• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے چین کی جانب سے اقتصادی طاقت کا استعمال

شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے چین کی جانب سے اقتصادی طاقت کا استعمال

لندن : جیمس کنج

چین نے شمالی کوریا کو پیٹرولیم مصنوعات،کوئلے اور دیگر کلیدی سامان برآمد کرنے پر پابندی عائد کردی ہے،جو شمالی کوریا کے رہنما کم جون ان اور ان کے چینی ہم منصب شی جنگ پپنگ کے درمیان اس ہفتے کی بے مثال سربراہی اجلاس کے نتیجے میں ہیں۔

برآمدات کے انجماد کا انکشاف چین کے سرکاری ڈیٹا میں میں کیا گیا اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے تحت معین حدود کے مقابلے میں مزید کچھ زیادہ ہونے جارہا ہے، اس سے پیانگ یانگ کے جوہری ٹیسٹنگ پروگرام کے مضبوط ہونے کے بعد چین کا دباؤ بڑھانا ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس ہفتے شی جنگ پنگ کی دو قوموں کے درمیان گہری انقلابی دوستی کی بات چیت کے پس پردہ ان کی حکومت اپنے پڑوسی کے ساتھ مشکل کھیل کھیل رہی ہے۔

چین میں سابق امریکی سفارتکار اور ایبرڈین اسٹینڈرڈ انویسٹمنٹ میں ماہر اقتصادیات الیکس ولف نے کہا کہ چین نے شمالی کوریا میں بہاؤ والے نلوں کو مؤثر طریقے سے بند کردیا ہے۔ دستیاب ڈیٹا سے یہ ظاہر ہوا کہ شمالی کوریا کے معیشت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور اس نے بلاشبہ شمالی کوریا کی پالیسی میں تبدیلی پر اثرانداز ہوئی ہے۔

یہ چین کا زیادہ سے زیادہ دباؤ ہے جو شمالی کوریا کی پالیسی میں تبدیلی لاسکتا ہے۔

ستمبر میں اپنے جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے بعد سے شمالی کوریا نے انتہائی غیرمعمولی سفارتی سلسلے کا آغاز کیا ہے۔ کم جونگ ان کی بہن کم یو یونگ کو جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے سرما اولمپک میں بھیجا گیا تھا۔ کم جونگ ان نے ایک سربراہی اجلاس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مدعو کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا، ایک ایسی پیشکش جسے امریکی صدر نے قبول کیا ۔ اس ہفتے بیجنگ کے دورے کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا نے اس مہینے کے بعد مقرر کردہ ایک تاریخی اجلاس کا اعلان کیا۔

شمالی کوریا کی حکمت عملی میں تبدیلی کے پیچھے مقصد پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پیانگ یانگ نے اس کے جوہری اور بیلاسٹک میزائل مقاصد حاصل کرلیے ہیں اور اب ایک جوہری طاقت کیی حیثیت سے شناخت کیلئے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کے اتحادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کیلئے جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکا میں چند نے کم جونگ ن کی پالیسی میں تبدیلی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کی جانب سے دباؤ سے منسوب کیا۔

تاہم جزوی چینی برآمدات کا انجماد کا ثبوت ایک اور نکتہ نظر کا اضافہ کرتا ہے۔ چین کے سرکاری اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ جنوری اور فروری میں شمالی کوریا کو ریفائنڈ پیٹرولیم کی برآمد ماہانہ اوسطاََ 175.2 ٹن تھی، 2017 کے پہلے نصف میں 13،552.6 ٹن شپنگ کیئے گئے ماہانہ اوسط کا محض 1.3 فیصد ہے۔

کمی کی یہ سطح اوام متحدہ کی پابندیوں کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات میں 89 فیصد سے زائد ہے۔

2017 کے پہلے نصف میں ماہانہ اوسط 8،627 ٹن چلنے کے بعد فروری کے اختتام تک تین ماہ میں شمالی کوریا کو چین کی کوئلہ کی برآمدات کم ہوکر صفر رہ گئی تھی۔ رواں سال کے پہلے دو ماہ میں اسٹیل کی برآمد ماہانہ اوسطا 257 ٹن چل رہی تھی، 2017 کے پہلے نصف میں 15،110 ٹن کی ماہانہ اوسط سے نیچے ہے۔

چین کے سرکاری اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری میں صرف ایک یونٹ کی برآمد کے ساتھ موٹر وہیکل کی شپمنٹ بھی ختم ہوگئی ہے۔ چین کے اعدادوشمار کی درستگی پر خدشات پائے جاتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں نے کہا کہ برآمداتی حجم میں اس طرح مسلسل کمی کا امکان سرکاری پیشرفت کا نتیجہ نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ بیجنگ شمالی کوریا کو اقتصادی وقت یاد دلانے کی کوشش کررہا ہے جو یہ شمالی کوریا کے ساتھ بروئے کار لایا کیونکہ کم جونگ ان اپنے سفارتی دوروں کی تیاری کررہے ہیں۔ کم جونگ ان کے سفارتی دورے سے قبل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایک سینئر چینی عہدیدار نے کہا کہ بیجنگ پیانگ یانگ کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے۔

چینی سینئر عہدیدار نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک یہ سمجھ لیں کہ پیانگ یانگ کا مقصد جارحانہ نہیں ہیں لیکن شمالی کوریا کیلئے سیکورٹی کی ضمانت حاصل کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں شمالی کوریا نے مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کی تھی لیکن امریکا کے غیر لچکدارانہ رویے نے پیشرفت کو روک دیا۔

چین کی شمالی کوریا پر سخت پابندیاں شمالی کوریا کے ساتھ معاشی معاملات پر سخت ترین پابندیوں کیلئے امریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کی بیجنگ کی طویل عرصہ کی پالیسی کے برعکس ہیں۔ ایک مثال، شی جنگ پنگ نے 2016 میں سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کو بتایا تھا کہ شمالی کوریا کو پابندیوں سے کافی تھوڑا نقصان ہوا،جیسا کہ ملک میں پہلے ہی کافی غربت پائی جاتی ہے۔

مسٹر وولف نے کہا کہ چین بحران کے حل میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اسے اپنی شرائط پر کرنا چاہتا ہے۔

تازہ ترین