2009ء کا ذکر ہے، میرے والدین نے کرائے پر ایک کشادہ گھر لینے کا فیصلہ کیا۔دراصل ہم جس مکان میں رہتے تھے، وہ ہماری ضروریات کے لحاظ سے چھوٹا تھا۔ بہرحال، چند ماہ کی کوششوں سے ہمیںایک ایسا گھر مل گیا، جوہماری ضرورتوں کے عین مطابق تھا۔ کشادہ کمروں اور بڑے ڈرائنگ روم کی وجہ سے وہ بڑا آئیڈیل گھر تھا۔
ڈرائنگ روم کا ایک دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا۔ ابھی ہم جس مکان میں مقیم تھے، اس میں ڈرائنگ روم کا دروازہ اندر صحن سے کھلتا تھا، جس سے گھر والوں کو پریشانی رہتی ، خصوصاً میرے بھائی سخت ناخوش رہتے کہ انہیں اپنے دوستوں کو بلا نامشکل لگتا۔ قصّہ مختصر، سب نے جب اس نئےمکان کو اوکے کردیا، توہم بیعانہ دے کر فوراً وہاں شفٹ ہوگئے۔ مگرہمارے شفٹ ہونے کے بعد نئےمحلّے والوں نے ہمیں طرح طرح کی باتیں بتائیں کہ ’’یہ گھر آسیب زدہ ہے، آپ کوبہت محتاط ہونا پڑے گا۔‘‘ لیکن چوں کہ ہمیں ایسی باتوں پر قطعی اعتبار نہیں تھا۔ اس لیے سب سنی اَن سنی کردیں۔
کچھ عرصہ تو سکون سے گزرالیکن چند ہی روز بعدہمارے کمروں سے مختلف چیزیں غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ گھر کے سب افراد ان چیزوں کی اچانک گم شدگی کا الزام ایک دوسرے پر ڈال کر لڑنے لگتے، پھر کچھ دنوں بعد وہ چیز کسی اور جگہ رکھی نظر آجاتی۔ تب بھی ہمیں کوئی شبہ نہیں ہوا۔
میرا چھوٹا بھائی، آصف کمرے کی سجاوٹ کا سامان اکثر خریدتا رہتا تھا، وہ جب کوئی چیز خرید کر کمرے میں لاکر رکھتا، ذرا سی دیر میں اس جگہ سے غائب ہوجاتی، تو وہ سب گھر والوں سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیتا۔ امّی کے ساتھ بھی یہ ہونے لگا کہ اکثر ان کی قینچی غائب ہوجاتی تھی۔ ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتے، لیکن وہ کہیں نہ ملتی، پھر کسی روز اچانک کسی میز پر رکھی مل جاتی۔
ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ بڑے بھائی، حاشر الگ کمرے میں اکیلے سوتے تھے۔ سب سے پہلے ایک ناقابلِ یقین واقعہ ان ہی کے ساتھ پیش آیا۔ رات کو ان کے سرہانے کسی کے تیز تیز چلنے کی آوازیں آنے لگیں، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے، توانہیں اپنے آس پاس گھنگھروئوں کا شور سنائی دیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی ناچتا کودتا ان کے پلنگ کے اطراف گھوم رہا ہو، مگر جب حاشر بھائی نے لیمپ جلایا، تو آوازیں آنابند ہوگئیں۔ چند روز تک یہ سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا، تو انہوں نے امّی سے اس کا ذکر کیا۔ امّی نے حسبِ عادت اسے وہم قرار دے کر انہیں تنبیہہ کردی کہ اس کا ذکر گھر میں کسی اور سے مت کرنا، ورنہ سب بلاوجہ خوف کا شکار ہوجائیں گے۔
پھر ایک روز، حاشر بھائی کی قوتِ برداشت اس وقت ختم ہوگئی، جب کسی نے ان کا نام لے کر انہیں جگایا اور بار بار انہیں ان کے نام سے پکارتا رہا، یہ آواز کبھی ایک کونے سے آتی، کبھی دوسرے سے۔ سرہانے کے قریب سے بھاگنے کی آوازیں بھی صاف سنائی دینے لگی تھیں۔ حاشر بھائی بری طرح سے خوف زدہ ہوگئے، مگر ابّو اور امّی نے ان کی ہر بات کو ان کا وہم سمجھ کر ٹال دیا اور کسی کو خبر نہ ہونے دی۔
ہم دونوں بہنیں ایک کمرے میں مکمل اندھیرا کرکے اور کنڈی لگا کر سوتی تھیں۔ اس رات بھی ہم گہری نیند سو رہی تھیں اور آدھی رات کا وقت تھا کہ اچانک زوردار دھماکے سے دونوں کی آنکھ کھل گئی۔ یوں محسوس ہوا، جیسے دروازے پر کسی نے بم پھوڑ دیا ہو۔ ہم دونوں چیخیں مارکر اٹھ بیٹھیں، اندھیرے میں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ دونوں خوف و ہراس کے عالم میں کچھ دیر ایک دوسرے سے لپٹی بیٹھی رہیں۔
ہمارا خیال تھا کہ اس زوردار دھماکے سے سارا گھر بلکہ پورا محلہ جاگ اٹھا ہوگا، لیکن کافی دیر تک جب ہر طرف سنّاٹا طاری رہا، تو میں نے ہمّت کرکے ٹیوب لائٹ آن کی، روشنی ہوئی، تو کچھ حوصلہ بڑھا، کنڈی کھول کر باہر جھانکا، تو چوکھٹ کے ساتھ پریشر ککر کا ڈھکن پڑا نظر آیا۔
دروازے پر اس کے ٹکرانے کا واضح نشان بھی موجود تھا۔ میری شروع سے یہ عادت تھی کہ رات کو برتن دھوکر باورچی خانے کی صفائی ضرور کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے، میں نے پریشر ککر دھوکر سلیب پر معمول کے مطابق اوندھا کر رکھ دیا تھا، لیکن پراسرار دھماکے کے بعد پریشر ککر کا ڈھکن، چوکھٹ پر پڑا دیکھ کر میری گھگھی بندھ گئی۔
پھر ہم دونوں نے ابّو اور امّی کے کمرے کی طرف دوڑ لگادی۔ انہیں جگایا، وہ گہری نیند سے اٹھے تھے، گویا دھماکے کی آواز صرف ہمیں ہی سنائی دی تھی۔ ہم نے اکھڑے سانسوں سے یہ بات بتائی، تو انہوں نےہمارے ساتھ جائے وقوعہ پر آکر معائنہ کیا۔ دروازے کا نقصان اور پریشر ککر کے ڈھکنے کو دیکھ کر وہ اسے ہمارا وہم نہیں کہہ سکتے تھے، لہٰذا کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے۔
کچھ دنوں تک خاموشی رہی، ہمارا بھی خوف کم ہونے لگا۔ گرمیوں کا آغاز ہوچکا تھا، ایک رات بجلی چلی گئی، میرا چھوٹا بھائی اپنا موبائل فون ہاتھ میں لے کر باہر آگیا اور صحن میں پڑی چارپائی پر لیٹ کر گیم کھیلنے لگا۔ اسی دوران اس کی آنکھ لگ گئی، تو موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر چارپائی سے نیچے گرگیا۔
بھائی کی فوراً آنکھ کھل گئی۔ اِدھر ادھر ٹٹولا، موبائل نہ ملا، تو چارپائی کے نیچے جھانکا، اس نے لیٹے لیٹے زمین پر گرے موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا،تو وہ آگے سرک گیا، بھائی گھبرا کر پلنگ سے اٹھ بیٹھا اور پھر سے موبائل اٹھانے کے لیے نیچے جھکا، تو دیکھا وہاں ایک ہاتھ پہلے سے موجود تھا، جو موبائل اٹھا رہا تھا۔
بھائی کے بقول، وہ ہاتھ روشن تھا، جیسے ٹیوب لائٹ سے بنا ہوا ہو، بھائی کی چیخیں نکل گئیں، ہم فوری طور پر اس کے پاس پہنچے، تو وہ تھر تھر کانپ رہا تھا،اسے پانی وغیرہ پلایا، جس کے بعد اس نےیہ کتھا سنائی کہ کس طرح چارپائی کے نیچے سے اس نے وہ ہاتھ دیکھا۔
اس طرح کے واقعات روز کا معمول بنتے جارہے تھے۔ بند ٹی وی کا خود بخود چل جانا، آس پاس سے مختلف آہٹوں کا سنائی دینا، سی ڈی پلیئر کے گانے چلتے چلتے رک جانا، فریج میں رکھی مٹھائی غائب ہوجانا جیسے پے درپے پراسرار واقعات نے ہمیں خوف زدہ کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر اس گھر کو فوری طورپر چھوڑ کر جانا بھی آسان نہیں تھا۔ ایک روز میں کچن کے دروازے سے لگی امّی سے باتیں کررہی تھی کہ دروازہ یکایک ہلنے لگا اور ساتھ ساتھ مجھے دھکیلنے لگا، میں جلدی سے پیچھے ہٹ گئی۔
سوچا، شاید میرا وہم ہو، دوبارہ کھڑی ہوئی، تو دروازہ اتنی زور سے ہلا کہ میں گرتے گرتے بچی۔ امّی کی نظریں مجھ ہی پر تھیں، انہوں نے مجھے سنبھالا اور باہر صحن میں لے آئیں، اور شام کو یہ بات ابّو کو بتائی، تو انہوں نے تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ جلد ہی دوسرا گھر ڈھونڈلیں گے۔ بس، کچھ روز حوصلے سے رہنا ہوگا۔ ہمارا یہ حال ہوگیا تھا کہ سب نفسیاتی سے ہوکےرہ گئے تھے، ذرا سی آہٹ پر چونک جاتے۔
رشتے دار بھی ہمارے ہاں آتے ہوئے ڈرنے لگے تھے۔ پھر جس روز ابّو نے یہ خوش خبری سنائی کہ ہمیں نیا مکان مل گیا ہے، جس کا ایڈوانس بھی جمع کروادیا ہے، تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ جس روز سامان شفٹ کرنا شروع کیا، کسی عورت اور بچّے کی رونے کی ملی جلی آوازیں رات بھر متواتر سنائی دیتی رہیں۔ ابو نے سب سے پہلے ہم دونوں بہنوں اور امّی کو نئے مکان میں شفٹ کیا، پھر تینوں بھائیوں کے ساتھ مل کر سارا سامان شفٹ کروایا۔
نئے مکان میں آکر ہمیں قدرے سکون ملا، تاہم تقریباً تین سال کے عرصے میں بیتنے والے پراسرار واقعات نے ہمارے اعصاب انتہائی کم زور کردیئے تھے کہ موجودہ مکان میں رہتے ہوئے بھی ہمیں تقریباً پانچ سال بیت چکے ہیں، مگرابھی تک ذرا سی آہٹ پر اِدھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ خوف نے دِلوں میں جالاسا بن دیا ہے، خاص طورپر رات کو ہم سب بہن بھائیوں کو بہت ڈر لگتا ہے۔ شاید ہم اس خوف پر کبھی بھی قابو نہ پاسکیں۔
(عالیہ بتول، راول پنڈی)