• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تخلیقیت اور اختراع کے عالمی یوم پر اپنی اور بیرونی دنیا پر نظر ڈالنے کی کوشش

تخلیقیت اور اختراع کے عالمی یوم پر اپنی اور بیرونی دنیا پر نظر ڈالنے کی کوشش

یہ 1890کی بات ہے۔ڈائلمرنامی شخص نےایک روز اپنے اہلِ خانہ کو پوسٹ کارڈ بھیجاجس پر اس نے اپنے ہاتھ سے تین کونوں والا ستارہ بنایاتھا۔ اس نے انہیں لکھا کہ وہ ایک روز بڑا کام کرے گااور یہ ستارہ اس کی پہچا ن بنے گا۔آگے چل کر اس نے اپنی بات سچ کر دکھائی۔ اس نے دوست کے ساتھ مل کر موٹر گاڑیاں بنانے والی دنیا کی ایک بڑی کمپنی کی بنیاد رکھی اور وہ ستارہ اس کی پہچا ن بنا۔

یہ 1957 کی بات ہے ۔دس برس کے ایک بچّے نے فٹ بال کا عظیم کھلاڑی بننے کا خواب دیکھا۔وہ غر یب والدین کا بیٹا تھا اور فاقوںکے باعث ہڈیوں کی بیما ر ی کا شکار بھی ہوا۔ یہ لڑکا اُس وقت کے بڑے کھلاڑی جم برائون سے ملاقات کرنے کے لیے گھرسے نکلا۔ اس کے پاس میچ کا ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح اس بڑے کھلاڑی کا آٹو گراف لینے میں کام یاب ہوگیا۔ اس نے جم برائون سے کہا کہ میں ایک ر وزتمہارے تمام ریکارڈ توڑدوں گا۔اس لڑکے کانام او جے سمپسن تھاجس نے آگے چل کر اپنی بات بہت حد تک سچ کر د کھا ئی اور جم بر ا ئو ن کے بیش تر ریکارڈ توڑ دیے۔

کمپیوٹر آج ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اس کی ایجاد کے ابتدائی دنوں میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا کہ اسے عام لوگ استعمال کریں گے۔لیکن ایک نوجوان نے ایسا ممکن کردکھایا۔ جب وہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو ذہن میں ایسے سافٹ ویئر کی تصویر بنایا کرتا تھا جس کی مدد سے عام لوگ بھی کمپیوٹر استعمال کرسکیں۔ اس نے اس خیال کو کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا اور ایک روز اس مقصد میں کام یاب ہوگیا۔ وہ نوجوان بل گیٹس تھا جس نے کمپیوٹر کی معروف کمپنی مائیکروسافٹ کی بنیاد رکھی۔آج اس کا شما ر دنیا کے بہت موثر اور امیر افراد میںہوتا ہے۔

اب آج کے ایک بہت بڑے آن لائن اسٹو ر ا میز و ن کے مالک جیف بیزوز کی کہانی سنیےجو 82 ارب ڈالرز سے زایدکےذاتی اثاثوںکے ساتھ دنیاکے امیر ترین ا فر ا د میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی کمپنی یا آن لائن اسٹور ہر سال تقریبا 136 ارب ڈالرز مالیت کی اشیافروخت کرتا ہے۔

جیف کا تعلق متوسط طبقےکے خاندان سے تھا،لیکن انہوںنےاپنی تخلیقی اوراختراعی صلاحیتوں کی مددسے بہت تیزی سے ترقی کی۔وہ بچپن ہی سے بہت زیادہ تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔دو برس ہی کی عمر میں انہوں نے ا پنے پنگھوڑے کا سرہانہ اسکریو ڈرائیور کی مدد سے کھول دیا تھاتاکہ اسے مسہری کی شکل دے سکیں۔چارتاسولہ برس کی عمرمیں وہ گرمیاں ٹیکساس میں واقع اپنے داداکے فا ر م میں گزارتے جہاں وہ ونڈ ملز وغیرہ کی مرمت کرتے۔ 

کمپیوٹرسائنس کے مضمون میں گریجویشن کرنےکےبعد کمپیوٹر سے متعلق ایک بڑی کمپنی کی جانب سے کی جانے والی ملازمت کی پیشکش کو ٹھکرا کر انہوں دوسری کمپنی میں شمولیت اختیار کی۔اس کے بعد وہ دوسری کمپنی میں چلے گئےجہاں چار سال ہی میں سنیئر نائب صدرکے عہدے پر پہنچ گئے۔1994 میں انہیں ایک مضمون کے ذریعے علم ہوا کہ محض ایک برس میں انٹرنیٹ کے جال اور استعمال میں 2300 فی صد تک توسیع ہوئی ہے۔ان اعدادوشمار نے انہیں دنگ کردیا جس کے بعد انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نےاگلے مرحلے میں بیس ممکنہ ایسی مصنوعات کی فہرست بنائی جنہیں آن لائن فروخت کیاجاسکے۔ان مصنوعات میں انہوں نے کتابوں کو بہترین آپشن پایا۔ اس بالکل اچھوتے خیال کو (یادرہےکہ اس وقت ایسی کوئی آن لائن کمپنی نہیں تھی)عملی جامہ پہنانے کے لیے ا نہوں نےبہترین ملازمت چھوڑ دی اورٹیکساس جاکر وا لد سے ایک گاڑی مستعارلی اور سیٹل جاکرآن لائن اسٹور کی کی بنیاد ایک گیراج میں رکھی۔

پہلے ہی مہینے میں ان کے ادارے نے امریکا کی تمام پچاس ریاستوں اور 45 مما لک میں لوگوں کو کتابیں فروخت کیں۔پھر ان کا کاروبار اتنا پھیلا کہ مئی 1997 میں انہوں نے اپنے ادارے کے شیئرز عوام کو فروخت کے لیے پیش کیے۔آغاز میں تجزیہ کاروں نے ان کا کاروبارجلد ناکام ہوجانے کی پیش گوئی کی تھی،مگر ایسا نہ ہوسکا۔

آج ان کا اسٹور دنیا بھرمیں کتا بوں سے لے کرتقریبا ہرشئے آن لائن فروخت کررہا ہے ۔ اپنے قیام کے بیس سال بعد اس ادارےکے اثاثوں کی مالیت 457 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی تھی۔پھر وہ دن بھی آیا جب جیف بیزوز دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص قرار پائے۔لیکن آج بھی ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نت نئے تجربات کرنےسے گھبراتے نہیں۔

اسی طرح مشہور امریکی تاجر مارک کیوبن جب بارہ برس کے تھے تو کوڑا ڈالنے والا لفافہ فروخت کیاکرتے تھےجس سے وہ چند سکے کمالیا کرتے تھے، مگر آج وہ ارب پتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ دولت کمانے کے لیے آپ کو کسی امیر خاندان کا چشم و چراغ ہونے یا ضمیربیچنے کی نہیں بلکہ تخلیقی ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔مارک کاپیغام یہ ہے کہ آپ کچھ منفرد سوچیں اور اس پر محنت کریں تو دولت کمانا قطعاً ناممکن کام نہیں ہے۔

عملی مثالوں کا سبق

درجِ بالا مثالیںاسی دنیا کے باسیوں کی ہیں۔ان کا سبق صرف اتنا ہے کہ تخلیقی اور اختراعی ذہن کے مالک ا فر اد اگر اپنی ان دونوں صلاحیتوں پر یقین کرکے جدوجہد کر یں تو وہ مشکل سے مشکل ہدف بھی پاسکتے ہیں۔لیکن کیا یہ صلاحیتیں اور کام یابیاں صرف چند افراد میں ہوتی ہیں ؟ ا س سوال کا جواب نفی میںہے۔دماغی اور نفسیاتی امور کے ماہرین کے مطابق یہ صلاحیتیں کم و بیش ہر فرد میں ہوتی ہیں،بس انہیں پہچاننا اور نکھارنا ہوتا ہے۔

انہیں پہچاننے کے لیے سب سے پہلےیقین کی قوت درکار ہوتی ہے ۔ یعنی یہ یقین کرنا ہوتا ہے کہ مجھ میں یہ صلاحیتیں ہیں اورمیں ا نہیں استعمال کرکے حالات کا دھارا اپنے حق میں موڑ سکتا ہوں۔یقین کی یہ قوت ہی وہ انجن ہوتا ہے جو آپ کے خیا ل اور عمل کی گاڑی کو کھینچ کر منزل کی جانب لے جاتا ہے۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ قوت کس طرح فعا لیت کے ساتھ کام کرتی ہے۔دماغی سائنس کے ماہرین کے بہ قول دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب کوئی شخص اس قوت پر یقین کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کے لیے مطلوب مراحل کا طے ہونا کسی نہ کسی طرح ، کسی نہ کسی جگہ، کسی نہ کسی دن ضرور ممکن ہو جاتاہے۔خیال کو ممکن کردکھانے کی یہ سوچ جادوئی اثر کے ساتھ تین طرح کے کرشمے دکھاتی ہے:

1۔ موقع شناس دماغی خلیے متحرک ہو جاتے ہیں۔

2۔ مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھنے والے دماغی خلیے معرض وجود میں آ جاتے ہیں۔

3۔ قوتِ فیصلہ پر مبنی توانائی اپنے پورے کیمیائی عمل کے ساتھ ہمارے خون میں زبردست تحریک پیدا کر دیتی ہے۔

دماغی سائنس کے ماہرین کے مطابق میں یقین کی ا س قوت میں واقعی یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر آپ پو ر ے خلوص، یقین اور مستعدی کے ساتھ اسے بہ روئے کار لائیں تو یہ حیرت انگیز نتائج اور اثرات پیدا کرسکتی ہے۔اگر آپ نے اس قوت پریقین کرکے عمل کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ دیا تو اس آغاز کا یہ مطلب لیں کہ اب آ پ یقینی طور پر وہ شخص بن جائیں گے جو بننا چاہتے ہیں۔ 

پھر آپ جس قدر اوپر چڑھتے جائیں گے، اسی قدر بلند آپ کی نگاہ اورارادے ہوںگےاور آپ میں خود اعتمادی پیدا ہونے لگے گی۔پھر ایک روز آپ اس سیڑھی کے آخری ز ینے پر قدم رکھیں گے تو خود کو کامران اور حیران پائیں گے ۔لیکن اس وقت تک آپ میں اتنا یقین پیدا ہوچکا ہوگاکہ آپ وہاں زیادہ تک رکنا پسند نہیں کریں گے بلکہ کسی اور بلندی پر چڑھنے کی خواہش آپ کو ہر پل بے چین رکھے گی ۔

ماہرین کے مطابق ہر انسان میں کچھ نیا کرنے کی جبلّی خواہش ہوتی ہے۔بہت سے افراد اپنے اپنے طریقوں سے یہ خواہش پوری کرتے ہیں۔لیکن دنیا میں ممتاز وہ ہی ہوتے ہیں جو اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تخلیقی اور اختراعی فکر کا سہارا لیتے ہیں۔اسی فکر کو عام کرنے کے لیے ہر برس دنیا بھر میں21 اپریل کو تخلیقیت اور ا ختر ا ع کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔آپ بھی آج ہی سے اس حیرت انگیز تبدیلی کا آغازکرسکتے او ر ا پنےخوابوں، توقعات اور امیدوں کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔

مائنڈ سائنسز کے ماہرین کے بہ قول ابتدا میں ہمارا شعوری ذہن اس مثبت، تعمیری اور انقلابی سوچ کے سامنے بندکی صورت میں کھڑاہوتاہے جہاں ناقابل تصو ر کام یابیوں، کامرانیوں، فتوحات، ترقی کے مراحل اور ممکنات سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتاہے۔ایسے میں ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اس بند میںچھوٹا سا سوراخ کر دیا جائےتاکہ تخلیقی اور اختراعی خیالات کی لہروں کو آمد کے لیے راستہ مل جائے ۔اگر آپ ایسا کرنے میں کام یاب ہوگئے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ ممکنات کی فکر کو آزماتے ہی کس طرح نہ رکنے والی ترقی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

تخلیقی اور اختراعی صلاحیتیں اور ہمارا طرزِ عمل

تخلیقی اور اختراعی صلاحیتوں سے مراد کسی انسان کی وہ صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہ ہ نئے نئے خیا لا ت ،اشیا،وغیرہ تخلیق کر تا ہے اور ان کی بنیاد پر عملی زندگی میں نئی نئی اختراعات کرتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا معا شرہ تخلیقی سوچ کی بالعموم حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ہم سوال کرنے یا سوال کرنےپر اکسانے والوں کو بُرا شخص تصوّر کرتے ہیں۔ 

ایک ماہرِ نفسیات کے بہ قول ہمارے ہاں اس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرماں بردارہو، دو سروں کا ادب کرتا ہو، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہو، اس کے ہم عصر اسے پسند کرتے ہوں، اورجو دوسروں میں مقبول ہو۔ اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کو پسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں، سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتےہیں،اپنے خیالات پر ڈٹے رہتے ہیں، کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔ہم پہلی قسم کے بچے کو ’’اچھا بچہ ‘‘ کہتے ہیں اور دوسری قسم کے بچے کو’’ بدتمیز یا نافرمان بچہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ماحول میں بھی تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ 

اگرکوئی طالب علم امتحان میں کسی سوال کے جواب میں اپنے خیالات کا ا ظہا ر کرتا ہے تو اسے کم نمبر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ذرایع ابلاغ پر ذہنی آزمائش کے پروگرام سوچنے کی صلاحیت کے بجائے یادداشت کی آزمائش کرتے ہیں۔ مذہبی تعلیم میں بھی قرآن کو حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن اسے سمجھ کر روزمرہ زندگی پر اطلاق کرنے کی تربیت عموما نہیں دی جاتی۔ بچوں کو کام یابی حاصل کرنے اور اول آنے کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن علم حاصل کرنے یا نئی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ 

ہم غلطیاں کرنے اور ان کا اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں اور اس حقیقت سے اغماص برتتے ہیں کہ غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ کا پروان چڑھنا تقریبا ناممکن ہے۔ہمارے یہاں اگربعض فن کاروں یا ہنر مندوں اور ان کی تخلیق کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس عمل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی تصویر، دُھن وغیرہ کی تخلیق ہوتی ہے۔یعنی تخلیق کے نتائج کو تو سراہا جاتا ہے لیکن اس محنت اور جدوجہد کو نظر اندازکردیا جاتا ہے جسے تخلیقی عمل کہتے ہیں۔

عناصر

ماہرین کے مطابق تخلیقی سوچ کے تین اہم عناصر ہوتے ہیں۔یعنی جِدّت،کوئی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت اورکوئی قابلِ قدر مقصد حاصل کرنے کی صلا حیت ۔ جِد ّت سے مراد موجودہ یا روایتی انداز میں پائی جانے والی اشیا، تصورات وغیرہ کو انفرادی انداز میں آپس میں ملانا یا نئے سرے سے ترتیب دینا ہے۔

لاطینی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ عقل مند انسان دو سروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے اور بے وقوف اپنی غلطیوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھ پاتا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میںجتنے بھی تخلیقی کام کیے گئے ان میں پرانی اشیا یا تصورات کو نئے انداز میں دیکھاگیا ہے۔ 

مثلاً جب نیوٹن نے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو یہ عمل نیوٹن اور نہ ہی کسی اورفرد کے لیے انوکھا واقعہ تھا، لیکن نیوٹن نے اس عمل کو ایک خاص انداز سے دیکھا، اسے نئے معنی دیے ا و ر اس طرح کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔ تاہم صر ف جِدّت ہی کسی سوچ یا عمل کو تخلیقی نہیں بنا دیتی بلکہ اس میں مسائل کا حل موجود ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔

تخلیقی اور اختراعی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی خصوصیات

ماہرین کے مطابق تخلیقی اور اختراعی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی کچھ ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں دو سر و ں سےممتاز کرتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطا بق ایسے افراد انفرادیت پسند ہوتے ہیں اور روایتی سوچ اور کردار کے مقابلے میں اپنی ذات اور فکر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔وہ دوسروں پر کم انحصار کرتے ہیں اور اکثر معا ملات میں خود مختار ہوتے ہیں، حتی کہ ان کے جاننے والے انہیں ضدی اور سرکش قرار دے دیتے ہیں۔ 

ان میں عموماً لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا احساس کم ہوتا ہے۔ وہ مستقل مزاج ہوتے ہیں، جس کام میں دل چسپی لیتے ہیں اسے تن دہی سے کرتے ہیں اور ناکامیوں اور مشکلات سے نہیں گھبراتے۔ اگر ان کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ بھی جائیں تو وہ ثابت قدم رہتے ہیں۔عام افراداشیا میں سا د گی، تسلسل اور ترتیب کو پسند کرتے ہیں ، وہ ابہام اور تضاد سے دور بھاگتے ہیں اور خیالات کی توڑ پھوڑسے گھبراتے ہیں۔ان کے برعکس تخلیقی اور اختراعی فکر کے حامل افراد کی شخصیت میں بہت لچک ہوتی ہے۔ 

وہ پے چیدہ،الجھی ہو ئی،غیر متوازن اور نامکمل اشیا میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں ۔نت نئے خیالات کو ٹٹولنے، انہیں توڑنے مروڑنے اور مختلف حل تلاش کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ وہ تخلیق شدہ اشیا میں دل چسپی لینے کے بجائے تخلیقی اور اختراعی عمل میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔وہ اپنے خیا لا ت میں پائی جانے والی شورش، عدم استحکام، پے چیدگی ا و ر افراتفری سے نہیں گھبراتے۔

ایسے افراد اپنی خوبیوں اور خامیوں سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔وہ دوسروںکے علاوہ خود کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے۔ ان کا گھریلو ماحول بالعموم مثبت ہوتاہے۔گھریلو لڑائی جھگڑ ےبہت کم ہوتے ہیں۔والدین بچوں کو آزاد ماحول فر ا ہم کرتے ہیں جس میں بچہ خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔

وہ جن اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں ماحول آمرانہ نہیں ہوتابلکہ سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ استاد کا تعلق بالعموم ان سے دوستانہ ہوتا ہے اور تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھائی جاتی ہیں۔یہاں ہمیں ایک لمحے کے لیے رک کر اپنے اور بیرونی دنیا کے ماحول کا ضرور جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کیا ہمارا معاشرہ اور ہمارے ادارے بالعموم اس قسم کا ماحول فراہم کرتے ہیں؟

تخیّل کی پرواز

ماہرین کے مطابق تخیّل جب منفی انداز میں کام کرتا ہے تو ہم صرف پریشان ہوتے ہیں اور کام سے پہلے ہی نا کامی تسلیم کرلیتے ہیں۔ لیکن جب مثبت انداز میں کام کرتا ہے توہم خواب دیکھتے ہیں،بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں،خود سے بڑی توقعات وابستہ کرتے ہیںاور تخلیق کر نے لگتے ہیں۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تمام ترانسانی تر قیدراصل تخیّل ہی کی کرشمہ سازی کا نتیجہ ہے۔ بلند حوصلہ لو گ اپنے ذہن میں پہلے پہل کسی شے کا مثالی خاکہ بنا تےہیں اورپھراسے حقیقت بنادیتے ہیں۔بے شمار ا یجا د ا ت، تصانیف،سافٹ ویئرز،مصنوعات اور تخلیقات اسی طریقے سے ہمارے سامنے آتی ہیں۔کسی شے یا منصو بے کا مثالی روپ ہمارے ذہن میں جتنا زیادہ واضح ہوگا ا سے حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوجاتا ہے۔

کام یاب ا نسا ن اپنے ذہن میں خوب صورت اور حیرت انگیز تصویریں بنانے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ چشم تصور سے دیکھتا ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرچکا ہے یا اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔اس کے ذہن میں بسنے والی تصویریں اسے پیشگی مشاہدہ کرادیتی ہیں کہ اس کا خواب حقیقت بن چکا ہے، ا س کا آئیڈیا زبردست نتائج پیدا کرچکا ہے یا اس کا منصوبہ کام یابی سے مکمل ہوچکا ہے۔

جدید تحقیق بتاتی ہے کہ ہمارا تخیّل ہماری ذاتی تجربہ گاہ ہے۔ہم اس تجربہ گاہ میں کسی خیال کی ابتدائی مشق کرسکتے ہیں اور خود کو راستے میں آنے والی رکاوٹیں عبور کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ اس تجربہ گاہ میں ہم امکانات کو حقیقت کا روپ دھارتا ہوا بھی دیکھ سکتے ہیں۔

مثلا آرکی ٹیکٹ پہلے ذہن میں عمارت کا خاکہ بناتا ہے پھر اسے کاغذ پر منتقل کرتا ہے اور پھر ایک دن وہ عمارت حقیقت بن جاتی ہے۔ کئی ایسے مصنفین ہیں جواپنے کام کے آغاز میں چشم تصور سے اپنی کتاب کو مقبولیت حاصل کرتا ہوا دیکھتے ہیں ا ور ایک دن وہ اپنی تخلیق دنیا کے سامنے لے آتے ہیں۔ ایک نام ور آرٹسٹ کا کہنا تھا کہ وہ خواب دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کو حقیقی رنگوں سے پینٹ کرتا ہے۔

ابتدائی عمر اور ماحول کا اہم کردار

کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو کم عمری میںتخیّل کی قوت سے کام لینا سکھا دیا جاتا ہے ان کے لیے زندگی میں کام یابیاں حاصل کرناآسان ہو جاتا ہے۔ بچوں سے جب آئیڈیل لوگوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے یا انہیں عظیم داستانیں یا کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہنوں میں رول ماڈل کا تصور قائم کرلیں۔ اچھے خاندانوں میں وا لد ین بچوں سے اعلیٰ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ سمجھ دار ا سا تذہ بھی طلباسے اعلیٰ توقعات وابستہ کرتےہیں۔یہی تو قعا ت نوجوانوں کو یاد دلاتی ہیں کہ انہیں حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور کام یابی حاصل کرنا ہے۔

تحقیق سے یہ نکتہ سامنے آیا ہے کہ جو لوگ اپنی قوتِ تخیّلہ بڑھانے کی جستجو میں رہتے ہیں وہ ایسے مواد یا کتب کا مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں جو ان میں کام یابی حا صل کرنے کا جوش پیدا کرتی ہیں۔ وہ ایسی تصاویراور مضامین کو سنبھال کر رکھ لیتے ہیں جو ان کے تخیل کی دنیا کو روشن، واضح اور رنگین بناسکتے ہوں۔ 

وہ ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو انہیں اعلیٰ زندگی گزارنے کا حوصلہ اور امید دیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ تخیل ہمارااہم اثاثہ ہے۔ یہ ہمارےلیے حیرت انگیز کام کرسکتا ہے۔ زندگی میں کوئی بڑا مقصد طے کرلیجیے۔ اس پرپوری توجہ دیں۔ خود کو کام یابی کے روپ میں دیکھیں۔ ذہن میں موجود اس تصور سے نظریں نہ ہٹائیں۔اگر آپ ایسا کرسکیں تو آپ کو شان دار کام یابی حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

تجاویز

تخلیقی اور اختراعی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے ما ہر ین چند تجاویز دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اپنی فکر پر کبھی پہرے نہ بٹھائیے۔اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے محض شیطانی وسوسہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیجیے بلکہ اہل علم سے اس کا جواب مانگنے کی کوشش کیجیے۔ ذہن میںایسے خیالات موجود رکھنے کی مشق کیجیےجوایک دو سر ے کے متضاد ہوں۔ متضاد ،پے چیدہ،الجھی ہوئی اور نا مکمل اشیا اور خیالات سے نہ گھبرائیے۔ گھر اور اداروں میں ایسا ماحول پیداکیجیے جو تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے۔ اپنے اداروں میں نظم و ضبط کے نام پر خواہ مخواہ تخلیقی صلا حیتوں کا گلا نہ گھونٹیے،بلکہ نئے خیالات کو خوش آمدید کہیے۔

آج تخلیقی فکر کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے در یافت ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ برین اسٹا ر منگ یا دماغ لڑانے کا ہے جس میں ایک گروہ کو کسی مسئلے کے زیادہ سے زیادہ حل تجویز کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ۔پہلے مرحلے میں اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ کوئی حل اچھا اور قابل عمل ہے یا نہیں۔ اس کے نتیجے میں ہر شخص محض اس خوف سے خاموش نہیں رہتا کہ کہیں اس کا مذاق نہ اڑایا جائے یا اس کا خیال مسترد نہ کر دیا جائے۔ ا گلے مرحلے میںان تجاویز کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جا ئزہ لے کر ان میں سے اچھی تجاویز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 

اسی طرح گروپ کی صورت میں مختلف آئیڈیاز اور اشیاپر غور و فکر کرکے کسی اقدام کے فوری اور دوررس نتائج کا اندازہ لگانے، کسی معاملے کی وجوہ اور مقاصد پر غور و فکر کرنے، کسی کام کی منصوبہ بندی کرنے، کسی مسئلےکے مختلف ممکنہ پہلوؤں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے، متبا دل راستے تلاش کرنے ، فیصلے کرنے اور دوسروںکے خیا لا ت کو سمجھنے سے تخلیقی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ آپ بھی دوستوں کی مدد سے چھوٹے چھوٹے تھنک ٹینک بنا کر یہ کام کر سکتے ہیں۔

یاد رکھیے کہ ذہین اور تخلیقی فکر کے حامی افراد کی ا کثر یت ایسی نہیں ہوتی،بلکہ ان میں سے زیادہ تر جہدِ مسلسل سےکوئی مقام حاصل کرتے ۔تو پھرہم کیوں نہیں وہ مقام پانے کے لیے جدوجہد کرسکتے؟ 

تازہ ترین