانیہ کے شاہی محل اور دیگر عالمی فورم میں قوالی کے ذریعے پاکستان کی نئی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’صوفی نائٹ‘ میں انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستانی ثقافت ہی دراصل امن و بھائی چارے کا پرچار ہے۔گزشتہ سال راحت فتح علی کے نام سے آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک گوشہ منسوب کیا گیا۔
راحت فتح علی خان نے پیر کی شام کراچی میں ’میٹ دی پریس‘ سے گفتگو میں بتایا ’قوالی میری روح میں بسی ہے ، میں کہیں بھی جاؤں قوالی میری پہچان بن کر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ ‘
انہوں نے اعلان کیا کہ قوالی کو نئی نسل تک پہنچانے اورپرانی نسل کو اپنی ثقافت سے جوڑے رکھنے کے لئے وہ دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک میں 8ماہ کی قلیل مدت میںقوالی کے 100محفلیں سجانے جارہے ہیں ۔ ان ممالک میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، بحرین، اومان، سعودی عرب، قطر، ترکی، مراکش، جنوبی افریقہ، کینیا، نیپال اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
میٹ دی پریس میں ان کے منیجر سلمان احمد بھی موجود تھے جنہوں نے اس ٹور سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ٹور کا آغاز کراچی سے ہوگا جبکہ بھارت نے پیار سے بلایا تو ہم وہاں بھی جائیں گے۔ اس پر راحت فتح علی سے پوچھے گئے ایک سوال جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے لئے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ‘
سلمان احمد کا کہنا تھا کہ ’ٹور کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب اس بار سعودی عرب میں بھی پرفارم کریں گے ۔ وہاں حالیہ ہفتوں میں بہت سی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں ، ان میں فلموں اور موسیقی کے لئے بھی بہت سے منصوبے شامل ہیں۔ سعودی عرب پاکستان موسیقی اور فن کی بہت بڑی مارکیٹ بن کر ابھر رہا ہے اور خان صاحب کی آواز اور فن کے چاہنے والوں کی وہاں بھی کوئی کمی نہیں ۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔‘
راحت فتح علی خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہم 2018کو قوالی کے سال کے طور مناناچاہتا ہوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نصرت فتح علی خان صاحب کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ خان صاحب اتنے بڑے فنکار تھے کہ ابھی کم از کم 25ہزار قوالیاں، ان کا میوزک اور دھنیں ایسی ہیں جو خزانے کی صورت میں اس گھرانے میں موجود ہیں اور یہ خزانہ سب کے سامنے آناباقی ہے۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا وہ ’100جسٹ قوالیز‘ کے نام سے جو محفلیں دنیا بھر میں سجائیں گے اس کا آغاز ٹور کی صورت میں رواں سال مارچ سے ہوگااور اختتام دسمبر میں ہوگا۔ بلا شبہ یہ کوئی آسان کام نہیں کیوں کہ نارتھ امریکہ میں جہاں اندرون ملک بھی 24، 24گھنٹے کی فلائٹس ہوتی ہیں وہاں پہنچنا ، کئی کئی گھنٹے ریہرسل کرنا، میوز ک فائنل کرنا، پورے پروگرام کو ترتیب دینا، قوال پارٹی کے تمام ممبران کو ان کا کام سمجھانا اور پھر پانچ سے 7گھنٹے مسلسل پرفارم کرنا ’جوئے شیر‘ لانے کے مترادف ہوتا ہے ، ایسے میں نیندیں بھی اڑجاتی ہیں لیکن ہم نے عزم کیا ہے اور امید ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی ۔ ‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس ٹور میں اسی انداز میں قوالیاں پیش کریں گے جو ابتدا میں محفل میں سماع باندھا کرتی تھیں اس ٹور میں بہت ساری نئی چیزیں بھی متعارف کروائیں گے۔ مختلف اختراع لے کر آئیں گے لیکن پیور قوالی کی شکل میں ۔ امیر خسرو، شیخ سعدیؒ، بوعلی سینا قلندر، حافظ شیرازی و دیگر شعراء کا کلام پیش کیا جائے گا۔‘
قوالی کے مستقبل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا قوالی کا فن کبھی ماند نہیں پڑا۔ قوالی پاپولر عوامی میوزک ہے۔ تاقیامت درگاہوں اور درباروں میں قوالی کی محفلیں ہوتی رہیں گی۔ یہ صدیوں پُرانا فن ہےاور اسے مزید عروج ملے گا۔ آج کے دور کے گانوں میں جو صوفیانہ رنگ نظر ہے، وہ بھی قوالی سے لیا گیا ہے۔
مغربی اقوام کو بھی قوالی بہت پسند ہے۔ وہ ہماری ثقافتی موسیقی کو پسند کرتے ہیں۔ بھارت میں بھی صُوفیانہ گائیکی کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑے۔غیر ملکی کالج اور یونیورسٹی میں قوالی کی تعلیم دینے کے لئے مجھ سے رابطہ کیا جاتا ہے، ہر محفل میں قوالی کی فرمائش ہوتی ہے۔۔کہنے کا مقصد یہی ہے کہ قوالی کا فن کبھی بے رنگ نہیں ہوا اور نا ہوگا۔