• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام پر حملہ: امریکا کے کیا اہداف تھے اور وہ آئندہ کیا کرنے والاہے

شاپ پر حملہ: امریکا کے کیا اہداف تھے اور وہ آئندہ کیا کرنے والاہے

واشنگٹن : کترینہ مینسن

چھ دن کے غور و فکر اور جارحانہ بیانات کے بعد نہ صرف بشارالاسد کی کیمیائی ہتھیار کی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے مقصد کے ساتھ بلکہ اسے دوبارہ انہیں استعمال کرنے سے روکنے کیلئے بھی امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شام کے خلاف فضائی حملے علامتی عمل تھا ۔

جبکہ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ یہ ایک شدید فضائی حملہ تھا جس میں 105 طویل فاصلے کے میزائل فائر کئے گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ہی حملہ تھا جس نے کچھ ملٹری تجزیہ کاروں کے ذہن میں سوال پیدا کیا کہ بشارالاسد کی حکومت پر دیرپا اثرات مرتب کرنے کیلئے اقدام کافی محدود تھا۔

اہداف کیا تھے؟

امریکا نے کہا کہ اتحادیوں نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے بنیادی اجزاء کو نشانہ بنایا۔

پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ مقامات کی فضائی تصاویر میں پہلا ہدف دمشق میں بارزہ میں واقع ایک سائنسی مرکز تھا، امریکا نے کہا کہ اسے کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کی ترقی، تیاری اور جانچ کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔دوسرا حمس شہر کے مغرب میں ہم شنشار میں کیمیائی ہتھیار ذخیرہ کرنے کی سہولت تھی، جسے امریکا نے کہا کہ شام کے اعصابی ایجنٹ سیرن کی تیاری کیلئے بنیادی جگہ تھی۔ جبکہ دوسرے ہدف کے قریب تیسرا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کے بنکر کی سہولت تھی۔

یہ برطانیہ کی وزارت دفاع کے بیان سے موافقت رکھتا ہے جس میں کہا گیا کہ حمس سے 15 میل دور سابق میزائل اڈے پر حملے کیلئے شاہی فضائی فورس ٹورناڈو گی آر فورز کو تعینات کیا گیا تھا، جہاں اندازہ لگایا گیا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ کیا ہوا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ میزہ ملٹری ایئر بیس سمیت شام کے ہوائی اڈے ہدف تھے لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کس طرح حملہ کیا؟امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کس طرح حملہ کیا؟

امریکی جوائنٹ اسٹاف کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل کنیتھ مک کینزی نے کہا کہ سرخ سمندر، شمالی خلیج اور بحیرہ روم میں ہوائی پلیٹ فارم اور امریکا، فرانس اور برطانوی بحریہ کی جانب سے 105 میزائل داغے گئے تھے۔حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بجے کیا گیا۔

دو امریکی بحری جنگی جہازوں،آبدوز اور دو بی ون بمبار نے تمام میزائل داغے۔ بمبار، جس نے مشترکہ فضا سے زمین پر اسٹینڈ آف میزائل فائر کئے، لڑاکا جیٹس اور الیکٹرانک جیمرز کے ساتھ تھے۔امریکا نے پہلے ہدف پر 56 ٹام ہاک میزائل اور 19 مشترکہ فضا سے زمین پر میزائل فائر کئے۔ تینوں اتحادیوں نے امریکا کے ٹام ہاکس، برطانوی اسٹروم شیڈو اور فرانسیسی میزائل کے ساتھ مجموعی طور پر 22 ہتھیاروں کے ساتھ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرہ گاہ پر حملہ کیا۔ امریکا نے کیمیائی ہتھیاروں کے بینکر کے خلاف سات اسکاؤٹ میزائل استعمال کئے۔

برطانیہ نے کہا کہ اس نے اپنے چار ٹورناڈوز سے اسٹروم شیڈو میزائل فائر کئے، جنہوں نے قبرص کے اکروتری میں ٓ اے ایف کے فضائی اڈے سے پرواز کی۔ اسٹروم شیڈو کی حد تقریبا 500 کلومیٹر ہے، اس کا مطلب ہے کہ جیٹ شام اور روسو فضائی دفاع کی حد سے باہر رہے ہوں گے۔

فرانسیسی فرگیٹ اکیوٹین اور رافل جیٹس نے فرانس میں ہوائی اڈوں سے پرواز کی اور 12 کروز میزائل فائر کئے۔

حملے کتنے کامیاب تھے؟

امریکا نے حملوں کو بالکل درست، زبردست اور مؤثر بیان کیا، ابتدائی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ آپریشن نے مقاصد کو پورا کیا لیکن ابھی بھی تفصیلی نقصان کا اندازہ لگانا باقی ہے۔ جوائنٹ اسٹاف کے ڈائریکٹرلفیٹیننٹ جنرل کینتھ مک کینزی نے کہا کہ اتحادیوں نے اہداف پر اس طرح حملہ کیا کہ کیمیائی یا اعصابی ایجنٹس کے پھیلنے کے اثرات کو کم سے کم کیا جائے جس کا امریکا کا اندازہ تھا کہ ہدف ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل مک کینزی نے پہلے ہدف کے بارے میں کہا کہ ابتدائی اندازہ یہ ہے کہ یہ ہدف تباہ ہوگیا۔ یہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو کئی برس پیچھے لے جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تیسرے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا یہ تباہ ہوگیا۔کچھ بچ گیا ہے لیکن ہم نے ایک سخت دھچکا لگایا ہے۔

روسی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ 103 میزائلوں میں سے 71 فائر کئے گئے جنہیں شام کے فضائی دفاعی نظام کی جانب سے مار گرایا گیا، اس دعویٰ کی امریکا کی جانب سے تردید کی گئی ہے۔

فوجی تجزیہ کاروں نے کہا کہ اس کا امکان نہیں تھا کہ شام کے فضائی دفاعی آلات کو متروک حیثیت دے دے اور حقیقت یہ ہے کہ مزید جدید ترین روسی ایس 400 نظام لاتاکیا صوبے میں اس کے ہوائی اڈے میں تعینات نہیں کیا گیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل مک کینزی نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق ہم نے جو کچھ بھی کیا اسے شام کے کسی ہتھیار نے متاثر نہیں کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حملوں نے شام کے فضائی دفاع کو مغلوب کیا ہے،کہ کوئی جہاز یا میزائل کامیابی سے روکے گئے اور یہ کہ امریکا کو یقین ہے کہ تمام میزائل اپنے اہداف تک پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے حملوں سے قبل روس کو خبردار نہیں کیا تھا لیکن فضا میں کسی تصادم سے بچنے کیلئے اس نے فضائی تنازع کو کم کرنے کے امکان کیلئے ہتھیاروں کی پرواز کے راستے تبدیل کرنے کی لائن کے ذریعے اطلاع دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کو کوئی اشارہ نہیں ملا تھا کہ روسی فضائی دفاعی نظام ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا تھا، اگرچہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ فعال نہیں ہوئے تھے۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ڈوگ بیرری نے کہا کہ حالانکہ یہ ممکن تھا کہ ٹام ہاکس مار گرائے گئے یا ناکم ہوگئے ہوں، شام کے دفاع نے ان سب کو مار گرایا ہو اس کے امکانات کافی کم ہیں۔

امریکا نے کہا کہ اس کا اندازہ ہے کہ شام نے زمین سے فضا میں حملہ کرنے والے 40 سے زائد میزائل فائز کئے لیکن ان میں سے اکثر ہمارے حملوں کے اثرات ختم ہونے کے بعد ہوئے۔

تاہم حملوں کے اثرات محدود ہوسکتے ہیں وقت کے شمار سے ، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کارروائی شروع کرنے سے قبل غور کیا،شام کو اہم فوجی اثاثے اور آلات منتقل کرنے کا وقت دیا گیا۔

آر یو ایس آئی میں ایک تجزیہ کار جسٹن برونک نے کہا کہ جن سہولتوں کو نشانہ بنایا گیا امکانات ہیں کہ حملوں کی امکان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران اہم اسامان اور فوجی اہلکار منتقل کردئے گئے ہوں، لہٰذا مزید حملوں کو فرض نہیں کررہے، میرے خیال میں ہم اسے علامتی کے تحت بلاخوف و خطر درج کرسکتے ہیں۔

حکمت عملی کیا ہے؟

امریکا اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملوں کا مقصد بشارالاسد کی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار اور ترقی کی سہولتوں کو نقصان پہنچانا تھا۔

گذشتہ ہفتے ڈوما پر مبینہ گیس حملے کے بعد شام اور روس کو بھی جو بشارالاسد کی حکومت کی حمیات کررہا ہے، امریکا،برطانیہ اور فرانس پیغام بھیجنا چاہتے تھے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال برداشت نہیں کیا جائے گا۔

سوال آیا یہ تھا ، جیسا کہ مسٹر میٹس نے کہا، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مجوزہ ایک حملہ یا ممکنہ طور پر حملوں کا جاری رکھنے کے پروگرام کا حصہ ہے۔ انہوں نے ہفتہ کو ٹوئیٹ کیا کہ مشن مکمل ہوا،دعویٰ کیا کہ اتحادیوں نے مکمل طور پر بہترین حملے سرانجام دئیے اور فرانس اور برطانیہ کی اس حکمت اور ان کی فوجی طاقت کا شکرگذار ہوں۔

اتحادیوں کے تینوں اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئندہ اقدام کا انحصار بشارالاسد پر ہے کہ آیا کیا وہ اپنے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا دوبارہ استعمال کرنے کیا انتخاب کریں گے ایسی صورت میں مزید حملے ہوسکتے ہیں۔

شام پر اقوام متحدہ کی جانب سے جنیوا امن مذاکرات میں ایک مخالف مذاکرات کار بسمہ کودمانی نے کہا کہ اس کارروائی کے نتیجے میں تنازع کی نوعیت بدلنے یا اس کے خاتمے کیلئے بین الاقوامی کوششوں کے رکنے کا امکان نہیں۔

گزشتہ سال کے تجربہ سے پتہ چلتا ہے کہ فوجی حملوں نے امریکا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ بشارالاسد کو واپس وہ کرنے میں جو وہ چاہتے تھے سے پہلے چھ سے آٹھ ہفتے لگے، جس میں ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال رہا ہے۔

لہٰذا اس سے سبق ملتا ہے کہ امریکا کی مربوط حکمت عملی کے حصے کے طور پر فائر بندی کیلئے مسلسل دباؤ کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت واضح ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ فوجی کارروائی شام کی حکومت اور روس کو دھچکا دینے کیلئے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن امریکا شام میں اپنے مقاصد واضح کرے۔ اس وقت میرے لئے یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ اس کے کیا مقاصد ہیں۔

برطانوی وزیر دفاع گیون ولیمسن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ خانہ جنگی میں مداخلت کے متعلق نہیں ہے۔ یہ حکومت کی تبدیلی سے بھی متعلق نہیں ہے، یہ محدود اور اہداف حملوں کے بارے میں ہے جو خطہ میں تناؤ کو مزید نہیں بڑھائے۔

تازہ ترین