دفتر میں آپ کسی ضروری کام میں مصروف ہیں کہ ایک اور ای میل آپ کےآفس کمپیوٹر کی اسکرین پر نمودار ہوتی ہے۔ اس ای میل میں وہ اعداد و شمار ہیں، جو پہلے ہی ایک پیپر پر آپ کی میز پر موجود ہیں اور آپ اُسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کا لیپ ٹاپ بھی کھلا ہوا ہے، جس پر کچھ اور اعداد و شمار ہیں، جب کہ کمپیوٹر کی اسکرین پر موجود کچھ نمبروں میں آپ پہلے ہی اُلجھے ہوئے ہیں۔
مزید یہ کہ اگلے 20منٹ میں آپ کی میٹنگ ہے اور اس سب کے درمیان اچانک آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں اور ڈوبنے لگے ہیں۔اکیسویں صدی کے دفتر اور ڈیٹا کی بھرمار کی دنیا میں آپ کا خیر مقدم ہے۔
ڈیٹا کی رفتار
ہر سیکنڈ میں ٹوئٹر پر 8,026ٹوئٹ ،انسٹاگرام پر 843فوٹو پوسٹ کیے جاتے ہیں،ٹمبلر پر ہر سیکنڈ میں 1,373نئی پوسٹس کی جاتی ہیں،اسکائیپ پر 3,122کالز کی جاتی ہیں اورہر سیکنڈ میں مجموعی طور پر 56,443گیگا بائٹ(GB)انٹرنیٹ ٹریفک استعمال ہوتا ہے۔ ہر سیکنڈ میںگوگل پر 66,791سرچز کی جاتی ہیں،یوٹیوب پر 73,698 ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں، 2,688,660ای میل بھیجی جاتی ہیں اورجس وقت یہ سطور میں لکھ رہا ہوں، دنیا میں کل ویب سائٹس کی تعداد ایک ارب 87کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
عالمی ڈیٹاا سٹور کرنے کی صلاحیت کیا ہے؟
سائنسدانوں نے اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ انسان دنیا میں موجود بے شمار اطلاعات کو کس حد تک اسٹور کر سکتا ہے۔
’سائنس‘ جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق2018میں دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز میں اسٹوریج کی صلاحیت1450ایگزا بائیٹ ہے، جو 2020تک بڑھ کر 44,800ایگزابائیٹ ہوجائے گی۔ جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارٹن ہلبرٹ کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ تمام اطلاعات لے کر انہیں کتابوں میں جمع کریں تو ان کتابوں کا انبارامریکا یا چین کے برابر کے رقبے تک پھیل جائے گا۔
کمپیوٹر میں انفارمیشن جمع کرنے کی پیمائش روایتی طور پر کلو بائٹس پھر میگا بائٹس اور اب عموماً گیگا بائٹس میں کی جاتی رہی ہے، جس کے بعد ٹیرا بائٹس، پیٹا بائٹس اور اب ایکسا بائٹس آ گیا ہے، ایک ایکسا بائٹ ایک بلین گیگا بائٹس کے برابر ہے۔
تحقیق کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہی معلومات سی ڈیز پر جمع کی جائے تو سی ڈیز کا انبار چاند سے بھی اوپر پہنچ جائے گا۔
فیس بک ہی نہیں گوگل، ایمازون، ٹوئٹر بھی صارفین کا ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں
فیس بک نے سماجی رابطہ پلیٹ فارمز فراہم کرنے والی نامور کمپنیوں کے طریقہ کار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف فیس بک ہی نہیں گوگل، ایمازون اور ٹوئٹر بھی صارفین کا ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔ کمپنی نے اپنے ایک بلاگ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے یہ معمول کا طریقہ کار ہے۔
کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر، پن ٹریسٹ اور لنکڈ اِن کے انٹرنیٹ صفحات پر بھی لائیک اور شیئر بٹن موجود ہیں، جبکہ گوگل کا اینالیٹکس نظام بھی فیس بک سے مماثلت رکھتا ہے۔ فیس بک کے مطابق، انٹرنیٹ پر سماجی رابطے کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کی اکثریت صارفین کی معلومات کو اشتہارات کے بہتر چناؤ کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ڈیٹا کو سمجھنا
ڈیٹا کو سمجھنے کے لیے ڈیٹالی تو ایک آن لائن ایپ ہوگئی، جو ایک فرد کی معاونت میں کارگر ثابت ہوسکے گی، تاہم اب ڈیٹا سائنس ایک باقاعدہ تعلیمی مضمون کے طور پر اُبھر کر سامنے آچکا ہے، کیوں کہ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھاتے انسان کو اسے سمجھ کر اس کے نتائج کی روشنی میںکاروباری، معاشی اور سماجی فیصلے لینے ہوں گے۔ڈیٹا سائنس، ریاضی اور معاشیات کا مجموعہ ہے، جس کے ذریعے اعداد وشمار کا تجزیہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔آن لائن معلومات کے بے تحاشہ بہاؤ کے باعث، آنے والے دنوں میں ڈیٹا سائنس کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل بن جائے گا۔
دو کمسن بھائیوں نے مائیکرو سافٹ ڈیٹا سائنس میں ڈگری حاصل کر لی
اقبال ٹائون لاہور کے دو کمسن بھائیوں طیب اشرف اور طاہر اشرف کی عمریں بالترتیب 19اور 20سال ہیں، جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے یہ ڈگری حاصل کی ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ عام طور پر طلباء ڈیٹاسائنس کی ڈگری ماسٹرز کے بعدحاصل کرتے ہیں لیکن پاکستان کے ان ہونہار سپوتوں نے یہ ڈگری انٹر میڈیٹ(آئی سی ایس ) کے بعد ہی مکمل کر کے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
گوگل نے ڈیٹا کے بچت کی ایپ’ ڈیٹا لی‘ متعارف کرادی
گوگل نے اسمارٹ اور سادہ اینڈرائیڈ ایپ ڈیٹا لی Datally متعارف کرائی ہے، جو اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کو موبائل ڈیٹا سمجھنے، کنٹرول اور اس کی بچت میں مدد فراہم کرتی ہے۔ڈیٹا لی اینڈرائیڈ 5اعشاریہ 0لالی پاپ اور اس کے بعدکے ورژن پرچلنے والے تمام اسمارٹ فونز کے لیے ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں گوگل پلے اسٹورز پر دستیاب ہے۔ ڈیٹا لی دنیا بھر میں اسمارٹ فونز استعمال کرنے والوںکے اہم مسئلے یعنی ڈیٹا کے استعمال کو آسان بناتی ہے۔
گوگل نے دنیا بھر میں اسمارٹ فونز استعمال کرنے والوں کی جامع تحقیق کے بعددریافت کیا کہ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈیٹا کا ختم ہو نا ہے، یہ خصوصی طور پر آن لائن ہونے والی اس نئی نسل کاشدید مسئلہ ہے جنہیں نیکسٹ بلین یوزرز (Next Billion Users) کہا جاتا ہے۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے یہ افراد نا صرف ڈیٹا کے بیلنس کے بارے میں مسلسل فکر مندرہتے ہیں بلکہ اس بات کو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ ان کا ڈیٹا کہاںاور کیسے استعمال ہو رہا ہے اور نا ہی وہ ان ایپس کے لیے ڈیٹا کی ایلوکیشن پر اپنا کنٹرول رکھ سکتے ہیں، جن کی انہیں واقعی ضرورت تو ہے لیکن سمجھ نہیں۔