وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال 6 مئی کی شام کنجروڑ میں مسیحی برادری کی کارنر میٹنگ کے بعد ایک جنونی کی گولی کا نشانہ بنے لیکن خداوند تعالیٰ کا کروڑ ہا شکر ہے کہ اُن کی جان محفوظ رہی۔ اس قاتلانہ حملے کی بلا امتیاز سب نے مذمت کی۔ احسن اقبال ہماری قومی سیاست کا روشن ستارہ ہی نہیں ،ایک معتدل فکر کے حامل مدبر یا دانشور بھی ہیں۔ نو عمری سے اُن کے اندر موجود قائدانہ صلاحتیں جھلکتی ملاحظہ کی جا سکتی تھیں۔ درویش کی جب اُن سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ UET میں اسٹوڈنٹس یونین کے صدر، لاہور اسٹوڈنٹس کونسل کے چیئرمین اور طلباء تنظیم کے مقامی ناظم تھے۔
1993ءمیں وہ پہلی مرتبہ MNA منتخب ہوئے 2002میں جس نوع کے الیکشن ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ سوائے اس کے وہ ہر مرتبہ عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ خدمت کو عبادت اور مشن خیال کرتے ہوئے نہ صرف قومی سطح پر بھرپور رول ادا کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ اپنے ضلع اور حلقہ کے عوام سے اُن کی قربت، اپنائیت اور محبت اُن کے روابط سے ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ترقیاتی کام کرواتے ہوئے انہوں نے نارووال کا حلیہ بدل ڈالا ہے۔ اس کے باوجود ان پر دل دہلا دینے والا جو قاتلانہ حملہ ہوا ہے اُس کے مضمرات کا جائزہ ہم تین حوالوں سے لینا چاہتے ہیں۔ مذہبی جنونیت، سیکورٹی کی کوتاہی اور ہماری موجودہ قومی سیاست پر اثرات ۔
وطن عزیز ایک آئینی و جمہوری مملکت کی حیثیت سے اوپن سوسائٹی کا مظہر ہے اگر نہیں ہے تو اسے اوپن ہونا چاہیے۔ جان بچنے کی طرح یہ بھی خوش آئند پہلو ہے کہ قاتلانہ حملے کا مرتکب جنونی موقع پر زندہ پکڑا گیا ہے جس سے تفتیش کرتے ہوئے جو پہلو سامنے آ رہے ہیں اور آئیں گے اُن پر قومی مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ ہم بحیثیت قوم نیشنل ایکشن پلان پر بہتر اسلوب میں عملدرآمد کرا سکیں اور مذہبی جنونیت پر قابو پا سکیں۔
قاتلانہ حملہ کرنے والے نے یہ اقدام کسی وقتی اشتعال یا ابال میں نہیں اٹھایا مہینوں سے اس کی برین واشنگ ہو رہی تھی۔ وہ میٹرک پاس تھا اور اپنے خیالات کو ڈائری میں قلمبند کرتے ہوئے اپنے ’’بڑوں‘‘ تک پہنچانے کی کاوشیں بھی کرتا رہا ہے۔ ہمارے عمومی مشاہدے کے مطابق اس نوع کے جنونیوں کو روحانی نوعیت کے خواب بھی اکثر آتے ہیں نفسیاتی جائزہ لیا جائے تو یہ خواب ان کی چھپی سوچوں کے مظاہر ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تصوف یا صوفی ازم تو سراسر محبت، انسان دوستی اور سلامتی کا پیغام ہے تو پھر یہ پیغام کن بنیادوں پر اتنا مسخ ہو کر پہنچا کہ اپنے پیروکار کو جنونی بنا گیا۔ اگر اس نوع کا سانحہ کسی ترقی یافتہ مملکت میں وقوع پذیر ہوا ہوتا تو ان کوائف پر کھلے مباحث کے ساتھ کڑی منصوبہ بندی کی جاتی یا نہ کہا جاتا کہ بس اندھے اور گونگے بن کر جلتے مرتے رہو۔ اس مملکت میں خلائی مخلوق کا اصلی نام لینا بھی قابلِ گردن زدنی ہے لیکن کیا مذہب ہی ایسی لاوارث چیز ہے کہ ہر جاہل اس کا مفکر بنا پھرتا ہے ۔
ہم استفسار کرتے ہیں کہ اس ملک میں جناب احسن اقبال سے بڑھ کر مذہبی شخصیت اور ان کے گھرانے سے بڑھ کر مذہبی گھرانہ کونسا ہے؟ اگر مذہبی جنونیوں سے ایسی پاکباز زندگی محفوظ نہیں ہے تو دیگر کا کیا حال ہو گا؟ کیا اسٹیٹ کی طاقت ملک و قوم اور عوام کے تحفظ و سلامتی کیلئے ہے یا محض ادارہ جاتی مفادات کے لیے؟ دنیا کا کونسا آئینی و جمہوری ملک ہے جہاں یہ گنگا بہتی ہے؟ کیا پاکستان مذہبی جنونیوں کو طاقتور بنانے کے لیے بنایا گیا تھا کوئی ہے جو یہ بتائے کہ ہمارے قائد جناح صاحب کی سوچ کیا تھی؟ تھیو کریسی کے حوالے سے ان کا زاویہ نگاہ کیا تھا؟
بلاشبہ یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر وزیر داخلہ اپنی سیکورٹی نہیں کر سکتا تو وہ دوسروں کو کیا تحفظ فراہم کرے گا۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ محض سیکورٹی سکیموں سے یہ ایشو حل ہونے والا نہیں ،جب تک کہ جنونیت کا ڈنک نہیں نکالا جاتا اور اس کے سامنے کماحقہ بند نہیں باندھا جاتا اور یہ محض کمزور حکومتوں کا نہیں تمام ریاستی اداروں کا فرض ہے۔ اگر احسن اقبال کی جان بچی ہے تو اس کا بڑا کریڈٹ ان کے سیکورٹی تحفظ کو جاتا ہے جنہوں نے اتنی پھرتی دکھائی کہ دس گولیاں موجود ہونے کے باوجود قاتل کو دبوچ لیا۔ ایسے سیکورٹی محافظین کو کم از کم عزت، شاباش یا حوصلہ افزائی تو ملنی چاہیے اور جنہوں نے کوتاہی برتی ہے اُن کی جواب طلبی ہونی چاہیے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اس خوفناک قاتلانہ حملے کا impact وطنِ عزیز کی قومی سیاست پر بہت بُرا پڑے گا۔ سیاستدان بیچارے تو پہلے ہی خلائی میزائلوں کی زد میں ہیں اب رہی سہی کسر جنونیوں کے ذریعے نکل جائے گی بالخصوص ن لیگ کی قیادت کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھائے۔ مخالفین ان کا مورال گرانے کی پوری کوشش کریں گے کہ کسی بھی قیمت پر اُن کے عوامی رابطے کی لائن کاٹ دی جائے۔ اب یہ اُن کے تدبر کا امتحان ہو گا کہ وہ اپنی سیکورٹی و تحفظ کا پورا اہتمام کرتے ہوئے عوام میں اپنا بیانیہ کمزور نہ پڑنے دیں۔ وطنِ عزیز کے ہر فرد، گروہ اور طبقے کی خدمت میں ہماری التماس ہے بالخصوص اہل سیاست سے کہ وہ اس یک نکاتی ایجنڈے پر ایکا کرلیں یہ کہ اس کائنات میں انسانی جان سے کوئی چیز مقدس یا مقدم نہیں ہے لہٰذا ’’عدم تشدد‘‘ کے ایشو پر کمزوری دکھانے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)