• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’ٹائٹینک‘اور2پیار کرنے والوں کی انمٹ کہانی

Titanic Amazaing Love Of Rose And Jack

دو انسانوں کی چند گھنٹے ملاقات ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کو اس حد تک پسند کرنے لگے کہ ایک نے دوسرے کو بچانے کے لئے ناصرف انتہائی سخت موسم کی سختیاں برداشت کیں ، زمانے والوں کی کڑوی کسیلی باتیں سہیں بلکہ یہاں تک ہوا کہ خود برف بن کر موت کی وادی میں چلا گیا لیکن اپنی ساتھی کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔۔۔شدید محبت کی انتہائی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے؟

جیک اور روز کی کچھ سطروں پر مبنی یہی کہانی 20سال پہلے بننے والی شہرہ آفاق فلم ’ٹائٹینک‘کا خاصا تھی ۔ ’ٹائٹینک‘ایک جہاز تھا اور یہ کہانی اسی کے گرد گھومی اور اسی کے ساتھ ختم ہوگئی لیکن اس کے افسانے آج سو سال سے بھی زیادہ عرصے بعد تک زیر تذکرہ ہیں۔

ٹائٹینک ‏تاریخ کا سب سے مشہور بحری جہاز تھا۔اس کی تعمیر 1907ء میں شمالی آئرلینڈ کے بحری جہازوں کے تعمیراتی مرکز بلفاسٹ میں شروع ہوئی۔ یہ جہاز وائٹ اسٹار لائن کی ملکیت تھا جس نے ایک ساتھ تین بڑے بحری جہاز اولمپک، ٹائٹینک اور گیگانٹک بنانے کا آرڈر دیا تھا۔ بعد میں گیگانٹک کا نام بدل کر برٹینک رکھ دیا گیا۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران برٹینک بحری اسپتال کے طور پر استعمال ہوا۔ مگر بدقسمتی سے وہ بھی صرف دو سال بعد1914ء میں ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔

ٹائیٹنک کی لمبائی تقریباً269میٹر(883فٹ)تھی اور ا س کی چوڑائی28میٹر(92فٹ)کی تھی اور یہ دنیا کا پہلا ایسا بحری جہاز تھا جس پر سوئمنگ پول، جمنیزیم ، لائبریری اور تفریح کے دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔

ٹائٹینک پر 36 سو مسافرسوار تھے ۔ٹائٹینک میں نیویارکتک کا سفر کے لیے درجہ اول کا کرایہ 4500 جبکہ تیسرے درجے کا صرف 30 ڈالر تھا لیکن اس کے تھرڈ کلاس کے کیبن اپنے ہم عصر دوسرے بحری جہازوں کے درجہ اول کے کمروں سے زیادہ پر آسائش تھے۔

اسی جہاز میں محبت کی سچائی کی مثال دیتی داستان جس کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں وہ ہیں جیک اور روز ۔جیک جو ایک متوسط گھرانے سے تھے جبکہ روز ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن جیک کی سچائی نے روز کو ان سے محبت کرنے میں مجبور کردیا اور انہیں لمحوں میں ایسی محبت ہوگئی تھی جیسے وہ کئی برس سے ایک دوسرے کو چاہتے ہوں۔

ٹائٹینک کے کپتان اسمتھ نے روانگی سے چند روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ معمول کا سفر ہے ۔ اس نےاپنی 40 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی کسی حادثے کا سامنا نہیں کیا۔

ٹائٹینک نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو سمندر پرسکون تھا لیکن 14 اپریل کی رات بحراوقیانوس کے اس حصے میں درجہ حرارت صفر سے گرگیا۔

اسی رات ایک اور بحری جہاز نے وائرلیس پر ٹائٹینک کو سمندر میں تیرتی ہوئی برفیلی چٹان (آئس برگ) کی اطلاع دی۔ مگرآئس برگ کی خبر کپتان اسمتھ کو اس وقت ہوئی جب جہاز اس کے انتہائی قریب پہنچ چکا تھا۔ اس وقت ٹائٹینک تقریباً 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہا تھا۔

اسمتھ نے پوری قوت سے جہاز کا رخ تبدیل کرنے کا حکم دیا مگر اس کی رفتار زیادہ تھی اور فاصلہ کم۔ چنانچہ آئس برگ جہاز کے درمیانی حصے سے ٹکراگیا جس سے اس میں تقریباً تین سوفٹ کا شگاف پڑگیا اور جہاز میں تیزی سے پانی بھرناشروع ہوگیا۔آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ٹائٹینک کو مکمل طورپر ڈوبنے میں دو گھنٹے اور 40 منٹ لگے۔

مگر جیک نے روز کو بچاتے ہوئے اسے ایک تختے پر بٹھایا اور اس کی جان بچائی اور خود جان دے دی۔

جہاز کا کپتان ایڈورڈ جان اسمتھ بیشترعملے کے ساتھ خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود ڈوب کر انسانیت پر احسان کر گیا۔ وہ آخری آدمی تھا جس نے جہاز سے چھلانگ لگائی۔

ایک آدمی آخری کشتی کی طرف تیرتے ہوئے ہوئے لپکا تو ایک مسافر نے کہا ”یہ پہلے ہی اوور لوڈ ہے“ اس پرتیراک پیچھے ہٹ گیا اورکہا ’’کوئی بات نہیں،خدا خوش رکھے‘‘یہ جہاز کا کپتان 62 سالہ ایڈورڈجان سمتھ تھا۔ دوسروں پر اپنی جان نچھاور کرنے کے عظیم جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اس کا مجسمہ اسٹیفورڈ میں نصب کیا گیا ہے۔
اپنے سفر کے آغاز کے چوتھے اور پانچویں روز کی درمیانی شب اس میں سوارجیک سمیت 1500 مسافر وں کی زندگی کا چراغ اس وقت گُل ہو گیا جب یہ سمندر کا بادشاہ برف کے گالے سے ٹکرا کر دوٹکڑے ہوگیا۔

جہاز پر موجود کشتیوں کے ذریعے 1178 افراد کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں مگر افراتفری کے عالم میں جب کشتیاں سمندر میں اتارنے کا سلسلہ شروع ہوا توابتدائی کشتیوں میں گنجائش سے کم افراد بٹھائے گئے جب کہ ایک کشتی غفلت کے باعث الٹ گئی۔ اس طرح صرف 705 مسافروں کو زندہ بچایا جاسکا۔

ڈوبتے جہاز سے روانہ ہونے والی آخری کشتی کا آخری سوار چارلس جوگن تھا مگر وہ کوئی مسافر نہیں بلکہ جہاز کے عملے کا ایک رکن تھا۔

ان میں کمپنی کا مالک اسمے بھی شامل تھا جو خواتین اور بچوں کوڈوبتے جہاز میں چھوڑ کر ایک کشتی کے ذریعے نکل گیا۔ اس خود غرضی پر وہ پوری زندگی نفرت کا نشانہ بنا رہا ۔اسے” ٹائی ٹینک کا بزدل “اور ”بروت اسمے“ کہا جاتا تھا۔

ٹائٹینک فلم پر 20 کروڑ ڈالر لاگت آئی جبکہ جہاز صرف 75 لاکھ ڈالر میں بن کر تیار ہوگیا تھا۔ فلم کے حصے میں بہترین فلم سمیت گیارہ آسکر ایوارڈز آئے جو ایک ریکارڈ ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلم ’ٹائٹینک‘کل بھی شہرہ آفاق تھی اور آج بھی اسے دیکھنے اور چاہنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔

تازہ ترین
تازہ ترین