• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں موجودہ حکومت کی 5 سالہ کارکردگی اور آنیوالی حکومت کو درپیش چیلنجز میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا جبکہ ’’قرضوں میں ناقابل برداشت اضافہ‘‘ اور ’’قرضوں پر قرضے‘‘ پر کئی کالم تحریر کئے تھے جس میں بتایا تھا کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھتا جارہا ہے جس کی ادائیگی آنیوالی حکومتوں کیلئے نہایت مشکل ہوگی اور آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینا ناگزیر ہوگا۔
قارئین! مختلف ادوارِ حکومت میں لئے گئے بیرونی قرضوں کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے پہلا غیر ملکی قرضہ 1950ء میں 145ملین ڈالرز کا پہلے پانچ سالہ منصوبے کیلئے لیا تھا جسکے بعد آئندہ پانچ سالہ منصوبوں کیلئے ہم ہر بار 57 ملین ڈالر سالانہ کے غیرملکی قرضے حاصل کرتے رہے۔ 1960ء میں یہ قرضے بڑھ کر 585ملین ڈالرز ہوگئے اور 1970ء تک قرضوں میں اضافے کا رجحان اسی طرح جاری رہا، اس طرح ہمارے بیرونی قرضے دگنے سے زیادہ ہوتے گئے۔ دسمبر1971ء میں غیرملکی قرضے3ارب ڈالرز تھے جو جون 1977ء تک 6.3 بلین ڈالر ہوگئے جسکے بعد پاکستان نے سالانہ ایک ارب ڈالرز قرضے لئے۔ 1979ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت نے 1984ء تک اوسطاً 1.6 ارب ڈالرسالانہ بیرونی قرضے حاصل کئے۔ جون 1998ء تک پاکستان نے مجموعی 40 بلین ڈالر کے غیرملکی قرضے اور 10.2 بلین ڈالر کی امداد حاصل کی۔ انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (IPPR) کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے 2015ء کی نسبت 2016ء میں 7.9 ارب ڈالرز اضافی قرضے لئے اور مارچ 2018ء میں ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم ریکارڈ 91.76 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ان بیرونی قرضوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1951ء سے 1955ء تک پاکستان کے بیرونی قرضے صرف 121 ملین ڈالر تھے تاہم 1969ء میں یہ قرضے بڑھ کر 2.7 ارب ڈالر اور 1971ء میں 3 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ 1977ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضے بڑھ کر دگنا یعنی 6.3 ارب ڈالر ہوگئے جس کے بعد بیرونی قرضے لینے کی روایت بن گئی اور 1990ء میں یہ قرضے بڑھ کر 21.9 ارب ڈالر جبکہ 2000ء میں 35.6 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی قرضے 2016ء میں 72.98 ارب ڈالر اور اب مارچ 2018ء میں 91.76 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے 2.75 ارب ڈالر کے سکوک اور ڈالر بانڈز بھی جاری کئے جن کی ادائیگیاں 2019ء، 2025ء اور 2036ء میں کرنا ہیں جس میں سے ایک ارب ڈالر کی 6.75 فیصد شرح منافع پر اپریل 2019ء میں، 500 ملین ڈالر کی 8.25 فیصد شرح منافع پر 30 ستمبر 2025ء میں اور 500 ملین ڈالر کی 7.875 فیصد شرح منافع پر 31 دسمبر 2036ء کی ادائیگیاں ہیں۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے رواں مالی سال حکومت نے 2.5 ارب ڈالر کے 5 سالہ (5.625 فیصد شرح منافع) اور 10 سالہ (6.875 فیصد شرح منافع) یورو اور سکوک بانڈز کا اجرا کیا ہے اور ایک ارب ڈالر کے مزید بانڈز کے اجراکا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے اپنے موٹرویز گروی رکھے ہیں۔ گزشتہ سال 3500 ارب روپے کے مجموعی ریونیو میں سے حکومت نے 1360 ارب روپے مقامی اور بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی جو ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ قرضوں کی حد کے قانون (FRDLA) کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے اس سے بھی تجاوز کرگئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے جون 2013ء میں جب حکومت سنبھالی تھی تو ہمارے قرضے 60.9 ارب ڈالر تھے جو مارچ 2018ء میں بڑھ کر 91.76 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں اور اس طرح مسلم لیگ (ن) حکومت کے پانچ سالوں میں بیرونی قرضوں (EDL) میں 30 ارب ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ جون 2018ء تک یہ قرضے بڑھ کر 93 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق حکومت نے بیرونی ذخائر کو سہارا دینے کیلئے 2 ارب ڈالر کا چین سے سوفٹ ڈپازٹ حاصل کیا ہے۔ معروف اقتصادی ماہر اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کے بقول صرف ایک سال 2016-17ء میں حکومتی قرضوں کا حجم 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 3 ارب ڈالر، پیرس کلب میں شامل ممالک نے 5 ارب ڈالر اور چین نے اپنے تجارتی بینکوں کے ذریعے سی پیک کے مختلف منصوبوں کیلئے اب تک 1.6 ارب ڈالر فراہم کئے ہیں۔ پاکستان کو آنے والے مالی سال میں ایکسٹرنل فرنٹ پر تقریباً 19 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں 14 ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارے اور5 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں درکار ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے آئندہ پانچ سالوں 2023ء تک بیرونی قرضوں کا تخمینہ 144 ارب ڈالر اور سالانہ قرضوں کی ادائیگی 19.7 ارب ڈالر لگایا ہے جو 2018ء میں 7.7 ارب ڈالر ہے۔ اس موقع پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے سی پیک کے انفرااسٹرکچر پروجیکٹس کی وجہ سے قرضوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ستمبر 2017ء تک پاکستان کے مجموعی بیرونی اور مقامی قرضے 25.817 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ ہمارا بیرونی قرضوں کی اوسطاً شرح سود 6.3 فیصد اور مقامی قرضوں کی 8.2 فیصد ہے۔ مقامی قرضوں میں اسٹیٹ بینک، کمرشل بینک، نیشنل سیونگز اسکیم، انعامی بانڈز شامل ہیں جبکہ بیرونی قرضوں میں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB)، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک (IDP)، یورو اور سکوک بانڈز شامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق حکومت نے گزشتہ 10 مہینوں میں 11 مئی تک 2 کھرب روپے کے مقامی قرضے لئے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنے ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں بری طرح پھنستا جارہا ہے۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46,000 روپے، 2013ء میں 61,000 روپے اور 2018ء میں ایک لاکھ 36 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ حال ہی میں نئی ایمنسٹی اسکیم بجٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں منظور ہوئی ہے۔ یہ حکومت کی پہلی اسکیم ہے جس میں بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے یا وطن واپس لانے کیلئے مراعات دی گئی ہیں اور امید ہے کہ اس اسکیم کے تحت حکومت کو تقریباً 5 ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ بیرونی اثاثوں کو ظاہر کرنے کی صورت میں حکومت کو ایک خطیر رقم ٹیکس کی مد میں مل سکتی ہے۔ سیاستدان اور حکومتی عہدہ رکھنے والے اشخاص اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ پاکستانی ایمنسٹی اسکیم انڈونیشین ماڈل سے لی گئی ہے جس سے انڈونیشیا کو 100ارب ڈالر حاصل ہوئے تھے۔ بھارت نے بھی بیرونی اثاثوں اور انکم کو قانونی بنانے کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس سے 64ہزار افراد 10ارب ڈالر ظاہر کرکے اپنے اثاثے قانونی بناچکے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کیلئے بھی یہ نادر موقع ہے کہ بزنس مینوں کا اعتماد بحال کرکے اس اسکیم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان منتقل کرایا جائے جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اسکیم سے حاصل کردہ زرمبادلہ سے ایک واضح حکمت عملی کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضوں کی ادائیگی کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین