تحریر۔سمترا چوہدری
ترجمہ۔ شبنم شکیل
امرتا اس مٹی سے بنی ہوئی ہے، جس سے رومانی باغیوں کا خمیر اٹھتا ہے۔ ایک تنہا بچپن، ایک کرب زدہ جوانی اور پھر شدید جذباتی جھکڑوں سے مرتعش دل کی نسوانیت، ایک شاعرہ اور ناول نگار کی حیثیت سے امرتا پریتم ان تمام تجربات کو من وعن صفحۂ قرطاس پر اتارنے پر اعتقاد رکھتی ہے، جو اسے پیش آئے۔ وہ زندگی کے لئے شدید جذبات کے گہرے رنگوں میں سر سے پیر تک سرشار ہے۔ ایک عجب ساکرب ہر دم اس کے وجود کا احاطہ کئے رہتا ہے، اور جب یہی کرب پگھلے ہوئے لاوے کی طرح اس کی تحریروں میں اپنا راستہ تلاش کرلیتا ہے تو دل کا درد ذرا دیر کو تھمتا ہے، مگر پھر دوبارہ سر اٹھاتا ہے، فرسودہ مذہبی بنیاد پرستی پر اس بے لاگ تنقیدی نظریات کی وجہ سے اس پر غیر شائستہ ہونے کی مہر ثبت کی جاتی ہے۔ اس کی چیختی ہوئی دیانت کی وجہ سے اسے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے، مگر ان سب باتوں سے بے نیاز امرتا کی زندگی ایک ایسی کھلی کتاب کی طرح ہے، جس میں صداقتوں کی خوبصورتی ہے۔ اس کی خود نوشت سوانح’’ رسیدی ٹکٹ‘‘ اور امرتا کی زندگی اور اس کا عہد‘‘ ایسی کتابیں ہیں کہ جن کے جھروکے سے آپ اس کی زندگی میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں کہ اس نے کس آدمی سےپیار کیا ، کیسے کیسے خواب دیکھے، کون کون سی خواہشوں کی آگ میں اندر ہی اندر سلگتی رہی۔75کتابوں کی مصنفہ امرتا کو ، جینا پتھ اور ساہتیہ جیسی قابل احترام اکیڈمیوں کی طرف سے ایوارڈوں سے نوازا جاچکا ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں نے اسے اعزازی ڈگریاں بھی دی ہیں، مگر ان تمام اعتراضات کے باوجود ایک درد ہے کہ تھمتا ہی نہیں۔ تب وہ شام کے دھندلکے میں دوبارہ اپنا قلم اٹھاتی ہے اور اپنے اس انجانے خلا کو بھرنے کے لیے اسی شدت سے پھر لکھنا شروع کردیتی ہے۔ جانتی ہے کہ سکون باہر کی دنیا سے ملنے والے ان اعترافی اعزازات میں نہیں۔ روحانی خلا کی اس گہری خندق کو بھرنے کے لئے تخلیقی اظہار کی ضرورت ہے۔ ستمرا چوہدری کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت اس نے کیسی کی یہ اس کی زبانی سنئے:
ایک فنکار ہونے کے ناتے ادیب کا منصب
ادیب وہ ہےکہ جواپنی زندگی اور اپنی تحریر کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ اپنی ذات کی تمام ممکنات کی کھوج لگاتا ہے اور پھر اسے معاشرے کو دے دیتا ہے وہ دینے والوں میں سے ہے۔ ہم سب لوگ جسمانی سطح پر زندھ ہیں۔ جب کہ ہم جسمانی ، ذہنی اور روحانی طاقت کو یکجا نہیں کرتے۔ ہماری نجات ممکن نہیں۔ خاص طور پر ایک ادیب کے لئے اپنے وجود کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور مطابقت کا امتزاج بہت ضروری ہے۔ اسے باطنی ثمر کے ساتھ ہی پھلنے پھولنے اور پختہ ہونے کی ضرورت ہے۔میں خود اپنی زندگی میں اس امر کے حصول کے لئے کوشاں ہوں۔ مکمل ہم آہنگی اور مطابقت کی اس خوبصورتی کا ابلاغ ضروری ہے۔ تجربے اور اس کے اظہار کے مابین بعدو تفاوت نہ ہو۔ زندگی کلی طور پر برتنے کی چیز ہے جزوی طور پر نہیں۔
فن اور اخلاقیات مادیت پرستی کے اس دور میں فن کے نام پر عامیانہ سوچ اور اسکینڈلز کی دلالت کی جارہی ہے۔ ایسے ہی ، جیسے مذہب کی آڑ میں لوگ قتل وغارت اور تشدد کی دلالت کرتے ہیں۔ یہ مایوس کن اور خطرناک رحجان ہے۔ جنس، بذات خود ایک بہت خوبصورت چیز ہے، مگر کسی تحریر میں اس وقت عامیانہ اور عریاں نظر آتی ہے، جب خود لکھنے والے، کے کچھ ’’ درپردہ عزائم‘‘ ہوتے ہیں۔ کتاب اپنے مقصد کا اظہار ایسے کرتی ہے ، جیسے پھول اپنی مہک سے ۔ روح کی مہک اپنا تعارف خود ہوتی ہے۔ کسی فن پارے کو تخلیق کرتے ہوئےاگر ادیب خود اپنی ’’ اعلیٰ ذہنی کیفیت‘‘ میں لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کا قاری ایک ’’ اعلیٰ ذہنی تجربے‘‘ سے گزرتا ہے تو پھر عریانیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک ادیب کا نصیب العین یہ ہے کہ اس کی تحریریں اس کی ذات کا مظہر ہوں، مگر اس امر پروہ کتنا قادر ہے، اس کا فیصلہ اس کی تحریر ہی کرسکتی ہے۔
مذہب:۔میں مذہب اور دھرم کو الگ الگ سمجھتی ہوں۔ دھرم نام ہے روحانیت کا اور مذہب روحانیت کو ایک آئینی ادارے میں ڈھالنے کا ۔ خدا کسی خارجی طاقت کا نام نہیں، وہ آپ کے وجود کا حصہ ہے، میں اس بات کی قائل ہوں کہ خدا باطن میں موجود ہوتا ہے، اور یہ کہ ہر خوبصورت چیز میں خدا ہے۔
آزادی:۔خواہ مرد کے لئے ہو یا عورت کے لئے، کلی اور قطعی آزادی نام کی کوئی چیز یہاں نہیں ہے۔ جہاں ایک سطح پر عورت کا استحصال کیا جارہا ہے ، وہاں ایک اور سطح پر مرد کا استحصال بھی ہورہا ہے۔ ازادی کسی خارجی رشتے کا نام نہیں۔ یہ خود اپنے ساتھ ہم آہنگی اور مطابقت کے امتزاج کا نام ہے، جس کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ اسے خود اپنے آپ سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ہم عصر ادیب خواتین:۔آج کی ادیب عورت کے پاس بہت آگہی ہے، شعور ہے، جو اس کی تحریروں میں منعکس ہوتا ہے۔مجھے ایک ایسی عورت یاد آرہی ہے کہ جس کے بارے میں ، میں نے ’’ ایک تھی سارہ‘‘ ناول لکھا تھا ۔
سارہ شگفتہ تیس سالہ پاکستانی شاعرہ تھی، جسے میں اس حوالے سے ایک مثال تصور کرتی ہوں۔ وہ اپنی نظمیں مجھے بھیجا کرتی تھی ۔ میں محض دومرتبہ اسے ملی تھی ۔ پھر 1984میں اس نے خود کشی کرلی ۔ وہ بے انتہا شعور کی مالک تھی اور ہمارا معاشرہ یقیناً ایسی عورت کے مستحق ہونے کے قابل ہی نہ تھا ۔ میں نے اس کی نظموں اور دو ملاقاتوں کی بنیاد پر یہ ناول لکھا۔
اپنے شہر کی بات:۔دہلی تقسیم کے وقت سے میرا شہر ہے بعض اوقات مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس شہر کی تاریخ بالکل میری ہی طرح ہے۔ مختلف حکمرانوں کی عنایت ہے۔ ’’یہ نگر سومرتبہ لوٹا گیا‘‘ مگر ہر مرتبہ ازسرنو اپنے پاوں پر کھڑا ہوگیا ۔ پھر سے پھلنے پھولنے کے لئے ۔ بالکل اسی طرح میں بہت سی چیزوں سے دل برداشتہ ہوکر اپنے آپ کو ایک کھنڈر کی طرح محسوس کرتی ہوں مگر پھر میری اندرونی طاقت میرا کھویا ہوا اعتماد بحال کر دیتی ہے۔
قاری اور ادیب کا رشتہ:۔ادیب کےمحسوسات کا مکمل ابلاغ ایک خوش آئند چیز ہے۔ ادیب اپنے پڑھنے والوں کوا پنی زرخیزی طبع میں شریک کرتا ہے، لیکن وہ ہمیشہ قاری کوذہن میں رکھ کرنہیں لکھتا، وہ صرف اسے شریک کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ہمدردیوں کی توقع بھی نہیں رکھتا اور نہ اپنی رائے ان پر ٹھونستا ہے۔ اس کی تحریریں اس کے اندر کھلے ہوئے گلزار کی طرح ہوتی ہیں، جس کے پھولوں کی مہک وہ ہر طرف پھیلاتا ہے۔ قاری اہم ہے، مگر اس سے زیادہ اہم وہ باطنی تسکین ہے کہ جو مکمل ابلاغ سے ادیب کوحاصل ہوتی ہے۔ دولت، شہرت ، طاقت اور شناخت وہ ہتھیارہیں، جن سے لوگ اپنی شبیہ تراشتے ہیں، اس پر نقاشی کرتے ہیں، لیکن اگر ان ہتھیاروں کو سنبھالنے کی صلاحیت نہ ہو ہوتو معاملہ اس کے برعکس ہوسکتا ہے اور خود ہی اپنا بت پاش پاش ہوسکتا ہے۔ لوگ اپنی ظاہری شبیہ پر بہت توجہ دیتے ہیں، مگر میں اپنی باطنی شبیہ کو زیاد اہم سمجھتی ہوں کئی مرتبہ یہ شبیہ مجھے کچھ مایوس بھی کردیتی ہے، مگر میں اسے بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتی ہوں اور اس کے لئے حوصلہ بھی مجھے اپنے باطن سے ہی ملتا ہے۔ جب میں اپنی پوری زندگی پر نظر ڈالتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا کوئی ایک بھی ایسا تجربہ نہیں ہے جس پر اب مجھے پچھتاوا ہو بقول فیض
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
میری شخصیت جواس وقت ہے اس کی تطہیر کے لئے ہر تجربہ اپنی اپنی جگہ انتہائی ضروری تھا۔