اگر کوئی کریانہ اسٹور طلب کے مطابق ہی اشیا مصنوعات رکھے تو وہ اس طرح صارف کو نئی اشیاء سے متعارف نہیں کراسکتا، وہ صرف صارف کی ضرورت پوری کررہا ہے، ایسے اسٹور نئی ویلیو یا قدر تخلیق نہیں کررہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے روایتی ریٹیل سیل سے ہٹنا ہوگا اور ایساہی ہوا۔ بڑے بڑے شہروں میں خوبصورت مالز، بیوٹی پارلرز اور ریستورانوں نے اپنی طرف بے تحاشا صارفین کو متوجہ کیا ہے۔ اب تک یہ ہوتا آیا ہے کہ آپ کے پڑوس میں کریانہ کی دکان ہے، اپنی ضروریات کی اشیاء ماہانہ یا روزانہ خریدکر مطمئن ہوجاتے تھے، اس میں صارف کی مرضی تھی اور اب تک مضافات میںیہ سلسلہ چلتا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر بل کی ادائیگی کریں یا پھر ماہانہ کریں، بظاہر معیشت دانوں کے خیال میں فی کس آمدنی نہیںبڑھی لیکن مالز اور ریستورانوں کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کے لوگوںکے پاس کافی دولت آگئی ہے۔ اس دولت کا ایک ماخذ یہ بھی ہے کہ 18 ارب ڈالر ترسیلات زر ہر سال پاکستان آرہی ہیں، لاکھوں پاکستانی ملک میں آتے ہیں تو ان کیلئے بھی ریستوران اور مالز موجود ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق طلب پوری کرتے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ جو زیادہ تر دبئی یا یورپ میں شاپنگ پسند کرتے ہیں جس میں اکثریت کے پاس دو نمبر کی دولت بھی ہے، ان کیلئے پاکستان کے بڑے شہروں میں خوبصورت ریستوران اور مالز بن گئے ہیں جو دبئی جیسے لگتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق مذکورہ فہرست میں آنے والے صارفین شہروںکی آبادی کا 35 فیصد ہیں۔ اس تناظر میں اگر کراچی کی آبادی دو کروڑ بھی تخمینے میں ہو تو 70 لاکھ افراد مالز اور ریستورانوں اور دیگر خرید و فروخت کی جگہوں کو رونق افروز بناتے ہیں۔ اس انسانوںکے جنگل میں ایک کروڑ تیس لاکھ آبادی میں ایک کروڑ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور تیس لاکھ آبادی ہفتے میں ایک مرتبہ ریستورانوں کا رخ کرتی ہے۔ کریانہ دکانوں سے جولوئر مڈل کلاس اور محنت کش خریداری کرتے ہیں وہ اس بات کو یقینی بناتےہیںکہ جو سودا سلف ایک ماہ کیلئے لیا ہے مثلاً چاول، آٹا، چینی، نمک مصالحہ جات،کھانےپکانے کا تیل مہینے کے آخر تک چلیں گے۔ لیکن بڑے بڑے مالز میں جانے والے جو جی میں آتا ہے خرید لیتے ہیں۔بچے ساتھ ہوں تو خریداری میں بے معنیٰ اضافہ ہوجاتا ہے۔ بعض مڈل کلاس کے افراد کریڈٹ کارڈ کے رومانس سے بھی وقتی طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں اور بعدازاں یہ کریڈٹ کارڈ ایسے خریداروں کیلئے وبال جان بن جاتا ہے۔ شاپنگ کے امکانات اور اس کے ساتھ کھانے پینے کے مواقع کو اگر ملادیا جائے تو فیملی انجوائے منٹ اچھی ہوجاتی ہے کیونکہ پارکنگ کیلئے انتظامات بھی ہوتے ہیں اور گرمی زیادہ ہو تو ایئرکنڈیشنڈ سے بھی لوگ لطف اندوز ہوتےہیں۔ خاص دنوں میں جن میں عیدیں بھی شامل ہیں، ان دنوں میں بیوٹی پارلر (شادی کے کچھ مہینے بھی شامل ہیں) اور ریستورانوں میںلوگ لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ، بعض باہر سے آئے ہوئے لوگ جو ناشناسا ہوتے ہیں کون کہتا ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے، پاکستان کے بڑے شہروں میں خریداروں کو متوجہ کرنے کیلئے برانڈیڈ اشیا اور بہترین پکوان کے ریستورانوں کو دیکھ کر پیسے والا صارف اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ بعض لوگوںکے پاس اس قدر دولت ہے وہ خوش ہیں کہ ان کو برانڈیڈ اشیا پاکستان میں ہی مل جاتی ہیں جس کیلئے وہ اکثر یورپ اور دبئی جاتے تھے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ بڑے شہروں کے مالز کی دلکشی بھی شاندار ہے۔ نتیجے کے طور پر شاپنگ مالز، ڈپارٹمنٹ اسٹور ور فلیگ شپ اسٹورز کی شاخیں بھی کھلنے لگی ہیں۔قرب و جوار کے دوسرے درجے کے شہروں میں بھی خریداری کیلئے ایک ہجوم میسر ہے اس لئے کنزیومر ازم عروج پر ہے۔ اب یہ معیشت دانوںکا مسئلہ ہے کہ جو ملک خود مینوفیکچرنگ نہ کرتا ہو، فی کس آمدنی نہ بڑھا سکتا ہو، قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اس میں کنزیومر کتنا اور کس قدر قوت خرید رکھتا ہے۔ ٹیکس کے محکمے خاموش ہیں۔ بینک اس پیسے کی ریل پیل جو 35 فیصد لوگوں کے پاس ہونے کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کررہی ہے، خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کے علاوہ کئی بینکوں نے کریڈٹ لائنز 30 لاکھ روپے تک جاری کررکھی ہے۔ اچھی تنخواہ والوںکیلئے گاڑیاں لیزنگ پر دی جارہی ہیں، اگر کوئی یہ کہنا چاہے خاص طور پر جو معاشیات سے نابلد ہے کہ یہ ریٹیل انقلاب ہے، انجانے کو منع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آئن سٹائن نےکہا ہے کہ جہالت کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔ شاپنگ مالز، ڈپارٹمنٹل اسٹور، سپر مارکیٹس یہ 90 کی دہائی کے بعد شروع ہوئیں، آغاز میں ان کی شرع نمو مدھم تھی حالانکہ ہیروئن کا پیسہ نئی اشرافیہ کے پاس تھا لیکن ہر کوئی دبئی ہی جانا چاہتا تھا۔ ایک عرصے تک اچھے اسٹور کھل رہے تھے لیکن صارف زیادہ تر دو نمبرکا تھا جو باہر جانا پسند کرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ روایتی عادات بھی تھیں، لیکن باہر سے پیسے والوں نے دبئی طرز سے شاپنگ مالز کی ابتدا کی،بیرونی فرنچائز کھانے پینے کے تھے، انہوں نے ٹین ایجرز کو اشتہاروں کے ذریعےہدف بنالیا لیکن30 سال سے زائد عمر کا ذوق اور ذائقہ تبدیل نہ کرسکے اور اب پاکستانی پکوان زیادہ لذیذ اور مزیدار قرار پائے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی پاکستان میں کیسے رونما ہوئی۔ غیردستاویزی معیشت اور گرے معیشت بہت تیزی سے بڑھی جس کے نتیجےمیں ایک نئی مڈل کلاس پیدا ہوئی۔بعض اندازوں کے مطابق یہ آبادی کا 35 فیصد ہیں، کچھ نوجوان جوڑے جو باہر ملازمتیں کرتے ہیں یا جن مالدار نوجوانوںکا باہر سے آنا جانا بہت رہا ہے، ان کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے۔ تیسری وجہ ٹیکنالوجی ہے جس نے معاشرے کی بعض اقدار کو بالکل تبدیل کردیا۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے گھر بیٹھے بھی کام شروع کردیااور یوں انفرادی طور پر لوگوں کی قوت خرید بڑھنے لگی۔ ٹیکنالوجی نے کلچر کو نئی شکل دے دی جس میں ملبوسات، کھانےپینے اور موسیقی کے ذوق اور ذائقہ میں تبدیلی آئی اور یہ تبدیلی کسی حد تک گلوبل بھی تھی، اس سے معاشی طور پر کتنا فائدہ ہوا، ادب، فلم اور سوچ میں کیا فرق آیا، یہ الگ قصہ ہے۔ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نوجوان جن میں خواتین قابل ذکر ہیں، انہوںنے اپناراستہ خود نکال لیا تاہم اسی معاشرے میں لاکھوں لوگ اب بھی دسترخوانوں سے کھاتے ہیں اس کی وجہ غربت اور امارت میں بھیانک فرق ہے۔ سیلولر ٹیکنالوجی نے بے راہ روی کو بڑھایا ہے اور لوگ اس وجہ سے بچوں کیلئے پریشان بھی نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ بزنس کے نئے ماڈل سامنے آرہے ہیں لیکن تعلیم فروخت ہورہی ہے، صحت کی حالت بہت خراب ہے اس لئے پوسٹ ماڈرن ازم کی فلاسفی کے تحت بے مروت اور روبوٹ دنیا پیدا ہورہی ے، جس کا نظریہ عیاشی اور کھنا پینا ہے، دولت کا ارتکاز بھی بڑھ رہا ہے۔ پھر ’’لان‘‘ انقلاب بھی سامنے آیا ہے، نئے ڈیزائنر یا ڈیزائنز سامنے آئے۔ کیٹ واک کا عنصر بھی معاشرے میں داخل ہوا اور ساتھ دوسری جانب تنگ نظری بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ گھروں میں لان کے کپڑوں کی نمائش بھی عام ہوگئی ہے اور بہت مہنگے اور اچھے فیبرک ہائوس بھی سامنےآئے ہیں۔ معاشرہ دو انتہائوں سے گذر رہا ہے اور اس کا ملاپ اعتدال کے کس نقطہ پر ہوتا ہے، یہ کوئی دانشور نہیں بتارہا ۔ حالانکہ ریٹیل خریداری کا ابھی آغاز ہے۔ منافع کمانے والے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اس لئے آن لائن شاپنگ کا بھی اچھا آغاز ہوچکا ہے۔ اب یہ حکومت کو دیکھنا ہے کہ سروسز انڈسٹری کے ساتھ مینوفیکچرنگ اور زراعت کے شعبےکو آگے لیکر کس طرح چلنا ہے ورنہ یہ میلہ چار دن کا ثابت ہوگا۔ معیشت میں توزان ضروری ہے۔