شینزین: ٹام ہین کاک
’’بیجنگ کے ریسرچ گروپ گاویکال ڈریگنومکس کے آرتھر کروبر نے گزشتہ ماہ اپنے تبصرہ میں لکھا کہ بیجنگ کی توجہ یورپی یونین اور جاپان کو تجارتی تنازع میں امریکا کی جانب سے شامل ہونے سے روکنے پر ہے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر نئے ٹیرف کے نفاذ کے جواب میں چین نے پورک( سؤر کا گوشت)، پھل، خشک میوہ جات اور وائن سمیت امریکی فوڈز کی درآمد پر 25 فیصد سے زائد کی جوابی ڈیوٹی متعارف کرادی ہے۔
اتوار کو آن لائن پوسٹ کئے گئے ایک بیان کے مطابق بیجنگ نے کہا ہے کہ چین کے مفادات کی حفاظت اور امریکا کے اضافی ٹیرف کی وجہ سے نقصانات کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے امریکا کی 128 اقسام کی مصنوعات پر اضافی ڈیوٹیز پیر سے متعارف کرائی جائیں گی۔
اس بیان میں کہا گیا کہ 25 فیصد کا بلند ترین اضافی ٹیرف امریکی اسکریپ ایلومینیم اور متعدد اقسام کے فروزن پورک کی موجودہ اعلیٰ ڈیوٹیز پر نافذ کیا جائے گا، اضافی 15 فیصد ٹیرف کا اطلاق تازہ اور خشک پھلوں جیسا کہ چیریز، خشک میوے جیسے بادام اور پستہ، اور وائن و دیگر متعدد اقسام کی رولڈ اسٹیل بار پر کیا جائے گا۔
یہ فہرست گزشتہ ماہ بیجنگ کے مجوزہ اقدامات کے مطابق تھی جب یہ کہا گیا تھا کہ یہ امریکا کی 3 بلین ڈالر کی درآمدات پر ٹیرف کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔ اس ردعمل کو جوابی اقدام کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ اس نے امریکا کی چین کو اہم برآمدات جیسے سویابین کو چھوڑ دیا،جس کی امریکا نے گزشتہ سال تقریبا 14 بلین ڈالر کی برآمد کی تھی۔
یہ نئی ڈیوٹیز خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مارچ کے شروع میں اسٹیل اور ایلومینیم پر عائد کئے گئے ٹیرف کے جواب میں ہیں ، نہ کہ چین سے سالانہ 60 بلین ڈالر سے زائد درآمدات پر 25 فیصد لیوی کیلئے ہے،جس کا گزشتہ ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا۔یہ اس امکان کیلئے در وا کرتا ہے کہ مستقبل میں بیجنگ سخت ترین جواب دے سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ واشنگٹن کے ساتھ تجارتی تنازع میں اضافہ سے گریزاں ہے، اس کی معیشت ابھی بھی برآمدات پر کافی انحصار کرتی ہے اور کسی بھی تجارتی جنگ میں اس سے زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ امریکا کے ساتھ یہ فاضل مقدار میں کام کررہا تھا۔
تاہم چین میں بااثر مبصرین نے امریکا کے آئندہ ٹیرف کے سیٹ کا جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے، جس کی تفصیلات کا ابھی اعلان ہونا باقی ہے لیکن جس کی توقع ہے کہ اسٹرٹیجک شعبوں جیسے روبوٹکس، جسے بیجنگ اپنی صنعتی پالیسی کے حصے کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔
سویابین کی ترسیل کے خلاف جوابی کارروائی کا امریکی کسانوں پر کافی بڑا اثر ہوسکتا ہے، کئی ریاستوں میں سے کافی کسانوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن یہ چین کیلئے بھی اہم مشکل ہے۔ چین جانوروں کی غذا کے طور پر استعمال ہونے والی اس پروڈکٹ کیلئے امریکا پر کافی انحصار کرتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے قومی سلامتی کی بنیاد پر ایلومینیم اور اسٹیل ٹیرف کا جواز دیا۔ اس وقت چینی اسٹیل گروپس نے خبردار کیا تھا کہ امریکی ٹیرف کے دوسرے ممالک پر غیرمتوازن اثرات مرتب ہوں گے، اگرچہ متعدد امریکی اتحادیوں نے استثنیٰ کیلئے زور دیا ہے۔
امریکا کو اسٹیل کی درآمدات میں چین کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
بیجنگ کے ریسرچ گروپ گاویکال ڈریگنومکس کے آرتھر کروبر نے گزشتہ ماہ اپنے تبصرہ میں لکھا کہ بیجنگ کی توجہ یورپی یونین اور جاپان کو تجارتی تنازع میں امریکا کی جانب سے شامل ہونے سے روکنے پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین جانتا ہے کہ امریکا سمیت کسی بھی انفرادی حریف کے ساتھ تجارتی تنازع کو زاتی طور پر روک سکتا ہے لیکن چین کے تجارتی ترقیات پروگرام پر دباؤ کیلئے صنعتی جمہوریتوں کی جانب سے اجتعامی کوششیں زیادہ نقصان کا باعث بنیں گی۔