ٹیکنیکل ایجوکیشن اکیسویں صدی کی ایک اہم ضرو رت ہے ،ترقی یا فتہ ممالک میں فنی تعلیم کی شرح ترقی پذیر ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ چونکہ ان ممالک میں کلاس ون سے ٹیکنیکل ایجوکیشن کو نصاب کے لئے لازم وملزوم قرار دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ماہرین کے مطابق تاریخ گواہ ہے کہ ترقی کی منازل انہی ممالک نے طے کیں جنہوں نے نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی اہمیت دی۔
چینی زبان کی ایک مشہور مثال ہےکہ’’ انسان کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔ اس سے وہ خودکفیل ہوگا،،
اس مثال کے ذریعے فنی تعلیم و تربیت کااندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ہمارے طلباء طالبات بہتر اور کامیاب مستقبل کے حصول کے لئے ریاضی ، فلسفہ، تاریخ، سائنس، انجینئرنگ اورڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لئے لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ڈگریوں کو حاصل کرنے کے بعد ہمارا شمار اہل علم میں ہو جاتا ہے یا پھر اتنے سالوں تک کی جانے والی جدوجہد کا کوئی حاصل نہیں ہے۔ کامیاب مستقبل کےحصول کے لئےجو اہمیت نصابی تعلیم کی ہے وہی اہمیت ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بھی ہے۔فنی تربیت کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔
اگر ہمیں بھی آگے بڑھنا ہے تو نصابی تعلیم کے ساتھ فنی تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ ہونا ہوگا ہمیں ساری ذمہ داری حکومت یا اعلیٰ عہدیداروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ نہیں ہونا چاہئے ہم بطور طالبعلم اپنے مستقبل کے ان عہدیداروں،حکومتی اداروں ،حکمرانوں سے کہیں زیادہ ذمہ دا ر ہیں۔۔ہمارا شمار دنیا کے ان ممالک میں کیا جاتا ہے جو مستقبل کے معماروں کی ایک بڑی اور واضح اکثریت اپنے پاس رکھتا ہے، اگر یہی اکثریت جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت حاصل کرلےتو ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب بآسانی شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
حکومتی کاوشوں اور پرائیویٹ سیکٹرز کی مہربانی کے باعث ملک میں کم ہی سہی پولی ٹیکنیکس ادارے ایسے ہیں جہاں طلبہ و طالبات فنی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔طلباء و طالبات ہوں یا والدین، ان ادارو ں کی کمی کے باعث آج بھی ڈگریوں کے حصول پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں دو قسم کے ادارے ایسے ہیں جو طلبہ و طالبات کو دوران تعلیم ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کرتے ہیںان میں کچھ ادارے گورنمنٹ سے منسلک ہیں جبکہ کچھ پرائیویٹ سیکٹر اور فلاحی اداروںکی جانب سے قائم کیے گئے ہیںجہاں آئی ٹی سمیت ، ریفریجریشن اینڈ ائیر کنڈیشننگ ، سول انجنئیرنگ ، سول سروئیر، ڈریس ڈیزائننگ ، آٹو الیکٹریشن اور دیگر شعبوں میں ایک سے تین سال تک کے ڈپلومہ اور دیگر کورسز کروائے جاتے ہیں۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کرنے والے سرکاری ادارے
سرکاری اداروں میں پولی ٹیکنیکس،کمرشل ٹریننگ سینٹر،ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر،اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز کے تربیتی مراکز،خواتین کی تربیت کے اداروں سمیت مختلف سرکاری اداروں کے تربیتی مراکز شامل ہیں ۔ان اداروں میں 6ماہ سے لے کر 3سال تک کےکورسز کرائے جاتے ہیں، ساتھ ہی کورسز کے اختتام پر سرٹیفیکیٹس سے بھی نوازا جاتا ہے ۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کرنے والےنجی ادارے
اگر آپ بطور طالبعلم سرکاری اداروں میں فنی تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نہیں تو کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں طلبہ کو مختصر اوقات میں چھ سے تین سال والے ڈپلومہ کورسز کروائے جاتے ہیں ،ان اداروں میں کچھ ایسے ہیں جو طلبہ کو بلامعاوضہ کام سکھاتے ہیں جس کا مقصد ان ڈپلومہ کورسز سے مستقبل میں فائدہ اٹھا کر ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو اپنی صلاحیت اور لیاقت میں اضافہ کرکے خود کو روزگار کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ دوسرے طریقے میں آپ کو معاوضہ کے ساتھ بھی کام سکھایا جاتا ہے جسے عام زبان میں انٹرن شپ بھی کہا جاتا ہے اکثر سرکاری ادارے بھی آج کل انٹرن شپ کروانے لگے ہیں جن میں تربیت کی مدت، فنی شعبے یا ہنر کی نوعیت کے اعتبار سے 18 ماہ سے 36 ماہ ہوتی ہے۔
اب یہ طلبہ طالبات پر منحصر ہے کہ وہ کون سا ٹیکنیکل کورس اپنے لئے منتخب کرتے ہیں، ان کورسز کا ایک فائدہ یہ بھی ہے انھیں دوران تعلیم جاری رکھنا بے حد آسان ہوتا ہے۔کسی بھی پرائیویٹ ادارے میں دو گھنٹے لگانے سے آپ مختلف ٹیکنیکل کورسز میں تین سالہ ڈپلومہ حاصل کرکے باعزت روزگار کے قابل اور خودمختار بن سکتے ہیں۔
ہمیںاس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک کا مستقبل نوجوانون کی حاصل کی گئی ٹیکنیکل ایجوکیشن سے ہی وابستہ ہے ،اسی فنی علم کے ذریعے ہم ملک سے بیروزگاری کے ناسور پر قابو پاسکتے ہیں، ساتھ ہی ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور معیاری فنی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے لیکن اس صورتحال میں مزید بہتری کے لئے حکومت کا مثبت کردار بھی انتہائی اہم ہے حکومت کو ان ٹریننگ سینٹرز اور پولی ٹیکنیکس اداروں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا نصاب میں تبدیلی اور ٹیکنیکل بورڈ کی تشکیل بھی اس ضمن میں مناسب کرداراد کرسکتی ہے ہمیں پہلے سے بڑھ کر فنی تعلیم و تربیت کی اہمیت و افادیت پر زور دینا ہوگا اگر ہم ملک کی افرادی قوت بڑھانا چاہتے ہیں تو اس ضمن میں بھی ٹیکنیکل ایجوکیشن زیادہ سود مند ثابت ہوسکتی ہے ۔