جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کون ہوگا؟ کیا تحریک انصاف پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیدے گی کیونکہ اب سے کچھ دن پہلے عمران خان کچھ اور کہہ رہے تھے، چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کی تلاش میں سیاسی جماعتوں کے اجلاس اور ملاقاتیں جاری ہیں، بدھ کو ن لیگ کے قائد نواز شریف کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار بنانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا گیالیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔
ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ رضا ربانی کو سپورٹ کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن اگر پیپلز پارٹی انہیں امیدوار نامزد نہیں کرتی تو پھر اتحادی اپنا امیدوار سامنے لائیں گے، مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کو اس حوالے سے آصف زرداری سے ملاقات بھی کی لیکن انہوں نے رضا ربانی کو دوبارہ چیئرمین سینیٹ بنانے کی تجویز مسترد کردی ۔
شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کیلئے سلیم مانڈوی والا کا نام سامنے آرہا ہے، جمعیت علمائے اسلام کے ذرائع نے جیو نیوز کوبتایا کہ آصف زرداری نے اس بار ے میں مولانا فضل الرحمٰن کو آگاہ بھی کردیا ہے، دوسری جانب چیئرمین سینیٹ سے متعلق اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس عہدے پر پیپلز پارٹی کا امیدوار ہی آئے گا جو تحریک انصاف سمیت سب کیلئے قابل قبول ہوگا، اگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار رضا ربانی ہوتے اور آصف زرداری کو بھی قبول ہوتے تو اعتزاز احسن کی بات صحیح ثابت ہوتی نظر آتی مگر کیا اب بھی صحیح ثابت ہوسکتی ہے جبکہ آصف زرداری نے رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کیلئے امیدوار نامزد کرنے سے متعلق نواز شریف کی تجویز ماننے سے انکار کردیا ہے، کیا کوئی اور ایسا امیدوار ہوگا جسے تمام جماعتیں ووٹ دیدیں۔
پیپلز پارٹی پراعتماد ہے کہ چیئرمین سینیٹ کیلئے تحریک انصاف ان کے ساتھ مل جائے گی لیکن پہلے چیئرمین سینیٹ کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دینے کی بات کرنے والے عمران خان کیلئے کیا اب پیپلز پارٹی بدل گئی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ایک طرف چیئرمین سینیٹ کیلئے سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے تو دوسری جانب سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کیلئے طریقہ کار بنانے کی بات ہورہی ہے، گزشتہ روز فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار بدلنے کیلئے موجودہ پارلیمنٹ میں ہی آئینی ترمیم لائی جائے گی اس کیلئے دونوں بڑی جماعتوں سے بھی رابطہ کیا جائے گا، بدھ کو اس حوالے سے ن لیگ کے قائد نواز شریف کا کہنا تھا کہ جو جماعتیں ہارس ٹریڈنگ کیخلاف لائحہ عمل بنانا چاہتی ہیں وہ اس کیلئے تیار ہیں، اب جب سب تیار ہیں تو دیکھتے ہیں واقعی اصلاحات آتی ہیں یا نعرے بازی کی حد تک ہی بات رہ جائے گی۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ توہین عدالت کی سزا پوری کرنے کے بعد ایک اور بیان اور ایک اور غلطی کے بعد نہال ہاشمی پھر سے مشکل میں آگئے ہیں، بدھ کو انہیں توہین عدالت کا ایک اور نوٹس مل گیا ہے، کیا انہیں ایک بار پھر سے سزا ہوگی اور کیا سزا اس بار پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوگی،عدالت عظمیٰ سے جو ریمارکس سامنے آئے وہ صرف نہال ہاشمی ہی نہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی ایک پیغام کے طور پر نظر آئے، نہال ہاشمی کو پہلے ہی ایک ماہ کی سزا، پچاس ہزار روپے جرمانہ اور سینیٹ سے نااہل کی سزا مل چکی ہے، وہ پانچ سال تک کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتے، اب آگے کیا ہوگا، عدالت نہال ہاشمی پر سخت برہم دکھائی دی۔
شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ بدھ کو سپریم کورٹ میں ایک اور توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں 2011ء میں اس وقت کے چیئرمین نیب سید دیدار حسین کو ہٹانے کے عدالتی فیصلے کیخلاف احتجاج پر توہین عدالت کا اس وقت نوٹس جاری کیا گیا تھا ، بدھ کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے تاج حیدر کیخلاف توہین عدالت کا وہ نوٹس واپس لے لیا، اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے پر تنقید ہوسکتی ہے مگر اس کی بھی کوئی حدود و قیود ہیں، عدالتی فیصلے پر کسی کو اکسایا نہیں جاسکتا، کسی کو تشدد کیلئے اکسانا ناقابل قبول ہوگا، کیامہذب معاشرے میں عدالت کو گالیاں دی جاسکتی ہیں، تاج حیدر نے عدالت میں کہا کہ اس وقت نواز شریف اور میڈیا عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کیا آپ اپنے کہے پر افسوس کا اظہار کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر تاج حیدر نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے تو ندامت کا اظہار کرتا ہوں، عدالت کو گالیاں دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا،چیف جسٹس نے کہا تاج حیدر کے احترام سے بظاہر توہین عدالت کا عنصر نظر نہیں آتا، پھر سپریم کورٹ نے تاج حیدر کیخلاف 2011ء کا توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کیخلاف ٹرائل مکمل کرنے کیلئے دو ماہ اور اسحاق ڈار کیخلاف ریفرنسز نمٹانے کیلئے مزید تین ماہ کا وقت دیدیا ہے، بدھ کی عدالتی کارروائی کے بعد یہ بحث دم توڑگئی ہے کہ احتساب عدالت چودہ مارچ تک فیصلہ سناپائے گی یا نہیں، اب شریف خاندان کیخلاف ریفرنسز پر ممکنہ طور پر فیصلہ چودہ مئی تک آنا ہے جبکہ اسحاق ڈار کیخلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ ممکنہ طور پر پندرہ جون تک آنا ہے، یہ وقت ہوگا جب عام انتخابات سر پر ہوں گے، اس دوران آنے والا کوئی بھی فیصلہ ملکی سیاست پر اثرانداز ہوسکتا ہے، احتساب عدالت کو نیب ریفرنسز پر مزید مہلت تو مل گئی لیکن ن لیگ اس سے خوش نظر نہیں آرہی، ن لیگ کا موقف ہے کہ ثبوت نہیں ہیں اس لئے معاملہ کو مزید تاخیر کا نشانہ بنایا جارہا ہے،مریم نواز نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ سوچیں اگر چھوٹا سا بھی ثبوت ہوتا تو یہ فیصلہ دینے میں دو دن نہ لگاتے، توسیع کا واضح مطلب ہے کہ کچھ نہیں نکلا۔
دوسری طرف آج احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کے متعلق خود چیف جسٹس نے نوٹس لیا اور سیکرٹری قانون سے جواب طلب کیا، سیکرٹری قانون نے جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی توسیع کیلئے سمری منظوری کیلئے وزیراعظم سیکرٹری کو بھیجی گئی ہے جو بارہ مارچ سے قبل منظور ہوجائے گی، عدالت نے سیکرٹری قانون کو حکم دیا کہ سمری سے متعلق ہمیں دس مارچ کو پیش رفت سے آگاہ کریں، اگر وزیرقانون نے سمری منظور کرلی ہے تو دس مارچ تک نوٹیفکیشن جاری کریں، سیکرٹری قانون نے یقین دہانی کروائی کہ چند روز میں جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع ہوجائے گی، یعنی اب جج محمد بشیر ہی شریف خاندان کے کیسز سنیں گے اور اگلے دو ماہ میں فیصلہ کریں گے۔