• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملٹی میڈیا ایجوکیشن

عصرحاضر میں تعلیم کئی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے اس کے کئی رُخ ہیںکئی جہتیں ہیں کئی شعبے ہیں۔ ہرلحظہ بدلتی ہوئی دنیا میں ٹیکنالوجی نے جدتِ طراز یوں کے انبار لگا دیئے۔ انسان کی خود پیدا کردہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اُس کا تعاقب کر رہا ہے۔ آج کوئی شے دریافت ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے دو دن بعد وہ پرانی ہو جاتی ہے۔ اس لئے مشاہدہ، مجاہدہ مواد جسے انگریزی میں Content کہتے ہیں، آڈیو، ویڈیو کانفرنسوں میں جدت طرازیاں ان میں عام ہیں اور برقی رفتاری کی وجہ سے ٹیکنالوجسٹ ملنا مشکل ہوتے ہیں۔ 

اسی طرح سائونڈ جسے صوت کہتے ہیں اس میں موسیقی کے نئے ’’جینرا‘‘ سامنے آ رہے ہیں گرافکس کے شعبے میں اگر کوئی آرٹسٹ ہے تو وہ زیادہ آسانی سے کمپیوٹر پر کسی تصوراتی ماڈل کی چند منٹوں میں ایسے تصویر بنا دے گا کہ اُس کی جمالیات دیکھ کر ہاتھ سے خوبصورت شکل یا پورٹریٹ بنانے والے خود حیرت زدہ رہ جاتے ہیں پھر اس کے بعد اینی میشن سے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً بیج کس طرح پھل دار شجر بن جاتا ہے۔ اسے ملٹی میڈیا کے ذریعے دکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ ملٹی میڈیا کے ذریعے فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ اینی میشن کا اس میں بنیادی کردار ہوتا ہے اس میں مشاہدہ، یاداشت تخلیق اور جدت کا بڑا اہم کام ہے۔ 

یہ سب کچھ انسانی ذہن کا پیدا کردہ ہے یہ بھی یاد رکھیئے کہ ٹیکنالوجی چاہے کتنی ترقی کر لے وہ انسانی تصور کی عکاسی ہی کرتی ہے۔ انسانی ذہن سے آگے جست نہیں لے سکتی۔ جس طرح ایک شاعر اپنے نغمات کے حق میں کبھی مفلس نہیں ہوتا تاہم ماحول جب تک عمدہ اور آزادانہ نہ ہو، کوئی گیت، گیت نہیں ہوتا۔ میں نے آج تک ایسا کوئی مغنی نہیں دیکھا جو فرض سمجھ کر گاتا ہو۔

نیند تو صرف اُن لوگوں کے نصیب ہوتی جو سونے کیلئے بے تاب نہیں ہوتے۔ تخلیق نفیس و لطیف قوتوں کی بڑی حسین شگفتگی ہے غالب نے بہترین غزل لکھ ڈالی اتنی آسانی سے جس طرح کوئی پرندہ گھونسلا بنا دیتا ہے۔ اب تخلیق اور جدت طرازی کو ٹیکنالوجی کے ذریعے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ملٹی میڈیا اس انسانی پیدا کردہ جمالیاتی کو ٹیکنالوجی کے ذریعے آگے بڑھا رہا ہے اس میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ انسانی کرافٹ سے آگے بڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ کیا اس میں وہ احساسات نمایاں ہو سکتے ہیں۔ مثلاً انسانی ذہن اور ہاتھوں کے کرشمہ سازی سے اجتنا کی غاروں کے گھپ اندھیروں میں پینٹنگ کی گئی ہیں۔ جسے دنیا بھر کے فن کار اور فن سے محبت کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں جا کر دیکھتے ہیں کیا یہ کام بغیر روشنی بغیر بجلی کے نئی ٹیکنالوجی کر سکتی ہے۔

ملٹی میڈیا اور اینی میشن

ملٹی میڈیا میں اینی میشن بھی ایک خاص مضمون ہے۔ لیکن اس میں سارا کام تصور سے نتھی ہے۔ اس میں گرافکس سے تصوراتی تصویریں بنانا، کارٹونوں کی شکل فلم بنانا جو ٹیکنالوجی کا انوکھا کارنامہ سمجھا جاتا ہے فلم سازی میں اسے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور تصور کو بعض اوقات اس طرح پیش کیا جاتا ہے جس میں جمالیات اور فن کم ہوتا ہے۔ مثلاً ایک فلم میں ایک کردار آدمی کا روپ دھار لیتا ہے۔ آگے چل کر وہ ایک درخت میں گم ہو جاتا ہے پھر وہ درخت ایک ایسے آدمی کے روپ دھارتا دکھائی دیتا ہے پھر پارے کی شکل میں بکھر جاتا ہے پھر اکٹھا ہو کر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ 

ٹیکنالوجی کے لحاظ سے طالب علموں کو سکھانا اچھی بات ہے لیکن اسے لایعنی کہانی میں تبدیل کر کے دیکھنے والے ناظرین یا طالب علموں کی سوچ کو پراگندہ کرنا کسی صورت درست بات نہیں شعور اور آگہی سے ماورا چیزیں دکھانا لوگوں کی ذہانت کو ماند کرنے کا یہ بھونڈا طریقہ ہے البتہ اینی میشن سے بہت اچھا کام بھی لیا جا رہا ہے۔ سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اینی میشن اور انسانی ہنر مندی کا مقابلہ کیا جائے مثلاً بین ہُر Ben Hurفلم کی چیریٹ ریس کی کرافٹ مین شپ کو اینی میٹڈ کیا جائے تو یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ انسان نے جس ہنرمندی سے اینی میٹڈ سے بہتر کرافٹ مین شپ دکھائی ہے کہیں اینی میٹڈ قسم کی ٹیکنالوجی انسانی ہنر مندی کو زائل نہ کر دے کیونکہ جب کیلکولیٹر آیا تو لوگوں کو آسانی تو ضروری میسر آئی لیکن اب نئی نسل چار رقمیں جمع نہیں کر پاتی تو پھر ریاضی میں آگے بڑھانے کی رفتار کہیں تھم نہ جائے اور ریاضی کے زبان ہی ملٹی میڈیا کی بنیاد ہے۔ اس بغیر ملٹی میڈیا کچھ نہیں ہے۔

یاداشت MNEMONICS (مینی مونکس)

یاداشت کی مدد سے بہت سے تخلیقی کام کرنا، تصویر بنانا، کسی کو دیکھ لیا اور پھر کچھ عرصے بعد اس کی تصویر بنا دینا ایک پرانا آرٹ ہے۔ معلومات کو ذہن نشین کر کے اس کی تصویر کشی کرنا آرٹ کی معراج ہے۔ یہ طریقہ کار بہت پرانا ہے اور یونان میں یہ رائج تھا۔ لیکن یاداشت کے مقابلے آج بھی ہوتے ہیں اعداد و شمار کو ہزاروں میں تقسیم کر کے 15منٹ میں دیکھ کر یاداشت کے زور پر آج بھی ہوتے ہیں دنیا میں یاداشت کے مقابلے ڈومنک اوبرائن ایک اسکاٹش اس مقابلے میں دنیا میں آج اوّل نمبر پر ہے ملٹی میڈیا کی تعلیم میں امیجری، تصوراتی دُنیا کی عکاسی کرنا، متحرک اشکال بنانا آج ٹیکنالوجی نے جہاں کام آسان کر دیا ہے لیکن اس تیکنیک میں آگے بڑھنا بھی جنون اور لگن طلب کرتا ہے۔ اسے پروفیشن نہ سمجھا جائے۔ یہ فن وہ ہے جو ڈگریوں کا محتاج نہیں۔

ملٹی میڈیا اور فلم سازی

ملٹی میڈیا آج فلم سازی میں بہت اہم ہو گیا جہاں اسکرپٹ Contentکی ضرورت ہے وہ بھی اہم ہے اس کے علاوہ صوتی اثرات (Soundefcect)بہت اہم ہیں چاہے یہ ریڈیو کے ذریعے کسی ڈرامے میں نشر کئے جائیں یا پھر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آکر اسے زیادہ بہتر طور پر پیش کیا جائے تو موسیقی ذریعہ ہے۔ اس لئے موسیقی کا بہت اہم رول ہے لیکن فلم سازی کی نئی تیکنیک نے کیا ڈیویڈ لین (ہدایت کار) کی فلم’’لارنس آف عربیا‘‘ یا ’’برج آن ریور کوائی‘‘ کا مقابلہ کوئی نئی اینی میٹڈ فلم مقابلہ کر سکی ہے کیا وہ تاثر پیدا کر سکی جو ستیا جیت رے کی فلموں نے پیدا کی۔ یہ درست ہے کہ آج اینی میشن کے ذریعے بہت حیرت انگیز منظر دکھائے جا رہے ہیں۔ جس نے تصورات کی دُنیا کو مہمیز بھی ملتی ہے اگر اسے حقیقت سے دُور نہ کیا جائے تو دیکھنے والے کے شعورکو زیادہ آسانی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین