سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی سلامتی کمیشن کے اعلامیے کو افسوسناک اور تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے اُس اعلامیے کو جس میں خود اُن کے بنائے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت اُن کے نمائندے اور عسکری قیادت بھی موجود تھی اور تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف جنہیں سپریم کورٹ اور احتساب عدالت میں بدعنوانی ، دروغ گوئی، قومی دولت اور وسائل کے غلط استعمال سمیت مختلف الزامات کا سامنا ہے اور اُن کی حکومت محض دو ہفتوں کی مہمان ہے وہ یہ سوالات کررہے ہیں کہ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کس نے کیا جبکہ گزشتہ چار سال تک ملک کے خارجہ اُمور بھی وہ خود ہی چلا رہے تھے ۔ اُن کے جارحانہ طرز عمل اور اپنے تئیں’’ دانشمندانہ نظریاتی اور وطن کی محبت‘‘ سے لبریز بیانات اُن کی جماعت اور راہنماؤں کے لیے جو مسائل ، مصائب اور مشکلات پیدا کررہے ہیں اس کا اُنہیں اندازہ ہی نہیں۔ وہ جذبات اور خوش فہمیوں کی رو میں بہے چلے جارہے ہیں۔
اُن کے عزائم اور ارادوں سے انداز ہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی کشتیاں تو جلادی ہیں۔لیکن اپنی جماعت ، رفقاء اور اُن کارکنوں کو سیاسی طور پر بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے جو افسوس ، حیرت اور غیر یقینی صورتحال میں سوچ رہے کہ وہ کہاں جائیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کے متنازعہ انٹرویو کے بعد کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگلے روز بونیر میں ہونے والے جلسے میں یا تو عوام عدم شرکت کرکے اپنی ناراضی کا اظہار کریں گے یا پھر میڈیا میں آنے والی خبروں اور تجزیہ نگاروں کے تبصروں اور جائزوں سے متاثر ہوکر ردّعمل کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں لیکن اس کے برعکس بونیر کے جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اور خاصی پُرجوش تھی اس جلسے میں حیرت انگیز طور پر خود میاں نواز شریف بھی پُراعتماد تھے اور اُن کے چہرے سے گھبراہٹ یا پریشانی کے کوئی ایسے آثا رنہیں دکھائی دیئے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ اپنے انٹرویو کے متنازعہ حصوں پر ہونے والے ردّعمل سے اُنہیں پریشانی، گھبراہٹ یا ندامت ہو لیکن بات اتنی سیدھی سادی بھی نہیں کہ اس صورتحال پر اطمینان کرلیا جائے۔
سوالات اپنی جگہ پر ہیں ۔ وہی اخبار، وہی صحافی اور ویسی ہی متنازعہ باتیں۔ کیا یہ سب کچھ اتفاق تھا۔ ہرگز نہیں ایسا ہوہی نہیں سکتا درحقیقت یہ ایک منظم منصوبہ بندی تھی ، جس پر اپنے چنیدہ رفقاء کے ساتھ مل کر میاں نوازشریف نے عمل کیا ہے اور چونکہ جاننے والے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے ہنگامی طور پر قومی سلامتی کا اجلاس بلا کر معاملے کو سنگینی کا تاثر دیا۔ 11 مئی کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے میاں نواز شریف کے انٹرویو میں جو حصہ متنازعہ بنا، اس میں سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ عسکریت پسند تنظیمیں متحرک ہیں انہیں نان سٹیٹ ایکٹرز کہہ لیں۔ لیکن کیا ہمیں اُنہیں اجازت دینی چاہیئے کہ ’’وہ سرحد پار کریں اور ممبئی میں جاکر 150 لوگوں کو ماریں‘‘۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت میاں نوازشریف کے اس مؤقف کی پردہ پوشی کے لیے مختلف جواز تراش رہی تھی لیکن خود میاں نواز شریف مسلسل اپنے مؤقف پر سٹینڈ لیے ہوئے تھے۔ اگلے دن ہی انہوں نے احتساب عدالت کے باہر موجود صحافیوں کے سامنے اخبار سے انٹرویو کے متنازعہ حصے پڑھ کر سنائے اور پھر انہیں سے استفسار کیا کہ ۔ بتائیں میں نے کیا غلط کہا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگی حیران و پریشان تھے کہ وہ اپنے قائد کا دفاع کیسے کریں۔ خود میاں نوازشریف کے برادرِ خورد کا بیانیہ بھی اپنے بھائی کے مؤقف سے مختلف تھا۔
چوہدری نثار علی خان نے بھی فوری طور پر سابق وزیر داخلہ کے حیثیت سے جو حقائق بیان کیے اُن سے میاں نواز شریف کے مؤقف کی تردید ہوتی تھی۔ البتہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے وہ باتیں جو میاں نواز شریف نے قدرے اشارۃًکہی تھیں برہنہ لفظوں میں بیان کردیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کو پاکستان میں ہی تربیت دی گئی تھی اور انہوں نے سرحد پار جا کر ممبئی پر حملہ کیا تھا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اور اس کے ساتھیوں کو پاکستان میں ہی ہر لحاظ سے سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جبکہ حکومت پاکستان کا مؤقف ابتدا سے اس کے قطعاً برعکس رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ سمیت بعض دیگر مسلم لیگی راہنماؤں کا یہ جواز پیش کرنا بلکہ خود میاں نواز شریف بھی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُنہیں جس بات پر غدار قرار دیا جارہا ہے۔
قابل گرفت سمجھا جارہا ہے۔ ماضی میں یہی باتیں جنرل (ر) پرویز مشرف، جنرل (ر) درانی اور دیگر شخصیات بھی کرتی رہیں ہیں۔ آخر انہوں نے ایسی کون سی نئی بات کہی ہے جس پر اتنی ہنگامہ آرائی ہورہی ہے۔ حالانکہ یہ سوال کرنے کی بجائے مسلم لیگ کے راہنماؤں اور خود میاں نوازشریف کو یہ بات خود سے پوچھنی چاہیئے۔ سوچنا چاہیئے کہ آخر پہلے سے کہی گئی بات جب انہوں نے دوہرائی تو اتنا طوفان کیوں آیا۔ بھارتی میڈیا نے پہلے تو کبھی ان باتوں پر اتنا شدید ردّعمل ظاہر نہیں کیا تھا آخر اس مرتبہ کیوں؟ اس کا ایک خاص پس منظر ہے میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
اُن کی اہمیت اور حیثیت اُن تمام لوگوں سے منصب کے اعتبار سے کمترہے جنہوں نے ماضی میں مبینہ طور پر ایسی باتیں کہیں۔ سابق وزیراعظم کی حیثیت سے یقیناً وہ اُن حکومتی اُمور اور رموز مملکت سے آگاہ ہیں جو دوسروں کے علم میں پوری جزئیات کے ساتھ نہیں ہوتے پھر ماضی کے مقابلے میں اس وقت بین الاقوامی منظر میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں اور مزید آنے والی ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرلیا گیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ جون میں پاکستان کو پابندیوں کی ’’ریڈ لسٹ‘‘ کا سامنا ہو۔ ایسی صورتحال میں سابق وزیراعظم کے متنازعہ بیانات ایسے اقدامات کے لیے فضا کو سازگار بناسکتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کردے گا۔
مودی نے بنگلہ دیش میںہونے والی ایک تقریب میں بڑے فخریہ انداز سے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ بنگلہ دیش بنانے میں ہمارے جوانوں کا خون بھی شامل ہے۔ وطن عزیز کے ایسے دشمنوں کے لیے اپنی سرزمین کے خلاف مواقع فراہم کرناکیسی حقیقت ہے۔ کون سی سچائی ہے۔ اس تجزئیے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ میاں نواز شریف اپنے حالیہ بیانیے سے بین الاقوامی سطح پر ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اُنہیں جو سزا مل رہی ہے وہ پاکستان کے بارے میں عالمی خدشات اور بیانیے کی حمایت کرنے کے باعث دی جارہی ہے اور اُن کا یہ مؤقف بالخصوص موجودہ صورتحال میں امریکہ کو خوش کرسکتا ہے لیکن یہ ساری صورتحال ایک ایسے وقت میں پیدا کی گئی ہے جب ملک میں عام انتخابات سر پر ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے بیانیے کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی یا توجہ حاصل ہوبھی جاتی ہے تو داخلی سطح پر حالات اُن کے حق میں جاتے دکھائی نہیں دیتے۔ غداری کے الزامات پر نواز شریف نے قومی کمیشن کے قیام کا جو مطالبہ کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ کمیشن میں دیگر شخصیات کو بھی بلانے کا مطالبہ کریں گے اور وہ حکومتی راز منکشف کریں گے جن میں عالمی اداروں اور حکومتوں کو دلچسپی ہو۔
نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد نواز شریف کے بیان کو غلط اورگمراہ کن قرار دیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کمیٹی کے اجلاس اور نواز شریف کی طرف سے اپنے بیان کا دفاع کرنے سے ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں خصوصی طور پر آکر ’’اپنے وزیراعظم ‘‘کی وکالت کرنے کی کوشش کی جسے اپوزیشن نے قطعی طور پر مسترد کردیا ۔ دوسری جانب میاں نواز شریف مسلسل اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ بعض حلقے میاں نواز شریف کے اس بیانیے اور ان کی جانب سے اس کے دفاع کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف نے یہ بیان دے کر نون لیگ پر سیاسی خود کش حملہ کر دیا ہے۔