• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فروغِ تعلیم میں آن لائن لائبریز کا کردار

کسی بھی شعبے میں تحقیق پہلے سے دستیاب معلومات تک رسائی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اعلیٰ درجے کا تحقیقی مواد مختلف جرنلز میں شایع ہوتا ہے اور یہ بین الاقوامی اشاعتی اداروں کی ڈیٹا بیس سے قیمتاً بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کسی فرد یا ادارے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اپنا تحقیقی کام جاری رکھنے کے لیے تازہ ترین رحجانات، تخلیقات اور تحقیق تک فوری رسائی حاصل ہو، تاکہ وہ اپنا کام بغیر کسی خلل کے جاری رکھ سکے اور اس کی یکسوئی متاثر نہ ہو۔

پاکستان میں تعلیم کے لیے مختص بجٹ ناکافی ہے اور خاص طور پر جب ہم اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت اور بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ اس ضمن میں رکھی جانیوالی رقم اور بھی کم ہےجب کہ لائبریری توترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ کچھ تعلیمی اداروں نے آن لائن لائبریریز میں سرمایہ کاری کی ہے، تاہم یہ رجحان Across-the-boardابھی جڑیں مضبوط نہیں پکڑسکا۔ 

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائرایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان میں تحقیق کے رحجان کو فروغ دیا جاسکے۔ ایچ ای سی کے نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پروگرام نے پاکستان میں تحقیقی ماحول کو فروغ دینے میں اہم کردار اداکیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے سرکاری اور نجی شعبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ محققین کے لیے مہنگے آن لائن جرائد اور تحقیقی ڈیٹا بیس تک رسائی آسان ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب اور سندھ کے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشنز ایسے پروگرام شروع کر سکتے ہیں، جو نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پروگرام میں مزید وسعت پیدا کرسکتے ہیں اور صوبائی اداروں کو اس سے بہرہ مند کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

ڈیجیٹل لائبریری کے سلسلے میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہےکہ ہمیں اپنا تحقیقی مواد خود تیار کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی محققین اپنی تحقیق بین الاقوامی جرنلز میں شائع کرارہے ہیں جبکہ ان میں مقامی مسائل پر بحث کی گئی ہے اور اس مواد تک ہماری رسائی محدود ہے کیونکہ مکمل رسائی کے لیے ان جرائد کو معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ ایک آن لائن ذخیرہ تیار کیا جائے، جہاں پاکستانی محققین اور مصنفین کے لیےمقامی اور بین الاقوامی تحقیقی مواد مکمل طور پر دستیاب ہو۔ ایچ ای سی اس سلسلے میں ایک میکنزم وضع کر سکتا ہے جس میں پاکستانی محققین کی تحقیقات اور اشاعتی مواد کو نا صرف جمع کر کے محفوظ رکھا جاسکتا ہے بلکہ ایک آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے اسے پھیلایا بھی جاسکتا ہے۔اس کے لیے کسی قانون سازی یا معاہدے کے ذریعے بڑے اشاعتی اداروں کی معاونت سے ایسے پلیٹ فارم کا قیام ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان میں سرکاری یا نجی شعبے میں ہونے والی تحقیق تک رسائی اہم ضرورت ہے۔ 

چھوٹی لائبریریاں بھی کتابوں کابڑا ذخیرہ جمع کرسکتی ہیں، کیونکہ ایک ہارڈ ڈرائیو میں رنگین پی ڈی ایف کی ایک لاکھ 50ہزار کتابیں اور ان کا کیٹلاگ ڈیٹارکھا جا سکتا ہے۔ آن لائن کتابیں فراہم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے جیسا کہ نیٹ فلیکس (Netflex)اور ایمازون (Amazon)کی مثال دی جاسکتی ہے۔ لائبریریوں کے مالکان دو لاکھ کے قریب الیکٹرانک کتابیں خرید کر انٹرنیٹ پر لاسکتے ہیں۔ بوسٹن پبلک لائبریری اور لائبریری آف کانگریس میں روزانہ سینکڑوں کتابیں کمپیوٹر پر لائی جارہی ہیں۔ اس وقت بھی 20لاکھ کے قریب ویب سائٹس ایسی ہیں، جو پڑھنے والوں کو مفت میں کتابیں حاصل کرنے، پڑھنے کی اجازت دیتی ہیں۔

آن لائن لائبریری سب کے لیے

ہمارے پاس بھی موقع ہے کہ ہم ایک ایسی آن لائن لائبریری بنائیں، جس تک سب کی رسائی ہو۔ بوسٹن پبلک لائبریری یا Yaleکا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک کروڑ کتابیں چاہئیں۔ایک کروڑ کتابیں ہم چار سال میں 16کروڑ ڈالر میں حاصل کرسکتے ہیں۔اگر مل کر کام کیا جائے تو آن لائن لائبریری کے ذریعےعلم تک سب کی رسائی ممکن بنائی جاسکتی ہے ۔

پاکستان کی پہلی آن لائن لائبریری

جنوری 2004ء میں پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل لائبریری کا آغاز ہوا۔اس لائبریری کی مدد سے یونیورسٹیاں اور تحقیقاتی ادارے 5ہزار بین الاقوامی جرائد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔PERN قومی سطح کا ایک ایسا تعلیمی انٹرنیٹ ہے، جو کہ تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں کو نا صرف باہم ملا رہا ہے بلکہ انٹرنیٹ کی مدد سے مشترکہ تحقیقی علم اور وسائل بانٹنے اور فاصلاتی تعلیم فراہم کرنے میں بھی مددگار ہے۔ PERN میں شامل ڈیجیٹل لائبریری میں فراہم کردہ سہولیات میں 11سو رسائل اور میگزین کے علاوہ ڈیجیٹل ویڈیو کانفرنسنگ کی خدمات اور لیکچرز شامل ہیں۔ پاکستان اب تک صرف610ایم بی پیز بینڈوڈتھ سے بیرونی دنیا سے رابطے میں ہے۔ 

سب سے اہم لنک 155ایم بی پیز کنکشن ہے جو کہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا، مڈل ایسٹ، ویسٹرن یورپ سے آپٹیکل فائبر لنک ہے۔آج پاکستان کی تقریباً سبھی لائبریریوں میں ڈیٹا ڈیجیٹائز کیا جارہاہے تاکہ طلباء کو تعلیمی اور غیر تعلیمی نصاب باآسانی دستیاب ہو سکے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پروگرام کے تحت طالب علموں کی علمی جرائد کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک کتابوں تک رسائی ممکن بنا رہا ہے۔ اس لائبریری میں 75ہزار سے زائد کتابیں، جرائد اور مضامین موجود ہیں۔اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت، سائبر لائبریری منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کا مقصد قومی اور دیگر مقامی زبانوں میں انٹرنیٹ پر مواد کی فراہمی ہے۔ اس لائبریری میں مذہب، ادب، تاریخ اور سائنسی موضوعات پر کتب موجود ہیں۔

تازہ ترین