یہ واقعہ جن حالات میں میرے ساتھ پیش آیا، میرااس بات پر ایمان مزیدپختہ ہوگیا کہ بے شک پروردگار ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاوراپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ مَیں بہ سلسلہ روزگار عرصہ دراز سےدبئی میں مقیم تھااورایک مقامی کمپنی میں بطور اسسٹنٹ فورمین ملازم تھا۔ مجھے ذاتی مکان، گاڑی سمیت ہر طرح کی آسودگی حاصل تھی، مگر دل میں حج کی تمنّا اور روضۂ رسول ؐ پر حاضری کی دیرینہ آرزو اب تک پوری نہیں ہو پائی تھی۔
باالآخر 1995ء میں حج کی نیّت کرکے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی کہ ’’اے میرے رب، میں نے اس برس حج کا ارادہ کیا ہے، اس سلسلے میں تو میری رہنمائی کر اور میری منزلیں آسان کرکے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما۔‘‘ پھر میں نے اپنے دفتری ساتھی، ریاض احمد کو حج کے حوالے سے اپنے فیصلے کے بارے میںآگاہ کرتے ہوئےاس سے درخواست کی کہ میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری تمہیں لینی ہوگی، تو اس نے آمادگی ظاہر کردی۔جس کے بعدمیں نےچھٹیوں میں گھر جانے کی بجائے حج پر جانے کا پکّا ارادہ کرلیا اور حج کی تیاریاں شروع کردیں۔
گھر والوں کوبھی مطلع کردیا۔جوں جوں حج کا مہینہ قریب آرہا تھا، میرا جوش و جذبہ بھی بڑھتا جارہا تھا، پھر روانگی کے دن قریب آگئے اور محض چند روز رہ گئے تو ایک روز میرے دفتری ساتھی، ریاض احمد جس نے میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری لی تھی، اچانک میرے کام کی ذمے داری اٹھانے سے انکارکردیا، اس کا موقف تھا کہ’’مجھ پر پہلے سےزیادہ کام کا بوجھ بڑھ گیاہے، لہٰذا مزیدذمّے داری نہیں لےسکتا۔آپ منیجر کے پاس جاکر اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لیں، کیوں کہ میرے انکار کے بعد وہ آپ کی چھٹی منظور نہیں کررہے۔‘‘جب کہ ادھر میرا ویزا لگ چکا تھا، ساری تیاریاں مکمل تھیں، اس کےاچانک انکار سےمیرا دماغ گھوم گیا۔
مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں اسی وقت ملازمت سے استعفے کی درخواست لکھ کر منیجر کے پاس پہنچ گیا اور بغیر کسی تمہید کے کہا ’’ منیجرصاحب!میں کافی پہلے ریاض احمد کو بتاچکا تھا کہ اس سال مجھے حج پر جانا ہے،لیکن آج اچانک اس نے کام زیادہ ہونے کا بہانہ کرکےمیری غیر موجودگی میں اس نے ذمّے داری سے انکار کردیا ہے۔
میری ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، میں ہر صورت حج پر جائوں گا، اس لیے استعفیٰ لایا ہوں، اسے قبول کرلیں۔ میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں۔‘‘ منیجر نے میرا دو ٹوک اندازدیکھا، تو رسمی طور پر سمجھاتے ہوئے میری چھٹی منظور کرلی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکےخوشی خوشی باہر نکلا ، اپنے ضروری کام نمٹائے۔
جب روانگی میں صرف ایک روز رہ گیا، تو ایک دوست ابرار احمد سے ملنے اس کی دکان چلا گیا۔وہ دبئی سینما کے علاقے میں رہتا تھا، جہاں اس کی بجلی کے سامان کی دکان تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک باتیں کرنے کے بعدجب میں اٹھنے لگا، تو وہ بھی میرے ساتھ میرے گھر آگیا۔پھر کسی کام سے میں نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو احساس ہوا کہ میرا پرس، جس میں پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس ، ورک پرمٹ، موٹر سائیکل کا لائسنس اور حج پر جانے کا خرچ سمیت ساری رقم اور ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے،غائب ہے، اس اچانک افتاد پر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی فاش غلطی مجھ سے کیسے ہوگئی اور پرس کہاں گرادیا، کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ ابرار نے فوراً اپنی دکان پر فون کیا۔ اس کے چھوٹے بھائی دکان پر تھے، انہوں نے اچھی طرح دیکھ کر بتایا کہ پرس وہاں موجود نہیں۔
اس صورتِ حال پر میرے ہوش اڑگئے کہ اب کیا ہوگا، کیا اللہ تعالیٰ کی اس میں کوئی مصلحت ہے، یا پھر مجھ گناہ گار کو وہ اپنے گھر بلانا نہیں چاہتا کہ اتنے عرصے تک شدید خواہش اور وسائل رکھنے کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے سے کیوں غفلت برتتا رہا۔ ابرار اور میں نے فوراً دکان پر واپس جانے کا ارادہ کیا، تاکہ خود پرس تلاش کرسکیں۔ میں نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔ ہم دونوں دکان پہنچے۔
اس کی دکان سے ذرا آگے کارنر پر ایک بلڈنگ زیرِ تعمیر تھی، وہاں ڈھیر کی شکل میں بہت سی بجری پڑی تھی اور کام رکا ہوا تھا، میں کچھ دیر پہلے جب یہاں آیا تھا، تو اپنی گاڑی بجری سےچند قدم کے فاصلے پر کھڑی کی تھی، اس دفعہ بھی وہیں کھڑی کی اور دکان کے آس پاس ہر جگہ اچھی طرح پرس تلاش کرنے لگا، لیکن پرس نہ ملا ، مایوس ہو کر باہر گاڑی کے پاس آیا، بجری کے ڈھیر کی طرف دیکھا، ابرار کا بھائی میرے ساتھ تھا، میں نے سوچا، شاید پرس بجری پر گر کر کہیں دب نہ گیا ہو، حواس باختہ ہو کر بجری کےڈھیر کی طرف لپکا اور پاگلوں کی طرح اس کے اندر ہاتھ ڈال کر الٹنے پلٹنے لگا۔
میری دیکھا دیکھی ابرار کا بھائی بھی بجری میں اِدھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ ہم دونوں تیزی سے یہ کام کررہے تھے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا، اس صدمے نےمیرے اعصاب پر گہرا اثر ڈالا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بے ہوش ہونے والا ہوں،میری زبان گنگ ہورہی تھی۔ سوچا، اگر مجھے کچھ ہوگیا، تو پھر حج کی حسرت دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔ یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہونے لگی ، میں نے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’میرے مولا! اگر میرے نصیب میں حج کرنا نہیں، تو مجھے اسی وقت اٹھالے، اپنے عاشقوں سے ایسا سلوک مت کر کہ میں تیرے اور محبوبِ کبریا ؐ کا گھر دیکھے بغیر زندہ رہوں۔
میرے راستے میں رکاوٹیں کیوں، میری خطائیں معاف کردے۔‘‘ اس وقت میرا منہ آسمان کی طرف تھا اور بجری میں لتھڑے ہاتھ پرس ٹٹولتے ہوئے ڈھیلے پڑنے لگے تھے کہ ابرار، جو دکان کے سامنے کھڑا ہمیں دیکھ رہا تھا،اچانک چلاّیا ’’محمود! اپنی گاڑی کی طرف دیکھو، یہ کون ہے؟‘‘ میرا سر چکرا رہاتھا، لیکن میں نے دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور میری گاڑی سے متصل سفید کار میں تیزی سے بیٹھ کر گاڑی دوڑاتے ہوئے نظروں سے یک دم اوجھل ہوگیا۔ میں نے ابرار سے پوچھا، کیا ہوا؟اس نے جواب دیا ’’ذرا اپنی گاڑی کی چھت پر دیکھو‘‘ میں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ادھر دیکھا، تو حیرت انگیز طور پر وہاں مجھے اپنا گم شدہ پرس دکھائی دیا، ہم تینوں تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑی کے پاس آئے۔ واقعی، وہ میرا گم شدہ پرس تھا، چیک کیا، توہر چیز جوں کی توں محفوظ تھی۔
ابرار نے بتایا کہ ’’میں تم لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ تیزی سے وہ سفید کار تمہاری گاڑی کے ساتھ آکر رکی ، اس میں سے ایک بزرگ اترے، انہوں نے تمہاری گاڑی پر پرس رکھا،جب تک میں نے چِلاّ کر تمہیں متوجہ کیا، وہ صاحب آناً فاناًگاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔‘‘ ابرار ان کا چہرہ صحیح طور پر دیکھ نہیں پایا تھا، خود میں نے بھی ان کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی ، اگر وہ شخص رک جاتا، توکم از کم اس کا شکریہ توضرور ادا کرتا، مگرشاید وہ کوئی عام شخص نہیں تھا، یہ سراسرغیبی مدد تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں ہی کو چنتاہے۔بہرحال، میرے لیے یہ خوشی بھی بہت تھی کہ میرے رب نے میری دعا قبول کرکے مجھے فوری اور غیبی امداد سے نوازا۔جس کے بعد مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھلا یہ واقعہ مَیںزندگی میں کبھی بھول سکتا ہوں۔ کبھی نہیں۔
(قاضی محمود حسین اجمیری، کراچی)