وہ اپنے ظاہری حُسن سے زیادہ فنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتی ہے، اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ صلاحیتوں کا حُسن، کبھی ماند نہیں پڑتا۔ اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے۔ وہ شہرت اور دولت کے پیچھے بھاگنے والوں میں خود کو شمار کرنا نہیں چاہتی ہے۔ اس کے خواب، آرزوئیں خواہشیں، تمنائیں اور کام کرنے کا طریقہ سب سے الگ ہے۔
شوبزنس میں عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک فلم سپر ہٹ ہوئی تو فن کار دن رات شوٹنگز میں لگ جاتا ہے، دولت اور شہرت کا حصول اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے، لیکن ایک فن کارہ ایسی بھی ہے، جس نے سپرہٹ فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ میں جلوے بکھیر کر سکون کی زندگی کو ترجیح دی، کیوں کہ وہ منتخب کردار کرنا چاہتی ہے۔ وہ خوب صورت، پڑھی لکھی اور اپنے فن پر مکمل گرفت رکھنے والی اداکارہ، سوہائے علی ابڑو ہیں۔
سوہائے علی ابڑو دریائے نے سندھ کے کنارے آباد شہر حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور اسلام آباد میں تھوڑا تھوڑا وقت گزارنے کے بعد اب کراچی کا رُخ کرلیا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں آکر ایسے آباد ہوئیں کہ شوبزنس کی دنیا میں وہ فن کارانہ صلاحیتوں کے جادو سے سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ سوہائے علی ابڑو نے فنِ رقص پر عبور حاصل کرنے کے بعد فلموں میں زبردست جلوہ بکھیرے۔ ابتدا میں تھیٹر پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھرٹیلی ویژن اور فلموں کی جانب آگئیں۔
سندھی گھرانے میں جنم لینے والی سوہائے علی ابڑو کی والدہ کا تعلق پنجاب سے ہے، اسی وجہ سے وہ انگریزی اور اردو کے ساتھ سندھی اور پنجابی زبان میں بھی آسانی سے گفتگو کرلیتی ہیں۔ ان کی گفتگو سندھو دریا کی طرح میٹھی اور سماعتوں میں رس گھولنے والی ہے۔ 2012ء میں فنی سفر آغاز کیا اور دیکھتے دیکھتے ناظرین اور فلم بینوں کی اولین پسند بن کر سامنے آئیں۔سوہائے علی ابڑو کو جیو کے سپرہٹ ڈرامے ’’سات پردوں میں‘‘ سے ابتداء میں پہچان ملی، اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈراما سیریل اور فلموں میں کام کیا اور خُوب نام کمایا۔ اُن کے دیگر مقبول ٹی وی ڈراموں میں رشتے کچھ ادھورے سے، پیارے افضل، شادی کے بعد، بھابھی، ڈھول بجنے لگا، تمہاری نتاشا، کیسی یہ پہیلی، آدھی گوا، وغیرہ شامل ہیں۔
جیو نیٹ ورک نے پاکستانی سپرہٹ فلموں کا ری میک کیا تو فلم انجمن کے ری میک میں ہدایت کار یاسر نواز نے سوہائے علی ابڑو کو سیکنڈ لیڈ رول کے لیے کاسٹ کیا۔ بعدازاں یاسر نواز ہی نے انہیں سینما اسکرین پر متعارف کروایا۔ فلم ’’رانگ نمبر‘‘ کی کام یابی نے ان کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے۔ ہدایت کار ندیم جے نے انہیں ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ میں کاسٹ کیا، اس فلم نے بھی باکس آفس پر دُھوم مچا دی تھی، اس سپرہٹ فلم کے بعد درمیان میں وہ ایک دو اور فلموں کی شوٹنگز میں مصروف رہیں۔ اب 20 اپریل کو ان کی نئی فلم ’’موٹر سائیکل گرل‘‘ ریلیز ہورہی ہے، جس میں وہ لیڈنگ رول کرتی دکھائی دیں گی۔ گزشتہ دنوں ہم نے سوہائے علی ابڑو سے بات چیت کی،جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
س : آپ اتنے عرصےسے کہاں تھیں، ڈراموں اور فلموں سے روٹھ تو نہیں گئی تھیں؟
سوہائے علی ابڑو: میں کہیں نہیں گئی تھی۔ میرے بارے میں کچھ لوگ جھوٹی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں، ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ کے سپرہٹ ہونے کے بعد مجھے کئی فلموں کی پیش کش ہوئیں، تو مجھے ایک فلم کا اسکرپٹ اچھا لگا۔ میں نے وہ فلم سائن کرلی۔ اس کی شوٹنگز میں آٹھ ماہ تک مصروف رہی، اس دوران ڈراموں میں بھی کام نہیں کیا۔ وہ فلم ڈبے میں بند ہوگئی اور اس طرح میرے قیمتی 8ماہ ضائع ہوئے۔ وہ فلم میرے لیے سیلفی ثابت ہوئی۔ اس دوران مجھے شوخ و چنچل کرداروں کی پیش کش ہوتی رہیں، مجھے بھی ہنستی مسکراتی لڑکی کے کردار ادا کرنا اچھا لگتا ہے۔ میں بہت انجوائے بھی کرتی ہوں، لیکن اب میں ایسے کردار کرنا چاہوں گی، جو میرے لیے نہایت مشکل ہوں، وہ مجھے چیلنج کریں۔ میں کافی عرصے سے ایسے کرداروں کی تلاش میں بھی تھی۔ اس لیے تھوڑے عرصے اسکرین پر نظر نہیں آئی اور ویسے بھی میں ہر وقت اسکرین پر نظر آنے کی قائل نہیں ہوں۔ منتخب کام کرنا میری شروع ہی سے ترجیح رہی ہے۔ میں فارمولا آرٹسٹ نہیں بلکہ وراسٹائل فن کارہ کہلوانا چاہتی ہوں۔ ایک جیسے کردار کر کے آرٹسٹ کی موت ہوجاتی ہے۔ ہمارے یہاں بھیڑ چال ہے۔ کسی فن کار کا ایک کردار سپرہٹ ہوجائے تو اس سے وہی کردار بار بار کروائے جاتے ہیں۔ ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز فن کاروں کو لے کر نئے تجربات کرنا نہیں چاہتے۔ وہ نئے کام کا رِسک لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ ابھرتے ہوئے ہدایت کار عدنان سرور نے وہ رِسک لیا۔ اسی لیے مجھے ان کی فلم ’’موٹر سائیکل گرل‘‘ میں کام کرنا بہت اچھا لگا۔
س : کیا آپ کو موٹر سائیکل چلانی آتی ہے؟
سوہائے علی ابڑو: میں نے اس فلم میں کام کرنے کے لیے سب سے پہلے موٹر سائیکل چلانا سیکھی، کیوں کہ میں فارمولا فلموں سے بجنا چاہتی تھی۔ میں اس فلم میں 20 برس کی ایک ایسی لڑکی کا کردار نبھا رہی ہوں، جو عام خواتین کے برعکس موٹر سائیکل چلانے کا خواب دیکھتی ہے اور اپنے والد کی سرپرستی میں موٹر سائیکل پر چین کی سرحد تک سفر کرنا چاہتی ہے، لیکن زندگی اسے مہلت نہیں دیتی۔ یہ حقیقی کہانی ہے۔ پاکستانی لڑکی زینتھ عرفان کی کہانی ہے۔ ان کی ہمت و جرأت سے متاثر ہوکر فلم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
س : آپ پھر سے غائب تو نہیں ہوں گی؟
سوہائے علی ابڑو: نہیں نہیں،ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ در حقیقت مجھے ایسے اسکرپٹ اچھے لگتے ہیں، جس میں عورتوں کے لیے بات کی گئی ہو اور ایسے ہی کردار کر کے میں خود کو چیک کرنا چاہتی ہوں کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔ میرے مداح مجھے مختلف ڈراموں اور فلموں میں دیکھیں گے۔
س : آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ بہت چڑچڑی ہیں، سیدھے منہ بات نہیں کرتیں؟
سوہائے علی ابڑو: میرے خلاف سازشیں کرنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اگر میں ایسی ہوتی تو شوبزنس کی دنیا میں اتنے آگے کیسے آتی۔ چند برسوں میں اتنے سارے ڈرامے، ٹیلی فلمز، کمرشلز اور فیچر فلمیں کیسے کرتی۔ یہ حقیقت ہے کہ میں ڈائریکٹرز کے لیے مشکل ضرور ہوں۔ اپنے کردار کے بارے میں سوالات کرتی ہوں۔ اندھا دھند اداکاری کرنے نہیں لگتی۔ کچھ ڈائریکٹرز اس بات کا بُرا مناتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے میرے لیے مشہور کردیا کہ اس کی شادی ہوگئی۔ وہ چڑچڑی ہے۔
س : صبا قمر، ماہرہ اور ماورا کی طرح آپ نے بالی وڈ کا رُخ نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟
سوہائے علی ابڑو: میں سچ بولتی ہوں، مجھے کسی بڑے ڈائریکٹرز کی طرف سے تو بھارت سے آفرز نہیں ہوئیں۔ ایک دو جگہ سے بات چیت شروع ہوئی تو مجھے اسکرپٹ اچھا نہیں لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کام کرنے جائوں تو میرا کردارفلم میں جاندار ہو۔ میرے کام کا طریقہ بھی شروع سے ہی ایسا ہے۔ اسکرپٹ اور کہانی دیکھ کر ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے کی ہامی بھرتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے، جب بھارتی فلموں کے سپر اسٹارز ہماری فلموں میں کام کرنے پاکستان آئیں اور وہ وقت دور نہیں۔ نصیر الدین شاہ، اوم پوری اور ننددیتا داس پاکستانی فلموں میں کام کرچکے ہیں اب اور بھی آئیں گے۔
س : کیا آپ نے رقص کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے؟
سوہائے علی ابڑو: جی ہاں! دو برس تک رقص سیکھا ہے، مجھے گانوں پر پرفارم کرنا اچھا لگتا ہے۔ میں آئٹم سونگ کی بھی مخالف نہیں ہوں۔
س : ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے کے بعد کیا نمایاں فرق محسوس کیا؟
سوہائے علی ابڑو: ڈراموں کی شوٹنگ اور فلموں کی عکس بندی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں الگ الگ میڈیم ہیں۔ فلم میں کام کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے، کیوں کہ فلم طاقت ور میڈیم ہے، لوگ پیسے خرچ کر کے فلم دیکھنے سینما آتے ہیں۔