• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس پر نئی پابندیوں کے حوالے سے جرمنی کے کاروباری اداروں کے خدشات غیر اہم

روس پر نئی پابندیوں کے حوالے سے جرمنی کے کاروباری اداروں کے خدشات غیر اہم

برلن : ٹوبیاس بک

امریکا نے روسی کمپنیوں اور کاروباری رہنماؤں کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا تو حیرت انگیز طور پر جرمنی نے ردعمل میں خاموشی اختیار کی۔

تجارتی لابی کی جانب سے الگ الگ تنقید کی گئی اس انتباہ کے ساتھ کہ امریکی اقدامات کے نتیجے کے طور پر جرمن کمپنیاں آمدنی میں اربوں یورو سے محروم ہوسکتی ہیں۔ لیکن برلن میں سیاسی رہنماؤں کے درمیان شکایت کی گونج زیادہ نہیں سنی گئی، جہاں ماسکو کیلئے ہمدردی شاذ ہی پائی جاتی ہے اور جہاں جرمن روسی کاروباری مفادات نمایاں طور پر زوال پذیر ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں روسی رہنماؤں خاص طور پر وزیر خارجہ ہیکو ماس روس کے شدید ناقد رہے ہیں۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے گزشتہ ہفتے حیرت کا اظہار کیا جب روس اور جرمنی سے منسلک نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا، ایسا منصوبہ جسے اب تک برلن کی جانب سے بھرپور سیاسی حمایت حاصل تھی۔

برلن میں غیرملکی تعلقات پر جرمن کونسل میں روس کے تجزیہ کار اسٹیفن میسٹر نے کہا کہ سرد جنگ کے اختتام سے جرمنی اور روس کے درمیان تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں۔ روس کا مسئلہ سیاسی اور سیکیورٹی نکتہ نظر سے زیادہ سے زیادہ ہے۔ کاروبار پر غلبہ جس کی روسی پالیسی عادی تھی، زوال پذیر ہے۔

جرمن کمپنیوں کیلئے روس اب بھی ایک اہم مارکیٹ اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت کیلئے قدرتی گیس کا ایک اہم فراہم کنندہ ہے۔تاہم روسی معیشت کی حالیہ کمزوری اور ماسکو کے خلاف پابندیوں کے حالیہ دور نے روس کے کاروباری شراکت دار کے طور پر اہمیت کے خاتمے کیلئے راستہ بنایا ہے۔

گزشتہ سال جرمن کمپنیوں نے روس کو 25.8 بلین یورو مالیت کا سامان برآمد کیا، جو 2016 کے مقابلے میں زیادہ لیکن اب بھی پابندیوں سے پہلے کی انتہا سے کافی دور ہے۔ مثال کے طور پر 2012 میں روس کو جرمن سامان کی ترسیل 38 بلین یورو سے زیادہ مالیت کی تھی۔

روس اب جرمنی کا 14 واں بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ 2012 میں یہ 11 واں تھا۔مثال کے طور پر پولینڈ نے زیادہ سے زیادہ د گنا جرمن سامان خریدا جیسا کہ روس نے گزشتہ سال کیا تھا۔ یہاں تک کہ چیک جمہوریہ روس کے مقابلے میں جرمن کی بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔

عالمی معیشت کیلئے کیل انسٹیٹیوٹ میں ماہر معیشت جیولین ہنز نے کہا کہ روس اور جرمن کے مابین تجارت پر گزشتہ پابندیوں کے اثرات پہلے سے ہی کافی قابل ذکر ہیں، جرمن برآمدات میں حالیہ کمی کا تہائی ہے۔انہوں نے کہا کہ اہم نقصان پابندیوں کے براہ راست اثرات سے سامنے نہیں آتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمپنیاں ابھی روس کے ساتھ ان کی تجارت کو سرمایہ فراہم کرنے کو زیادہ مشکل دیکھ رہی ہیں۔جرمن بینک پہلے ہی روس سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

نئی امریکی پابندیوں سے جرمن کمپنیوں کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا جائزہ لینا مشکل ہے۔ روسی اور رجمن چیمبر آف کامرس نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا کہ حالیہ اقدامات مختصر مدت میں لاکھوں یورو جبکہ طویل المدت میں اربوں یورو کی وجہ بن سکتے ہیں۔

اس نے نشاندہی کی کہ روسی کمپنیوں اور کاروباری رہنماؤں میں سے کچھ امریکا کی پابندیوں کی فہرست پر جن کی نشاندہی کی گئی ہے،جیسے کارساز جی اے زیڈ اور ایلومینیم گروپ رسل کے جرمن گروپس کے ساتھ قریبی روابط تھے۔مثال کے طور پر واکس ویگن روس میں جی اے زیڈ کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔

چیمبر آف کامرس کے سربراہ میتھائس شیپ نے خبردار کیا کہ نئی پابندیوں سے واحد فائدہ اٹھانے والا ایشیائی کاروبار ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگر جرمن اور امریکی کمپنیوں کو روس میں کاروبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوا تو یہ ایشیائی بالخصوص چین کے گروپس ہوں گے جو آہستہ آہستہ یہ خلا پر کریں گے۔

تاہم روس میں تمام جرمن سرمایہ کار تشویش کا اظہار کرتے نظر نہیں آرہے۔2015 میں جنوبی روس کے علاقے کرسودود میں جرمن کلاس نے زرعی مشینری بنانے والے نے اپنا پروڈکشن پلانٹ کھولا تھا، نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا نئی پابندیوں سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔

ترجمان ہرمن لوہبیک نے کہا کہ اس وقت تک کیلئے ہماری مؤثر کاشتکاری کی ٹیکنالوجی کی طلب کافی زیادہ ہے۔ ہم موجودہ کشیدگی کا بہت قریب سے جائزہ لے رہے ہیں اور سیاسی وضاحت کیلئے امید کرتے ہیں۔

ابھی تک ایسی کوئی علامت نہیں ہے کہ روس اور مغرب کے درمیان سیاسی کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ یہاں یقینا جرمن کابینہ میں روس کی حمایت میں کوئی آوز نہیں ہے اور خاص طور پر وزارت خارجہ نے لہجے میں تبدیلی کی علامت ظاہر کی ہے۔

گزشتہ ماہ جرمنی کے چیف ڈپلومیٹ کے منصب سے دستبردار ہونے والے سگمر گیبریل نے روس پر پابندیوں پر دوبارہ غور کرنے کا بارہا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے برعکس مسٹر ماس نے جرمنی کے میگزین ڈیر سپیگل کو بتایا کہ روس کے خلاف مغربی پابندیوں کی نرمی کا ارادہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ماسکو تدریجی طور پر معاندانہ انداز میں عمل کررہا تھا۔

اینگلا مرکل نے گزشتہ ہفتے روس کو خبردار کیا کہ وہ قدرتی گیس کے لئے یوکرین کو ایک گزرگاہ ملک کی حیثیت سے الگ نہ کرے۔ یہ خطرہ یوکرین سے گزرنے والے راستے کو نظر انداز کرکے بالٹک سی کے ذریعے روس سے جرمنی نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کی تعمیر سے پیدا ہوا۔چانسلر نے منصوبے کیلئے حمایت واپس لینے میں کمی سے رک گئیں لیکن ان کا تبصرہ اور ان کا اعتراف کہ نورڈ اسٹریم2 کاروباری منصوبے سے کہیں بڑھ کر تھا، برلن میں نئے لہجے کی علامت تھا۔

جرمن انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سیکیورٹی امور کے مشرقی یورپ پر ماہر کائی اولف لینگ نے کہا کہ ہم نورڈ اسٹریم 2 پر جرمنی کے سابق نکتہ نظر کو حقیقتا ترک کرنے کا عمل ابھی تک نہیں دیکھ رہے ہیں۔ جرمنی میں ہم نو جو دیکھا کہ شکوک میں اضافہ ہورہا ہے، اور اس مسئلے کے گرد جغرافیائی حساسیت ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔

تازہ ترین