• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالے دھن کو سفید کرنے کی ’’ایمنسٹی اسکیم‘‘

ایمنسٹی اسکیم کے خدوخال کے بارے میں حکومت بہت سے مثبت پہلو پر صفائی پیش کرتی رہے گی لیکن سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اچھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے نام کی کوئی اصطلاح یا مالیاتی حکمت عملی نہیں ہے۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ یہ گزشتہ تمام اسکیموں سے مختلف ہے کیوں کہ اس میں سزا اور جزا کا عنصر بھی رکھا گیا ہےاور اس اسکیم سے ملک کا معاشی منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا اگر ایساہی ہے تو اسے 2013ء ہی میں کیوں نہیں لاگو کرلیا گیا تھا۔ ملک معاشی طور پر تباہ حال ہوگیا ہے۔ 

90ارب ڈالر کے بیرونی قرضے، چین کے 60ارب ڈالر کے قرضے، سود کی ادائیگی ہر سال 14؍ارب ڈالر جو بڑھتی جارہی ہے، گردشی قرضے 974 ارب روپے بجٹ کا خسارہ ٹیکسوں کی وصولی نہ ہونے کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار، کرنٹ اکائونٹ قابو سے باہر ہوگیا ہے۔ برآمدات 21.4 ارب ڈالر بنگلہ دیش کی 38ارب ڈالر، پاکستان کی کرنسی گرتے گرتے 117روپے فی ڈالر بنگلہ دیش کی 86 روپے فی ڈالر جنہیں ہم بھوکے بنگالی کہتے رہے ۔ 

یہ نہایت شرم ناک اور غفلت کی حالت ہے۔ لگتا ہے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو دانستہ برباد کیا جارہا ہے، جن کے پاس لوٹی ہوئی دولت ہے ان کا سب کچھ باہر ہے۔ فوج اور پاکستان کے عوام ملک میں رہ جائیں گے اب ان کو سوچنا ہے کہ کس طرح لوٹنے والے سیکڑوں اشرفیہ سے کیسے جان چھڑانی ہے ، لوٹی دولت ان سے کیسے وصول کرنی ہے۔ یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کالا دھن، جوکہ غیرقانونی ہے، یہ باہر کیسے گیا؟ اور یہ کہ کیا غیرقانونی دولت کو سفید کرنا غیر آئینی اقدام نہیں ہے، مزید براں ان دیانت دار ٹیکس دہندگان ، خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کی حوصلہ شکنی اور توہین کے مترادف ہے۔ کیا اس اسکیم کو پارلیمان سے منظور کروایا جاسکتا ہے ، اس کا ہی جواب دیا جائے تو قارئین کو کچھ تو تشفی ہوگی۔ کیسے کوئی حکمران غیرقانونی اثاثے رکھنے والوں کو یہ اجازت دے سکتا ہے کہ جس کسی نے بے ایمانی سے مال کمایا ہے، اسے تین ماہ میں حلال کرائے۔ 

دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کون اپنے کالے دھن کو سفید کرائے گا، اس سے کوئی ادارہ ، کوئی ملک پوچھ سکتا ہے کہ اس دولت کو پوشیدہ کیوں رکھا گیا تھااور کتنا مال چھپا کر رکھا گیا ہے۔ اب بھی کالے کو سفید کرنے کے کئی نعم البدل راستے ہیں تو کالے کرتوتوں والے سامنے کیوں آئیں گے؟ عالمی بینک کہتا ہے کہ پاکستان سے ہر سال 10 ارب ڈالر غیرقانونی طور پر باہر چلے جاتے ہیں اور چار ارب ڈالر کی پراپرٹی پاکستان کے مالداروں نےدبئی میں خرید رکھی ہے۔ 

پاکستان اب اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ 100سے زائد مذکورہ مذموم کالے دھندے والوں کی فہرست بنائی جائے اور ان سے اربوں ڈالر وصول کئے جائیں، بعدازاں انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت نہ دی جائے، اگر ایسا ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی حالت بھی شاہ ایران جیسی ہوگی، جس معاشرے میں ایک ہزار روپے کا پان فروخت ہوتا ہو اور خریدار بھی قطار اندر قطار خرید رہے ہوں تو اس جرائم پیشہ معاشرے میں بے راہ روی ، گٹکا اور ہیروئین کی فروخت ، سیلولر فونز پر جنسی ہیجان ، راہ زنی اور عصمت فروشی تو فروغ پائے گی۔ 80فیصد لوگوں کی چھت نہیں ایک وقت کی روٹی مشکل ہو اور حکمران کروڑوں روپے کی صرف گھڑیاں پہننے میں فخر محسوس کریں تو پھر جرائم تو بڑھیں گے۔ 

بے روزگاری اور بیماری کا کوئی حل سامنے نہ آئےتو بے چینی بڑھے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ٹیکسوں پر چلتا ہے۔ پاکستان ہندوستان جیسا ٹیکس سسٹم بھی تشکیل نہیں دے سکتا، کیونکہ یہاں ٹیکس چوروں کا ٹولہ ہی زیادہ تر حکمران رہا ہے اور بیورو کریسی ہر حکومت کے ساتھ نئے نئے غلط راستے دکھاتی رہتی ہے۔ اب ذرا ملاحظہ کریں، گلوبلائزیشن کے جدید عمل میں جہاں مالیاتی اور مشینی سرمایہ گلوبلائز ہوا ہو وہاں کرنسی کا وحدانی سسٹم گلوبلائز نہیں ہوا اس لیے عالمی سرمائے کی ڈالرائز یشن نے مقامی کرنسیوں کو شدید الجھن میں ڈال دیا، سب روپے کے عوض سونا پراپرٹی یا ڈالر خریدتے ہیں تو روپیہ بے یارو مددگار تو ہوگا۔ اسے کون روکے گا جو خود یہ کام کرتے ہیں ،وہ کیسے روکیں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’روک سکو تو روکو‘‘ نتیجتاً ملٹی نیشنلز اور جوائنٹ وینچرز سرمایہ کاری سے پیداوار برآمدات اور قومی وسائل تو سرمایہ کاروں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔ مقامی کرنسی کی پیداوار اور برآمدی بنیادیں ختم ہونے سے وہ اپنی قدر کھونا شروع کردیتی ہے۔ 

ریاست کا سارا نظام اقتصادی کرنسی سے بندھا ہوا ہے تو ساتھ ہی ریاست کی قدر بھی کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے، جب کہ بے روزگاری ، مہنگائی کرپشن، لا اینڈ آرڈر مالیاتی طور پر کرپٹ حکومت بے بس ہوجاتی ہے اور وہ سہارے ڈھونڈتی ہے، ٹیکس نافذ کرتی ہے، بجلی گیس پٹرول کے نرخ بڑھاتی ہے، قرض لیتی ہے اور آخر میں ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کرتی ہے، تاکہ کچھ نہ کچھ مال مل جائے۔

پاکستان کی حکومتوں (پی پی پی اور ن لیگ) نے چھ سات مرتبہ چوروں کو مالیاتی کھلی چھٹی دی، لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ غالباً یہ انڈونیشیا کی نقل میں توقع کرتے ہیں، جہاں 2016 سے2017تک ایسی ہی اسکیم کا اجرا ہو،ا جس کے نتیجے میں 330ارب ڈالر حکومت کے خزانے میں آئے، شاید وہاں کے چوروں کو اپنے عوام کا خیال تھا، یہ بات پاکستان کے حکمرانوں کے لیے سہانی محسوس ہو رہی ہے، لیکن یہاں لفاظی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ انڈونیشیا بھی70برس ہوئے آزاد ہوا، اس نے بھی چار ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا کیا اور پاکستان کی گزشتہ ایک عشرے میں یہ چھٹی بار ہے۔ 

پاکستان کی حکومتیں سوچتی ہیں کہ اتنی بار ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا ہے، کبھی تو دولت آئے گی اور بجٹ کا خسارہ کم ہو گا یا ختم ہو جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا، اب اس اسکیم کا اجرا عادت سی بن گئی ہے، حکومتیں عادتوں کی ورزش کر رہی ہیں۔اب حکومت کا وقت دو ماہ رہ گیا ہے۔ اس دو ماہ میں کون دھنی دھن کو تھوڑا سا بھی صاف کرنے کا شوق رکھتا ہو گا، جبکہ عدالتوں کی عقابی نظریں بھی کالے دھن کا تعاقب کر رہی ہیں، اس لیے بھی ریاست کے قوانین کو توڑ کر جن لوگوں نے مالِ دولت باہر رکھی ہے، ان ہی کے سامنے ریاست دو فیصد ادا کرنے پر ہتھیار ڈال دے تو کیسے دو نمبری ختم ہو گی یا ’پھر یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کا ٹیکس اور جی ڈی پی تناسب اس خطے میں سب سے کم ہے اور ٹیکس کا دارو مدار بالواسطہ ٹیکسوں اور قرضوں پر ہے۔ 

مالیاتی سال کے پہلے نصف میں ملکی بینکوں کے قرضے، ٹیکسوں اور قرضوں پر ہیں۔ مالیاتی سال کے پہلے نصف میں ملکی بینکوں کے قرضے 588ارب روپے بڑھ گئے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہزار روپے کا پان کھانے والے، ملک میں12لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس میں تنخواہ دار زیادہ ہیں، مالدار انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور سیلز ٹیکس، جو عوام سے لیا جاتا ہے، وہ بھی50فیصدہضم کر لیا جاتا ہے تو پھر ملک کے غریبوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کہاں کی تعلیم اور کہاں کی صحت۔ سب ایک خواب ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک چالاکی یہ بھی کی جاتی ہے کہ ٹیکس حکام باور کراتے ہیں کہ ودہولڈنگ ٹیکس انکم ٹیکس کا نعم البدل ہے، جس کے نرخ مختلف لین دین پر مختلف اور نہایت پیچیدہ ہیں اور سیلز پرائس میں اسے شامل کر کے عوام پرڈال دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دستاویزی معیشت نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ نظام اس قدر بگڑ گیا ہے کہ اب بے ایمانی بھی ایمانداری سے ہونا مشکل کام ہے۔ 

انفرادی طور پر ٹیکس نرخوں میں کمی کی گئی ہے اور سوچا گیا ہےکہ جو ایمنسٹی اسکیم میں آئیں گے، انہیں بھی ٹیکس سسٹم میں داخل کر لیا جائے گا، اس طرح ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا، ایسا کیوں کوئی کرے گا، جب ہر پانچ سال بعد ایمنسٹی اسکیم کا اجرا ہوتا اور ناکام بھی ہو جاتا ہے، کیونکہ نعم البدل راستے بہت ہیں۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ رئیل اسٹیٹ میں غیر قانونی پیسہ پارک کر لیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا یہ کہنا بھی ہے کہ جب سے پاناما اور پیراڈائز پیپرز سامنے آئے ہیں، یہ انکشاف ہوا ہے کہ مالدار پاکستانیوں کے باہر 150سے 200ارب ڈالر ہیں، ایسا کرنے کی سہولت نواز شریف اور شوکت عزیز نے اپنے اپنے ادوار میں قانون بنا کر دولت مندوں کو باہر پیسہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔ 

مثلاً فارن ایکسچینج بیریئر سرٹیفکیٹ کا تعارف 1985میں ڈاکٹر محبوب الحق نے کیا، جو اُس وقت وزیر خزانہ تھے، جنہوں نے جنوبی کوریا میں تو اچھا بلو پرنٹ دیا اور پاکستان میں چوری کے راستے دکھائے۔ اس کے بعد1992اکنامک ریفام ایکٹ تو وزیر اعظم نواز شریف لائے، پھر فارن کرنسی اکائونٹس آرڈی نینس 2000شوکت عزیز لائے۔ ان سب کے اقدامات سے بیرونی ملکوں میں فنڈ منتقل کرنا بہت آسانی ہو گیاہے۔ان تمام امور پر سپریم کورٹ نے Suomotuایکشن لیا ہےاور گورنر اسٹیٹ بینک کو کہا ہے کہ وہ ’’ٹرم آف ریفرنس تجویز کرے اور پیسہ باہر سے ملک میں لائے۔ ‘‘ابھی کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ 

اس رپورٹ کے آنے سے پہلے ہی حکومت نے ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کر دیا ہے، تاکہ سزا سے بچنے کے بہانے، لوگ دولت باہر سے لے آئیں۔ اگر انڈونیشیا کی طرح لے آئیں تو ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نرم ہاتھ رکھے۔ ملائیشیا اور ہندوستان میں بھی ایسا کیا گیا ہے، ان ملکوں میں کسی حد تک کامیابی ہوئی، لیکن پاکستان کی حکومت نے نازک وقت میں یہ کام کیا ہے، اس لیے چوروں کو خوف ہے کہ کچھ اور نہ ہو جائے۔ OECDکا پاکستان بھی رکن ہے اور 100سے زائد دیگر ممالک بھی ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ اس کے ممبر ممالک کے عوام آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھنا اچھا نہیں سمجھتے۔ سّیال اثاثے بینکوں میں رکھے جا سکتے ہیں؎، لیکن فکسڈ اثاثے نہیں رکھے جا سکتے، اس لیے OECDبھی پیسے یا اثاثے واپسی میں کچھ نہیں کر سکتی۔

اس سارے سرمایہ دارانہ نظام میں پاکستان کے عوام بھی مجبوراً غلط رویوں کے اسیر ہو گئے ہیں۔ فرد اور قوم کے اخلاقی، سیاسی اور معاشی رویے سرمائے کے نظام کار کے قیدی ہوچکے ہیں۔ سرمائے کی روشوں نے ان رویوں کواس طرح پابند سلال کر لیا ہے کہ انسانی خواہشات اپنے عمل سے کٹ چکی ہے۔ مثال کے طور پر اخلاقی بے راہ روی، رشوت، بددیانتی ابن الوقت اور بے ضمیری کے خلاف ہر آدمی خدمت کرتے نہیں تھکتا۔ 

لیکن مزاحمت نہیں کرتا، کسی کا ہاتھ نہیں روکتا، جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ رویوں کے خلاف ہر آدمی سراپا شکایت ہے، لیکن اس سے نجات کی راہ نہیں سوجھتی دیکھئے کہ سرمائے کی فن کاریوں نے ان کو کتنا بے بس بنا رکھا ہے۔

تازہ ترین