بیجنگ : چارلس کلوور، لوسی ہورنبے
لندن : جیمس کنج
چین نے جمعہ کو چین کے خلاف ٹیرف کی مہم کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھرپور مقابلہ کرنے کی تیاری کا اشارہ دیا، 128 امریکی درآمدات پر نئے ٹیکس کی تجاویز نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کھلی تجارتی جنگ کے مارکیٹ کے خدشات کو بڑھادیا ہے۔
چین کا ڈونلڈ ٹرمپ کو محتاط انداز میں تعین کردہ جواب خطرہ پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ بیجنگ نے کہا کہ وہ امریکی اسٹیل پائپس، تازہ پھلوں اور وائن پر 15 فیصد اور پورک اور ری سائیکلڈ ایلومینیم پر 25 فیصد ٹیرف سمیت تقریبا 3 ارب ڈالر کی درآمدات پر ٹیرف کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔
تاہم اس نے یہ بھی واضح کیا کہ اقدامات رواں ماہ کے آغاز میں اعلان کردہ امریکی اسٹیل اور ایلومینیم ٹیرف کے جواب میں ہیں اور چین سے سالانہ 60 ارب ڈالر سے زائد درآمدات پر 25 فیصد ٹیکس کیلئے نہیں،جس کا جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ کو انکشاف کیا،مستقبل میں زیادہ سخت منظر پیش کرتا ہے۔
سابق وزیر تجارت اور تجارتی پالیسی کے ماہر ہی ویوین نے کہا کہ چین کا مجموعی رویہ یہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی تجارتی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب جبکہ ٹیرف کاا علان کیا جاچکا ہے، چین کا مقصد ہے کہ جاری تجارتی جنگ کو روکا جائے۔
بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی ہوئے ٹیرف کی جیسا کو تیسا کی مہم پر اندیشوں نے اگرچہ عالمی مالیاتی مارکیٹس کو اپنے گھیر میں لے لیا، ایشیا میں تیزی سے فروخت کو فروخت دیا، جہاں جاپان کے نکی کا انڈیکس 4.5 فیصد گرگیا،اور یورپ میں معمولی کمی آئی، وہیں جرمنی کا داکس 1.8 فیصد نیچے آگیا۔
تاہم جمعرات کے سیشن میں ایس اینڈ پی 500 انڈیکس دوپہر میں تجارت میں تقریبا ہموار فروخت ہونے کے ساتھ امریکی حصص کی قیمتیں متوازن رہی۔
جنیوا میں امریکی ٹیرف نے یورپی یونین،جاپان، چین اور روس کیا جنب سے عالمی تجارتی تنظیم کے اجلاس میں شدید تنقید کی گئی۔ عالمی تجارتی تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹو آزیودو نے کہا کہ تجارتی بہاؤ میں رکاوٹ عالمی معیشت کو اس وقت خطرے میں ڈالے گا جب دنیا بھر میں معاشی بحالی اگرچہ کمزور لیکن تیزی سے ظاہر ہورہی ہے۔
امریکی بڑی کمپنیوں نے بھی خطرے کی پیش بینی واضح تھی۔ ایک سی ای او جس نے نام ظاہر کرنے سے منع کردیا ،تاہم ان کی کمپنی چین میں 20 سال سے سرمایہ کاری کررہی ہے، نے کہا کہ وہ واقعی فکرمند ہیں کہ وہ کون سے انتقامی اقدامات لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین میں امریکی دانشورانہ ملکیت کے تحفظ کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان شاید اچھا خیال ہو لیکن اسے شہ سرخیوں اور ٹوئٹر کے ساتھ براہ راست نہیں ہونا چاہئے تھا۔
سابق امریکی سفارتکارموجودہ ابرڈین اسٹینڈرڈ انوسیٹمنٹ میں ایسٹ مینیجر لیکس ولف نے خبردار کیا کہ نئے ٹیرفس کو بڑھائے بغیر بھی بیجنگ چین کے اندر کام کرنے والی امریکی ملٹی نیشنلز کے کاروبار کی مفاہمت کے ذریعے بھی بدلہ لے سکتا ہے۔
لیکس ولف نے کہا کہ چین ایپل، مائیکرو سافٹ، اسٹار بکس، جی ایم، نکی جیسی امریکی کمپنیوں کو آسان ہدف بناسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کا سامان اور شعبوں کی ایک مختلف قسم کے ہدف کا پھیلاؤ محتاط طریقے سے تیار کردہ سیاسی ہتھیار ظاہر کرتا ہے، یورپی یونین کی جانب سے بھی اسی طرح کے حربے کی دھمکی دی گئی جس میں کانگریس میں اہم ریپبلکنز کے انتخابی حلقوں میں ان کے اثرات سے شعبوں کو زیادہ سے زیادہ متاثرہوئے ہیں۔
بیجنگ میں حال ہی میں یورپی یونین چیمبر آف کامرس کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے جویرگ ووٹک نے کہا کہ چینیوں نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ ایک بڑی چھری استعمال نہیں کریں گے۔ وہ اسے چینی طریقہ علاج ایکو پنکچر کے انداز میں کریں گے اور سوئیاں لگائیں گے۔ اور یہ سوئیاں معلق ریاستوں میں، زراعت میں،ایسی ہر چیز میں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حلقے کیلئے تکلیف دہ ہو کے اندر داخل کی جائیں گی۔
بیجنگ میں رینمن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شی ینہونگ نے کہا کہ چین کو مخمصے کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انتقامی کارروائی نرم ہوئی تو اس سے چین کے عوام کی شکایتوں میں اضافہ ممکن ہے اور چین میں ہدف بنانے والی ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کو روکنے میں ناکام ہوسکتا ہے۔
تاہم اگر ان کا انتقام شدید ہوتا ہے تو پھر یہ چین کی معیشت کو سنگین نقصان پہنچاسکتا ہے اور اس سے شاید ڈونلڈ ٹرمپ مزید تجارتی پابندیا عائد کریں، جو تجارتی جنگ شروع کردے گی۔