ابا جان مجھےاسکول سےہی بائیولوجی اچھی نہیں لگتی تھی، میں نے تو سوچ رکھا تھا کہ انٹر ہوجائے تو فائن آرٹس پڑھوں گی مگر آپ کا فیصلہ ہے کہ میڈیکل کالج میں داخلہ لوں کیونکہ آپ کے مطابق معاشرے میں ڈاکٹرکا ہی اعلیٰ مقام ہے اور آگر ڈاکٹر نہیں بنوں گی تو خاندان اور معاشرے کے’’ لو گ کیا کہیں گے؟‘‘ اگرمیں بن بھی گئی تو ایک اچھی ڈاکٹر نہیں بن پاؤں گی۔
لوگ۔۔۔آج کل کے دور میں خاص کر ہماری سو سائٹی میں کسی کو بھی کو ئی بات اگر منوانی ہو تو بس اتنا کہنا کا فی ہوتا کہ ہے ’’ لو گ کیا کہیں گے؟‘‘اس جملے کو آپ ہیروشیما پر پڑنے والے مہلک ایٹم بم سے بھی زیا دہ ’’ایموشنل بلیک میل ‘‘کر نےوالا ہتھیار تصور کر سکتے ہیں۔
جیسے کہ آپ کو چند مثال دوں کہ خاندان میں شادی کرو ورنہ برادری کہ لو گ کیا کہیں گے، ڈاکٹر ی یا انجینئرنگ پڑھو ورنہ لو گ کیا کہیں گے،ارے میوزک کمپوسر !یہ کیا ہوتا ہے لو گ کیا کہیں گے، ہئیر سیلون مطلب حجام دماغ خراب ہو اہے تمہارا لو گ کیا کہیں گے۔کیا ایونٹ پلینرمطلب اب تم دوسروں کی شادی بیاہ کے برتن لگاؤ گےاپنی شادی کی فکر کرو لو گ کیا کہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: ’غریب کا بچہ آرٹ نہیں پڑھ سکتا؟ہم 100بچوں کوپڑھائیں گے ‘
جی اُمید ہے آپ کو آئیڈیا مل گیا ہو گا کہ میراآج لکھنے کا ’’ارادہ‘‘ کیا ہے؟ارے نہیں صاحب میرے اس لفظ ’’ ارادے‘‘ سے آپ ایسا گمان نہیں کر بیٹھیے گا کہ جیسے کہ آج اللہ خیر کرے کہ میرا کوئی نیک ارادہ نہ ہو۔ورنہ لو گ کیا کہیں گے ہے نا۔۔۔۔۔۔
میں ، آپ اور ہم سب کی کہی نہ کہی یہ روز کی بات ہوگی کہ ہم اسی وحشت ، جھجھک، معاشرتی اور خاندانی امیج کے خاطر نہ جانے کتنے’’ خوابوں کی چنگاریاں ‘‘راکھ کے بوجھ تلے نوید کی اُمید لگائے بوڑھی ہورہی ہیں۔
اصل میں میرے خیال سےیہ ایک طرح سے معاشرے کا وہ دباؤ ہے جو ہمیں اس بے معنی اداکاری کرنے پر مجبور کرتا ہےکہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔اور مجھےخود بھی نہیں معلوم کہ ہم سب نے اس مہلک ہتھیار کو کیوں’’بلیک میل ٹرینڈ ‘‘بنا لیا ہے۔
یاد آیا کہ ایک فیملی ہے ،کرائے کے مکان میں رہتی ہے کرایہ بھی بڑی مشکل سے جگاڑ کر کے مہینے کے آخر تک بس ہوجاتا ہے۔مگر اُن کو جب کہی کسی تقریب میں جانا ہو تو گلی کے کونے تک’’ پر فیوم‘‘ کی خوشبو مہک رہی ہوتی ہے۔اور کپڑوں کے لشکارے ایسے کہ جیسے بوتیک اور ڈیزائنر ڈریسس ا ن کےگھر کی کھیتی ہو۔یہ سب اہتمام کیوں! اندا زہ لگا لیجئے آپ! ورنہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘
بہر حال ہم سب کے ذہن پر معاشرے کا اتنا دباؤ ہے کہ احساسِ محرومی سے بھی محروم ٹھیرے ہیں کہ کہیں لوگ بُرا نہ مان جائیں اورپھر لوگ کیا کہیں گے۔
اس سے زیادہ انسانی سوچ کی شکست اور کیا ہوگی کہ ہم اپنی ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر سکے اور کوئی دوسرا شخص اس کے بارے میں رائے قائم کرے!!!اگر آپ نے اپنی مرضی سے کامیاب اور حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت زندگی گزارنی ہے تو سب سے پہلے اپنے دل و دماغ سے’’ لوگ کیا کہیں گے ‘‘کو دور نکال دے۔
اوراصل میں مسئلہ لوگ نہیں بلکہ ہم خود ہیں کیونکہ معاشرہ لوگوں سے بنا ہےاور لوگ بھی ہم خود ہی ہوتے ہیں اور جب ہم دوسروں پرتنقید کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے تو پھر کیسے خود کو ٹھیک کر سکتے ہیں؟اور جب تک ہم میں اس سوچ کا مادہ موجود رہے گاکہ اگر میں نے وہ کام کیا تو لوگ کیا کہیں گے اور اگر یہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے تب تک آپ مکمل طور پر خام اور ناتمام ہیں لہٰذااس مسلے کا حل اُس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک ہم خود کو نہیں ٹھیک کر لیتے ہیں۔چنانچہ اس مقام پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی رائے اور کام پر فوکس کرے کوئی کام یا عمل چھوٹا بڑا نہیں ہوتا بلکہ اُس کام کا انحصار مکمل ہم پر ہوتا ہے۔
اُمید ہے میری طرح آپ کو بھی اب 1972 کی مشہور فلم ’’ امر پریم‘‘ کا گانا ’’ کچھ تو لوگ کہیں گے ۔۔۔۔لوگوں کاکام ہے کہنا ‘‘ یاد آرہا ہوگا۔