• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا کے احتجاج کے بعد بھارت نے جھوٹی خبروں پر بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا

میڈیا کے احتجاج کے بعد بھارت نے جھوٹی خبروں پر بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا

نئی دہلی : ایمی کاظمی

’’نریندر مودی کی حکومت واحد نہیں جو میڈیا کو خاموش کرنے کیلئےجھوٹی خبروں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کررہی ہے۔ گزشتہ سال ملائیشیا کی حکومت نے بل متعارف کروایا تھا جو جھوٹی خبر شائع کرنے والوں کو 10 سال سے زائد قید یا ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر جرمانہ کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔‘‘

صحافیوں کی جانب سے احتجاج کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت جھوٹی خبریں شائع کرنے کے الزام میں مبینہ صحافیوں کو بلیک لسٹ کرنے کی منصوبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ احتجاج کرنے والے صحافیوں کا کہنا تھا کہ یہ اقدام حساس انتخابی سال میں ملکی میڈیا کو سختی سے کچل دے گا۔

سوپ اوپرا اسٹار سے سیاستدان بن جانے والی سمرتی ایرانی جو اب وزارت اطلاعات و نشریات کی سربراہ ہیں،نے منگل کو ٹوئیٹ کیا کہ پیر کو اعلان کردہ نئے میڈیا قوانین سے بحث شروع ہوگئی تھی۔

انہوں کہا کہ حکومت اب میڈیا تنظیموں کے ساتھ بات چیت کررہی ہے، اس طرح ہم مل کر جھوٹی خبروں کے خطرے سے لڑ سکتے ہیں اور اخلاقی صحافت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

نریندر مودی کی حکومت نے پیر کو اعلان کرکے کہ یہ کسی بھی صحافی جس پر جھوٹی خبریں یا پروپیگنڈہ تخلیق کرنے کا الزام ہوا اس کی سرکاری دفاتر یا پریس کانفرنس تک رسائی کو روک دے گا، ایک طوفاں کھڑا کردیا۔ اس اقدام کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سمیت مختلف ذرائع میں جھوٹی خبروں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے جواب کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

نوٹس، جو اب واپس لے لیا گیا ہے، میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ جھوٹی خبر سے کیا مراد ہے، لیکن سینئر صحافی نے کہا کہ ایسی کوئی بھی خبر ہوسکتی ہے جو بھارت یا نریندر مودی کی حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کرے یا سرکاری بیان سے انحراف کرے۔

اخبار کے تجربہ کار ایڈیٹر جو اب ڈی پرنٹ نامی ویب سائٹ چلارہے ہیں شیکھر گپتا نے ٹوئیٹ کیا کہ یہ مرکزی دھارے کے میڈیا پر جان لیوا حملہ ہے۔ تمام میڈیا کو اپنے اختلافات ختم کرکے اس کی مزاحمت کرنی چاہئے۔

دی کوئنٹ ہندی کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر سنجے پوگالیا نے کہا کہ انتخابات کے سال کے دوران یہ قوانین مرکزی دھارے کے میڈیا کیلئے براہ راست خطرہ تھے۔ حکمراں جماعت دباؤٔ کے تحت ہے۔ یہ تنقید کو روکنے کیلئے انہیں آزادی دیتے ہیں۔

قوانین میں کہا گیا تھا کہ ملزم رپورٹر کی پریس توثیق اس وقت تک معطل رہے گی جب تک کہ اس کے خلاف شکایت کا سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج سمیت نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد ارکان کی زیر سربراہی پریس کونسل یا ٹیلی ویژن رپورٹ کی صورت میں نیوز براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے فیصلہ نہیں ہوجاتا۔

تھائی لینڈ کے غداری کے قانون کی نقل، نوٹیفیکشن کسی بھی انفرادی شخص کی جانب سے اسٹوری کو جھوٹی خبر قرار دینے کی شکایت درج کرانے پر متصور ہوسکتا ہے، جس نے صحافیوں کے خلاف پریشان کن کارروائی کے امکانات کو بڑھادیا۔

اگر جھوٹی خبر کی شکایت برقرار رہتی تو پہلی بار جرم کیلئے صحافی کی توثیق چھ ماہ کیلئے معطل رہتی، دوسری بار کیلئے دو سال تک اور تیسری بار خلاف ورزی پر تاعمر پابندی لگ جاتی۔

ٹائمز آف انڈیا کے سفارتی ایڈیٹر اندرانی باگچی نے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ حکومت کی جانب سے صحافیوں پر حملے کیلئے استعمال کیا جائے گا،جسے وہ پسند نہیں کرتے۔

پیر کی رات کو مس ایرانی نے نئے قانون کو اخلاقی صحافت کو فروغ دینے کے ایک ذریعہ کے طور پر دفاع کیا تھا اور زور دیا کہ جھوٹی خبروں کے بارے میں شکایات کا تعین سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے نہیں کیا جائے گا۔

لیکن ٹی وی چینلز سمیت احتجاج کی طاقت کا جھکاؤ نریندر مودی کی جانب ظاہر ہونا یہ انتظامیہ کیلئے حیران کن تھا، فوری جسے متعدد نے ماہرانہ انداز میں پیچھے ہٹنے کی حکمت عملی سے تعبیر کیا۔

جبکہ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کی تشہیر کرتا ہے،اس کا میڈیا بھاری رکاٹوں کے تحت کام کررہا ہے۔میڈیا کی وکالت کرنے والے گروپ سرحدوں سے ماورا رپورٹرز کے سب سے حالیہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں بھارت کا درجہ 136 ہے جو گزشتہ برس سے تین درجے نیچے آگیا ہے۔

نریندر مودی کی حکومت واحد نہیں جو میڈیا کو خاموش کرنے کیلئےجھوٹی خبروں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کررہی ہے۔ گزشتہ سال ملائیشیا کی حکومت نے بل متعارف کروایا تھا جو جھوٹی خبر شائع کرنے والوں کو 10 سال سے زائد قید یا ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر جرمانہ کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔

مرکزی دھارے کے میڈیا کیلئے نریندر مودی نے اپنی خفیہ حقارت کا اظہار کیا ہے اور اسے نظر انداز کرتے ہوئے ماہانہ قوم سے خطاب سمیت چالاکی سے متبادل ذرائع کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر فعال ہیں اور ان کی اپنی ایپلیکشن ہے،جسے 50 لاکھ سے زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کا جاچکا ہے۔

حالیہ دنوں میں ٹوئٹر پر کابینہ کے وزراء مستعدی سے ویب سائٹ ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ دی ٹرو پکچر(www.hetruepicture)کی تشہیر کررہے ہیں۔ جس کا کہنا ہے کہ اس کا مشن جھوٹی میڈیا رپورٹس کو ناکام کرنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ کا حصوں میں مرکزی حکومت کو برا دکھانے کا رجحان ہے اور راہول گاندھی کے دفاع اور مدد اور کانگریس کے امیج کی حفاظت کرنا ہے۔

تازہ ترین