• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رو بہ رو پھر سر رہ گزار آ گیا

Faiz Ahmed Faiz Birthday Today

’دست صبا‘،’شام شہریاراں‘، ’نقش فر یادی‘، ’زنداں نامہ‘،’ میرے دل میرے مسافر‘،’ دست تہہ سنگ ‘اور دیگر مجموعات کے خالق اور بیسویں صدی کے ممتاز انقلابی شاعر، صحافی اور مصنف فیض احمد فیض کا آج 107ء واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔

faiz00

آپ کی پیدائش 13 فروری 1911 کو تقسیم ہند سے پہلے سیالکوٹ میں ہوئی۔

1921 میں آپ نے سیالکوٹ سے ہی میٹرک کیااور پھر مرلے کالج سیالکوٹ سے ایف اے پاس کیا۔گریجویشن کی تعلیم گورنمنٹ کا لج لاہور سے حاصل کی۔آپ کے اساتذہ کرام میں شاعر ِ مشرق کے اُستاد میر مولوی شمس الحق بھی رہے۔

اُردو ادب کی بات کی جائےتو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علامہ اقبال اور مرزا غالب کامقام بے شک اعلیٰ ہے مگر حقائق کی فہرست میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ فیض احمد فیض کو ان دونوں معتبر شخصیات کے بعد اُردو ادب کا عظیم شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہےلہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض احمد فیض کا فنِ تحریر گویا ایسا تھا جیسے خوبصورت الفاظ کو کسی موتیوں کی مالا میں پرو ڈالا ہو۔۔۔کیونکہ آپ کی شاعری میں جمال و محبت ہے تو مظالم کے خلاف انقلاب کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔

9 مارچ1951 ء کو فیض احمدکو راولپنڈی سازش کیس میں معا ونت کے الزام میں اس وقت کی حکومت نے گرفتارکرلیا جس کے بعد چار سال تک سرگودھا، ساہیوال، کراچی اورحیدرآباد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔

رہائی کے بعدآپ نے جلاوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے خاندان سمیت رہائش پذیر رہے۔آپ نے جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک شعر میں کہاتھا:


فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

faiz-mid

آپ نے 1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں بطورِ سیکرٹری نوکری اختیار کی اور 1962ء تک وہیں کام کیا۔ 1964ء میں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔

فیض احمد فیض کے ادبی مجموعات کا ترجمہ انگریزی، فارسی، روسی اور دیگر زبانوں میں بھی کیا جا چکا ہے جوان کی ہر دلعزیزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ان کا مخصوص لہجہ و اسلوب ہی وہ جادو ہے جو آج تک مداحوں کو اپنا گرویدہ کئےہوئےہےگویا آپ کی شعری جبلت کی کیفیت سے بھر ی پڑی ہے جس کا ایک شاہکار زیر نظر ہے:

 گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے۔۔۔۔۔۔چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبارچلے

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو۔۔۔۔۔۔کہیں تو بہر خدا آج ذکر یارچلے

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز۔۔۔۔۔۔کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبارچلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی۔۔۔۔۔۔تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسارچلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں۔۔۔۔۔۔ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب۔۔۔۔۔۔گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچاہی نہیں۔۔۔۔۔۔جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دارچلے

faizJang

فیض احمد فیض کو اپنی ادبی خدمات کے عوض کئی ایوارڈز سے نواز ا گیا جن میں نگار ایوارڈ،ہیومن رائٹس کمیشن امن انعام، نشان امتیاز اور دیگر ایوارڈز شامل ہیں۔

20 نومبر 1984 ء کو 73 سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئےمگر ان کے الفاظ اور شاعرانہ اسلوب آج بھی آگہی کے محرک کی حیثیت سے استعمال ہوتےہیں چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ’’اُردو ادب‘‘ عہد ساز شاعر فیض احمد فیض پر تاحیات فخر کرتا رہے گا۔

تازہ ترین