امتیاز راشد
بہت سے تحفظات،افواہوں اور ایک بڑی سیاسی تشویش کےبعد آخرکار 3مارچ کو سینیٹ کے الیکشن پایہ تکمیل کو پہنچ گئے جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن کو اس میں کامیابی حاصل ہوئی اگرچہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پختونخوا میں تحریک انصاف کو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن مسلم لیگ اس وقت ہر لحاظ سے نمایاں ہے اس کے قائد میاں نواز شریف نااہل قرار پانے کے بعد بھی اپنے اندر ایک سیاسی طلسم لئے ہوئے ہیں وہ بڑے بڑے عوامی جلسے کرکے اپنی جماعت مسلم لیگ ن کا قد بڑھا رہے ہیں۔
ادھر پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن اپنی حریف جماعت تحریک پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے بعض نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کا ووٹ 2013ء کے الیکشن کی نسبت بڑھا ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ اس وقت پنجاب کی وہ بڑی جماعت ہے جسے آنے والے عام انتخابات میں بھی شکست نہیں دی جا سکتی سینیٹ کے الیکشن کے بعد اب جو یودھ پڑنے والا ہے وہ سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب ، سینیٹ کا چیئرمین کون ہو گا ؟
اس پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان رسہ کشی کا منظر سامنے آنا شروع ہو گیا پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری جو ایک نہایت زیرک سیاست دان سمجھے جاتے ہیں انہوں نے چیئرمین شپ کے لئے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ان کی سیاسی بصیرت ایک عقاب کی آنکھوں کی طرح چاروں صوبوں کے حالات وواقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔
ادھر مسلم لیگ ن کے قائدین بھی اس مسئلے پر خاموشی سے نہیں بیٹھے وہ بھی ساری سیاسی صورتحال کو بھانپ کر چل رہے ہیں اس وقت سینیٹ میں سنیٹروں کی تعداد مسلم لیگ کے پاس ہے جو 33بنتی ہے وہ آسانی سے اپنا سینیٹ چیئرمین لاسکتی ہے لیکن ملکی سیاست بہت بے رحم ہوتی جا رہی ہے بعض دفعہ حقیقت بھی دھوکہ بن جاتی ہے اس لئے ابھی یہ کہنا کہ سینیٹ کا چیئرمین کون ہو گا ؟اس مسئلے پر حقیقت بھی دھوکہ کھا سکتی ہے ۔
تاہم مسلم لیگ ن نے نگران حکومت کی آمد سے قبل اپنی الیکشن مہم کا بھرپور آغاز کر رکھا ہے کچھ جلسے ہو چکے ہیں بہت سے ہوں گے تاہم کامیابی کس کا منہ چومے گی اس کا پتہ تو 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سےلگایا جا سکے گا کہ وفاق اور پنجاب میں آئندہ حکومت کس جماعت کی ہو گی کیونکہ ابھی حال ہی میں آصف علی زرداری، عمران خان اور ان کے سنیٹر سرور چودھری اس قسم کی بڑھک مار چکے ہیں کہ آئندہ حکومت ان کی ہو گی حقیقت اور بڑھکوں میں بہت فرق ہوتا ہے اب قوم کی نظریں نگران حکومتوں کی طرف لگ رہی ہیں ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا ہے کہ نگران حکومت میں وزیراعلیٰ کون ہو گا ؟ابھی وزیر اعلیٰ کا نام دور دور تک نظر نہیں آرہا لیکن اپوزیشن لیڈرسید خورشید شاہ نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے انہوں نے تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی رابطہ قائم کیا ہے۔
دوسری جماعتوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا آخرکار اس سال مئی کے مہینے میں نگران حکومتیں قائم ہو جائیں گی جس کے نتیجہ میں قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبوں کی اسمبلیاں ختم ہو جائیں گی۔ ایل ڈی اے کے سابق ڈی جی احد چیمہ جو مبینہ کرپشن کے سلسلے میں نیب کی حراست میں ہیں۔ ان سے بہت سے امور پر تفتیش بھی ہو رہی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ احد چیمہ نے تفتیش کے دوران کچھ انکشافات بھی کئے ہیں۔
ان کیلئے یہ ایک کڑا امتحان ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو بھی مخالفین احد چیمہ کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ احد چیمہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے یہ سب کچھ کر گزرے اگر احد چیمہ تفتیش کے بعد ذمہ دار قرار پائے گئے تو مسلم لیگ (ن) کو بھی شرمندی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ان کے اچھے کردار کو ثابت کرنے کیلئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی صدارت میں کابینہ کا بھی اجلاس ہو چکا ہے۔ جس میں احد چیمہ کو ایک ایماندار آفیسر قرار دیا جا چکا ہے۔ اگر احد چیمہ اس کڑے امتحان میں کامیاب ہو کر بے گناہ قرار پائے گئے تو پھر نیب کو بھی جو سبکی ہو گی وہ شاید نیب کے چیئرمین بھی برداشت نہ کر سکیں۔
بظاہر پنجاب حکومت کے محنتی افسر کی گرفتاری سے پنجاب حکومت اور نیب ایک دوسرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں ۔ احد چیمہ پنجاب کی بیورو کریسی میں ایک اچھے افسر کی طرح جانے جاتے ہیں ۔ شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کے پیچھے ان کا بہت بڑا کردار ہے لیکن نیب کی طرف سے سنگین ترین الزامات کے زریعے انہیں ایک کرپٹ افسر قرار دیا جا رہا ہے پوچھ گچھ جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کیا احد چیمہ پر لگے الزمات سچ ثابت ہوتے ہیں اور وہ اپنے ان جرائم میں دوسروں کو بھی پھنسوادیں گے یا دوسرے ان الزامات سے بچ جائے گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
ادھر عام انتخابات سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چاہتے ہیں کہ نئی حکومت آنے سے قبل وہ اپنے تمام ترقیاتی کام مکمل کرکے سرخرو ہو جائیں وہ اس سلسلے میں دن رات محنت کرکے ان کاموں کو مکمل کرنے کی طرف گامزن ہیں سخت محنت کی وجہ سے وہ پچھلے دنوں کچھ بیمار بھی رہے تاہم پنجاب میں میٹرو ٹرین سمیت تمام ترقیاتی کام مکمل ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔یہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کی ایک بڑی کامیابی ہے جب میاں شہباز شریف آئندہ الیکشن میں امیدوار ہوں گے تو انہیں اپنی شخصیت کے علاوہ اچھے کاموں کا بھی صلہ ملے گا۔
پنجاب کےلوگ آئندہ بھی انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں تاہم جب میاں شہباز شریف مسلم لیگ ن کی مکمل طور پر صدارت سنبھال لیں گے تو ظاہر ہے کہ ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گا اب دیکھنا ہو گا کہ وہ پنجاب میں کس طرح کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں ضرور سوچ لیا ہوگا ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اس وقت ملکی سیاست میں نووارد ہوئی ہیں اس وقت حلقہ 120کے ضمنی انتخابات سے لیکر آج تک متعدد بار کارکنوں اور عوامی اجتماع سے خطاب کر چکی ہیں ان کا خطاب کرنے کا لہجہ اور اپنے اندر ایک پراعتمادی کا جو عنصر پیدا کیا ہے وہ انہیں سیاسی طور پر آگے لے جانے کے لئے کافی ہے وہ سیاست میں اپنے والد کا بھرپور طریقے سے ہاتھ بٹا رہی ہیں۔
وہ اپنے سیاسی عزائم کے ساتھ اسمبلیوں میں بھی آسکتی ہیں اور کوئی بڑا عہدہ بھی حاصل کر سکتی ہیں ابھی وہ احتسابی عمل سے بھی گزر رہی ہیں بقول ان کے یہ ہمارے لئے ایک بڑا امتحان ہے اور اس امتحان میں انہیں کامیابی ہو گی بلکہ ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ یہ ہمارے خلاف احتساب نہیں ہے انتقام ہے اور انہوں نے اس انتقام کی اس طرح وضاحت کی ہے کہ قسمیں کھانے والے جج کے دل میں ملال اور ضمیر پر بوجھ ہے ہمیں جو لوگ نااہل کر رہے ہیں انہیں رسوا کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
محترمہ بے نظیر کے بعد مریم نواز کو ان کے کارکن سننا چاہتے ہیں لیکن مریم نواز محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں بن سکتیں اس سلسلے میں انہیں ایک بڑا سیاسی ریاض کرنا ہو گا ابھی مریم نواز کو بہت کچھ سیکھنا ہے ۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بہت سے مسئلے پر کامیاب ہیں لیکن مہنگائی اور امن وامان کی صورتحال پر وہ کچھ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دے رہے ان کے سخت کنٹرول کے بعد بھی مہنگائی دن بدن منہ کھولتے نظر آ رہی ہے لوگ اب مہنگائی کے ہاتھوں زیادہ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔