صحافی، مفکّر، مصنّف، مصلح، مترجم ، مفسّر،محقق، ماہرِ لسانیات، سفارت کار اور سیّاح ، علاّمہ محمد اسد کا شمار بیسویں صدی کے نہایت متاثر کُن یورپی مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں منظرِ عام پر آنے والی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف، ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ سے عالمی شُہرت حاصل کرنے والے محمد اسد 12جولائی 1900ء کولیم برگ، گلیشیا کے ایک متموّل یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تب یہ قصبہ آسٹرو، ہنگیرین سلطنت کا حصّہ تھا اور آج یوکرین میں شامل ہے۔ ان کا پیدائشی نام لیوپولڈ ویز تھا۔ دادا، بن یامین ویز ربّی اور والد، اکیوا ویز وکیل تھے، جب کہ والدہ، مالکا ایک دولت مند مقامی بینکر کی صاحب زادی تھیں۔ محمد اسد کا گھریلو نام ’’پولڈی‘‘ تھا۔ ان کا بچپن تورات، تفسیرِ تورات، عہدنامۂ عتیق اور تالمود سمیت یہودیت کی دیگر کُتب کا مطالعہ کرتے گزرا۔وہ محض 13برس کی عُمر میں روانی کے ساتھ عبرانی نہ صرف پڑھ سکتے تھے، بلکہ بول بھی لیتے تھے۔ گرچہ یہودی تعلیمات کے مطالعے سے انہیں مذہب کے بنیادی مقصد کو سمجھنے میں مدد ملی، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہودیت سے دُور بھی ہوتے چلے گئے۔ تاہم، ان کا روحانی سفر جاری رہا۔ 1918ء میں انہوں نے یونی ورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن جوں جوں تعلیمی سلسلہ آگے بڑھتا گیا، اُن کے لیے یونی ورسٹی کی کشش کم ہوتی گئی۔ سو، 1920ء میں انہوں نے اپنے والد کی آرزوئوں، اُمنگوں کے برخلاف صحافت کو اپنا ذریعۂ معاش بنانے کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور وہاں ایک خبر رساں ادارے سے وابستہ ہو گئے۔ محمد اسد کے مغرب سے مشرق کی جانب سفر کا آغاز 1922ء میں ہوا، جو بعدازاں اُن کے قبولِ اسلام کا سبب بنا۔
1922ء کی ابتدا میں محمد اسد یروشلم میں مقیم اپنے ماموں، ڈوریان کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے۔ ڈوریان کا گھر ’’بابِ جحفہ‘‘ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک قدیم شہر میں تھا، جہاں انہیں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر باہر سے آنے والے صیہونیوں کے غلبے پر سخت معترض اور عربوں سے قُرب محسوس کرتے تھے۔ یروشلم میں انہوں نے عربوں کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی اور جلد ہی فلسطینیوں کے ہم درد کے طور پر مشہور ہو گئے۔ اس موقعے پر انہیں صیہونیت کے مخالف ولندیزی شاعر و صحافی، جیک اسرائیل ڈی ہان کی معاونت بھی حاصل رہی، جنہیں 1924ء میں قتل کر دیا گیا۔ ڈی ہان نے ملازمت کی تلاش اور 1923ء میں اُردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات میں بھی انہیں مدد فراہم کی، جو ان کی اپنی زندگی میں کسی عرب ریاست کے سربراہ سے پہلی ملاقات تھی۔ بعد ازاں، محمد اسد فلسطین میں جرمن اخبار، فرینکفرٹر زائتونگ کے نمایندے بن گئے اور صیہونیت کے خلاف اور عربوں کی قوم پرستی کے حق میں لکھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے 1924ء میں اسی موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا، جو جرمن اخبار کی انتظامیہ کو اس قدر پسند آیا کہ انہیں مزید سفر کے ذریعے معلومات جمع کر کے ایک مکمل کتاب تحریر کرنے کی ذمّے داری سونپی گئی۔ یہ سفر دو برس جاری رہا۔ مصر کے دارالحکومت، قاہرہ میں قیام کے دوران وہ ذہین و فطین عالمِ دین اور مصلح، شیخ مصطفیٰ المراغی کی، جو بعدازاں جامعہ الازہر کے ریکٹر بھی بنے، شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب کے دعوئوں کے برعکس مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب اسلام نہیں، بلکہ اسلام کو سمجھنے میں غلطی کرنا ہے اور اگر جدید زمانے کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی دُرست تشریح کی جائے، تو یہ مسلمانوں کو رُوحانی غذا فراہم کرتے ہوئے انہیں آگے لے جا سکتا ہے، جو عیسائیت اور یہودیت فراہم نہیں کر سکتیں۔ بعد ازاں، محمد اسد نے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا کا سفر کیا اور ان علاقوں میں اسلام کی اَن گنت اشکال نے انہیں اس مذہب کا مزید گرویدہ بنادیا۔
سفر کے اختتام پر وہ اپنی کتاب لکھنے کے لیےفرینکفرٹ، جرمنی پہنچے، جہاں انہوں نے خود سے 15برس بڑی اور بیوہ جرمن خاتون، ایلسا سے شادی کی۔ گرچہ اب زندگی پُر سکون ہو گئی تھی، لیکن اُن کے دِل و دماغ میں ایک جنگ سی چِھڑچُکی تھی ۔ نتیجتاً، وہ اپنی پوری داستانِ سفر صفحۂ قرطاس پر منتقل نہ کر سکے۔ دریں اثنا، کسی معاملے میں اُن کا فرینکفرٹر زائتونگ کے مدیر سے جھگڑا ہو گیا، جو اُن کے استعفے پر منتج ہوا۔ پھر وہ برلن منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطالعے کے ساتھ چھوٹے اخبارات کے لیے لکھنا شروع کیا۔ محمد اسد کے دِل و دماغ میں بابِ جحفہ کے مظلوم عربوں کی یاد اب بھی تازہ تھی اور انہیں مغرب کی مادّی کام یابیوں اور خوش حالی کے باوجود مغربی عوام کے چہرے بے رُوح اور مسکان سے عاری دکھائی دیتے تھے۔ اسی کشمکش میں وہ ایک روز اپنے فلیٹ میں داخل ہوئے اور قرآنِ پاک کا مطالعہ شروع کر دیا۔ قرآن پڑھتے پڑھتے وہ سورۃ التّکاثر کی ان آیات پر پہنچ کر رُک گئے کہ’’(لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا ۔یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔ پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔ دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے) ۔ تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔‘‘ یہ آیات پڑھتے ہی قرآن کے الہامی کتاب ہونے سے متعلق اُن کے تمام شکوک و شبہات دُور ہو گئے ۔ وہ فوراً برلن اسلامک سوسائٹی کی جانب روانہ ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ بعد ازاں، انہوں نے بہ ذریعہ خط، اپنے والد کو قبولِ اسلام کی اطلاع دی، لیکن اُن کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ تاہم، اس واقعے کے بعد اُن کی ہم شیرہ نے اپنے خط میں انہیں بتایا کہ وہ والد کے لیے مَر چُکے ہیں، جب کہ جوابی خط میں محمد اسد کا کہنا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد والد کے لیے اُن کے رویّے میں کوئی تبدیلی اور محبت میں کمی نہیں آئی، بلکہ اسلام تو والدین سمیت تمام انسانوں کی عزّت کا درس دیتا ہے، لیکن اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ چند ہفتے بعد ان کی اہلیہ، ایلسا نے بھی اسلام قبول کر لیا اور جنوری 1927ء میں دونوں، ایلسا کے پہلے شوہر سے ہونے والے بچّے کے ساتھ حج کے لیے مکّہ روانہ ہوئے۔ ادائیگیٔ جج کے 9روز بعد ان کی اہلیہ انتقال کر گئیں اور ایک سال بعد اُن کے والدین نے بچّے کو واپس لے لیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد محمد اسد 6برس تک سعودی عرب میں مقیم رہے ۔ یہ عرصہ انہوں نے بادشاہ، عبدالعزیز ابنِ سعود کے مقرّب کی حیثیت سے شاہی محل کی سیاست کو قریب سے دیکھتے اور مدینہ میں مذہبی تعلیم حاصل کرتے گزارا۔ ان کی ابنِ سعود سے گہری وابستگی کی تصدیق 1928ء میں عبداللہ دملوجی نامی عراقی باشندے کی، جو بادشاہ کے مُشیر بھی رہے تھے، ’’ حجاز میں بالشویک اور سوویت نفوذ‘‘ سے متعلق برطانیہ کو بھیجی گئی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے ۔ نیز، اس رپورٹ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ محمد اسد کو مُشیر کی بہ جائے ایک خصوصی شاہد کا رُتبہ حاصل تھا اور ابنِ سعود نے انہیں اس لیے اپنے اندرونی حلقے میں رسائی دے رکھی تھی کہ وہ ایک نو مسلم کے طور پر یورپ کے مختلف اخبارات کے لیے اُن کی تعریف و توصیف پر مبنی مضامین تحریر کرتے تھے۔1929ء میں ابنِ سعود نے انہیں سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے فیصل الدویش کو ملنے والے فنڈز اور ہتھیاروں کا پتا لگانے کے لیے کویت بھیجا۔ محمد اسد نے سعودی عرب میں دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی 1928ء میں مطیر قبیلے سے تعلق رکھنے والی لڑکی اور اسے طلاق دینے کے بعد 1930ء میں دوسری شادی شَمّر قبیلے کی ایک شاخ سے تعلق رکھنے والی مُنیرہ نامی خاتون سے کی۔ انہوں نے مدینہ میں سکونت اختیار کی اور وہاں مُنیرہ کے بطن سے اُن کے بیٹے، طلال نے جنم لیا۔ خیال رہے کہ طلال اسد اس وقت ممتاز بشریات دان ہیں۔
محمد اسد کو سر زمینِ عرب سے ایک خاص اُنسیت تھی۔ وہ اسے اپنے آباء کا وطن اور اپنے اجداد کو عبرانیوں کا ایک چھوٹا سا بدوی قبیلہ قرار دیتے تھے۔ اُن کی شدید خواہش تھی کہ ابنِ سعود اس سر زمین پر اسلامی معاشرے کا احیا کریں اور انہوں نے بادشاہ سے اپنی اس تمنّا کا اظہار بھی کیا، مگر انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا اور پھر انہوں نے اپنی امیدیں سنوسی تحریک سے وابستہ کر لیں۔ وہ جنوری 1931ء میں سیّد احمد کا، جو تب سعودی عرب میں جِلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، اطالوی فوج کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا منصوبہ لے کر خفیہ مِشن پر برقہ میں موجود سنوسی فورسز کے پاس بھی گئے تھے، لیکن اُن کی یہ کوشش بھی رائیگاں گئی اور اگلے برس ہی اطالوی فوج نے آخری سنوسی مزاحمت کو کُچل دیا۔ گرچہ محمد اسد کا کہنا تھا کہ انہوں نے بادشاہ سے وابستہ اپنی توقّعات پوری نہ ہونے کے سبب ابنِ سعود سے قطعِ تعلق کر لیا تھا، لیکن بعض افراد یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اُن کی سعودی عرب میں دوسری شادی اپنے ساتھ زوال لے کر آئی کہ اُن کی اہلیہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پر بادشاہ کے خلاف سازش کا الزام عاید کیا گیا، جب کہ بعض افراد کا یہ ماننا ہے کہ 1929ء میں فلسطین میں عرب، یہودی تنائو تشدّد میں بدلنے کے بعد وہ اپنے یہودی پس منظر کی وجہ سے بادشاہ کے لیے بوجھ بنتے جا رہے تھے۔ تاہم، یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے ہندوستان، تُرکستان، چین اور انڈونیشیا کے سفر کے عزم کے ساتھ 1932ء میں سعودی عرب کو خیر باد کہہ دیا۔
محمد اسد نے ہندوستان کے سفر کا آغاز لیکچر ٹورسٹ کے طور پر کیا۔ اس بارے میں برطانوی خفیہ اداروں کے ذرایع کا کہنا ہے کہ انہوں نے امرت سَر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکُن، اسمٰعیل غزنوی سے رابطہ کیا اور اُن سے ہندوستان کے تمام اہم افراد سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ جون 1932ء میں ایک بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے اور فوری طور پر امرت سَر روانہ ہو گئے۔ امرت سَر اور اس کے پڑوس میں واقع، لاہور میں وہ مقامی کشمیری مسلمانوں سے گُھل مل گئے ۔ وہ 1933ء میں سری نگر میں دیکھے گئے اور برطانوی خفیہ اداروں نے اپنی رپورٹ میں انہیں وہاں بالشویک نظریات پھیلانے میں ملوّث قرار دیا۔ تاہم، اسد کی کشمیر میں دِل چسپی کا بنیادی سبب یہاں کی مضطرب مسلمان آبادی پر برطانوی حکومت کے حمایت یافتہ مہاراجہ کی حُکم رانی تھی۔ 1931ء میں پنجاب میں مُقیم کشمیری النّسل مسلمانوں نے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں مظاہروں کا آغاز کیا۔ اس دوران مسلمان رضاکاروں کے سیکڑوں جتھّے غیر قانونی طریقے سے پنجاب سے کشمیر میں داخل ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1932ء کے آغاز میں افراتفری ختم ہو گئی،لیکن کشمیری حکومت پھر بھی چوکنّا رہی۔ گرچہ کشمیر میں محمد اسد کی سرگرمیوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن ان کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی کشمیری حکومت انہیں فوراً دیس نکالا دینے پر تُل گئی ، لیکن مقامی پولیس کے پاس برطانوی خفیہ اداروں کی رپورٹ کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا، جو یورپی قومیت رکھنے والے شخص کو جِلا وطن کرنے میں ایک قانونی رُکاوٹ تھی۔
محمد اسد جلد ہی کشمیر سے لاہور آ گئے اور یہاں کشمیری النّسل شاعر و فلسفی، علاّمہ محمد اقبال سے ملے، جنہوں نے انہیں ہندوستان میں رہتے ہوئے مستقبل کی اسلامی ریاست کی حدودِ دانش وضع کرنے کی ترغیب دی۔ 1934ء میں محمد اسد نے ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شایع کیا، جو اسلامی فکر کے حوالے سے ان کا پہلا جرأت مندانہ کام تھا۔ اس کتابچے کو مغرب کی مادّہ پرستی کے خلاف ایک ہجو قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں اس میں اسلام اور مغربی تہذیب کو ایک دوسرے کے بر خلاف قرار دیا، جسے اسلامی دُنیا میں بے حد پزیرائی ملی۔ انہوں نے صلیبی جنگوں اور جدید سامراجیت کے درمیان ایک درمیان ایک لکیر کھینچی اور مغربی مستشرقین کو اسلامی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ذمّے دار ٹھہرایا۔ بعد ازاں، محمد اسد کے اس کتابچے کے پاکستان اور بھارت میں کئی ایڈیشنز شایع ہوئے۔ تاہم، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ 1946ء میں بیروت میں عربی ترجمے کے ساتھ منظرِ عام پر آیا اور 1940ء اور 1950ء کی دہائی میں عربی عنوان، ’’ الاسلام علیٰ مفترق الترق‘‘ کے متعدد نسخے شایع ہوئے۔ اس عربی ترجمے کی معروف اسلامی نظریہ ساز، سیّد قطب کی ابتدائی تحریروں پر ایک واضح چھاپ نظر آئی، جنہوں نے محمد اسد کے نظریات کو آگے بڑھایا۔ 1936ء میں حیدر آباد، دکن کے نظام نے ان کی سرپرستی میں ’’ اسلامی ثقافت‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا۔ اس روزنامچے کے پہلے مدیر، اسلام قبول کرنے والے انگریز، محمد مارمدوک پِکتھل تھے۔ قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے سے شُہرت حاصل کرنے والے پِکتھل کا انتقال 1936ء میں ہوا اور ان کی موت کے بعد محمد اسد نے مذکورہ اخبار کی ادارت سنبھالی۔ ’’اسلامی ثقافت‘‘ کی ادارت سنبھالنے کے نتیجے میں اسد کو مستشرقین اور ہندوستانی مسلمان علماء کی رفاقت میسّر آئی اور انہوں نے خود بھی عالمانہ تحریریں لکھنا اور متن ترجمہ کرنا شروع کیے۔
اپنے بیٹے کے اسلام قبول کرنے کے اسباب سمجھنے اور قبول کرنے کے بعد 1935ء میں محمد اسد کے اپنے والد کے ساتھ روابط بحال ہوئے۔ گرچہ اُن کی آپس میں ملاقات کبھی نہیں ہوئی، لیکن 1942ء تک دونوں میں خط و کتابت جاری رہی۔ تاہم، خطرات سے دوچار اپنے خاندان کو بچانے کے لیے وہ 1939ء کے موسمِ بہار میں یورپ واپس گئے۔مارچ 1938ء میں نازی جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا تھا اور اکتوبر 1938ء میں محمد اسد نے ’’اسلامی ثقافت‘‘ کی ادارت سے مستعفی ہونے کے بعد ہندوستان چھوڑ دیا۔ لندن پہنچنے کے بعد انہوں نے ویزے میں توسیع کی درخواست دی اور 1939ء کے موسمِ گرما میں ہندوستان واپسی سے قبل اپنے خاندان کی جان بچانے کی کوشش کی۔ جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے بعد ستمبر 1939ء میں برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور دشمن مُلک کا شہری ہونے کے ناتے محمد اسد کو فوری طور پر ہندوستان میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے مختلف حراستی کیمپوں میں اُن جرمن، آسٹریائی اور اطالوی باشندوں کے ساتھ اگلے 6برس گزارے، جنہیں ایشیا کے مختلف علاقوں سے جمع کیا گیا تھا۔ انہیں اگست 1945ء میں جیل سے رہا کیا گیا، جب کہ اس سے قبل 1942ء میں اُن کے والد، سوتیلی ماں اور ایک بہن کو ویانا سے بے دخل کر دیا گیا اور حراستی کیمپوں میں اُن کی موت واقع ہوئی۔
حراستی کیمپ میں موجود قیدیوں کے درمیان محمد اسد واحد مسلمان تھے،جنہوں نے خود کو اپنے گرد و پیش اور جنگ سے بالکل لاتعلق رکھا اور مسلمانوں کی ثقافتی بد نظمی پر متفکّر رہے۔ انہوں نے یورپ کی جنگ کو کبھی بھی اپنی لڑائی نہیں سمجھا اور نہ ہی یہودیوں کی مشکلات کو اپنے لیے باعثِ آزار جانا اور بڑی استقامت کے ساتھ اپنے اسلامی تشخّص سے وابستہ رہے۔ رہائی حاصل کرنے کے بعد محمد اسد حصولِ پاکستان کے مقصد سے جُڑ گئے، جسے وہ جائے پناہ کی بہ جائے ایک مثالی اسلامی مملکت کے لیے ڈھانچے کے طور پر دیکھتے تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد محمد اسد، نئی ریاست میں محکمۂ اسلامی تعمیرِ نو کے ڈائریکٹر بن گئے اور نئی مملکت کے آئین کی خاطر تجاویز کی تشکیل کے لیے خود کو وقف کر دیا ۔ ان تجاویز میں اُن کا مقصد واضح نظر آتا ہے۔ وہ ایک ایسی آزاد خیال اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے کہ جہاں کثیر الجماعتی پارلیمانی جمہوریت رائج ہو، جب کہ 1930ء اور 1940ء کی دہائی میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ جو جمہوریت کی متضاد اور وسطی یورپ کی مطلق العنان ریاستوں کے مماثل تھی۔ محمد اسد نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انتخابات، پارلیمانی قانون سازی اور سیاسی جماعتوں سے متعلق دلائل تلاش کر کے اس رُجحان کو للکارا، لیکن مارچ 1948ء میں ’’اسلامی قانون سازی‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی ان کی تجاویز پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں اُن کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان نے اقبال اور ان کی اُمنگوں کے مطابق کام نہیں کیا ۔ پاکستان مسلمانوں کی ریاست تو بن گیا، لیکن اس کے سیکولر بانیوں نے اس کے اسلامی ریاست کے مقصد کو پس پُشت ڈال دیا۔ 1949ء میں محمد اسد نے پاکستان کے محکمۂ خارجہ میں شمولیت اختیار کی اور وزارتِ خارجہ میں مشرقِ وسطیٰ ڈویژن کے سربراہ کے عُہدے تک پہنچے۔ بعدازاں، برِصغیر میں مسلسل 20سال تک اقامت پزیر رہنے کے بعد 1952ء کے آغاز میں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے ایک بااختیار وکیل کے طور پر نیویارک روانہ ہوگئے۔
محمد اسد کی مغرب میں واپسی کے نتیجے میں ان کی شُہرت اور اسلام سے قُربت میں اضافہ ہوا۔ وہ مین ہٹن میں ایک کمرے میں تنہا رہتے تھے، جہاں ایک ملازم ان کی خدمت کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔ یہاں وہ پولش کیتھولک خاندان سے تعلق رکھنے والی پولا حمیدہ نامی خاتون کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ اب مُنیرہ سے اُن کا بندھن ٹوٹ چُکا تھا اور انہوں نے نومبر 1952ء میں نیویارک میں ایک سول جج کے سامنے پولا حمیدہ سے شادی کی اور اپنی زندگی کے اگلے 40برس ان ہی کے ساتھ گزارے۔ نیویارک آمد کے بعد محمد اسد نے اسرائیل میں مُقیم اپنے خاندان سے دوبارہ روابط قائم کیے ۔ تب حمیدہ اپنے پہلے شوہر، ہیری زِنڈر کے ساتھ، جو اسرائیل کے دفترِ اطلاعات میں پہلے پریس آفیسر تھا اور بعد میں وائس آف اسرائیل کا ڈائریکٹر بنا، نیویارک میں مقیم تھی۔بعدازاں، زِنڈر نے ایک اسرائیلی صحافی کو بتایا کہ کس طرح محمد اسد نے اس کے ساتھ مختلف ریستورانوں میں کھانا کھایا اور فورسٹ ہِلز میں واقع اس کے گھر بھی گئے۔ حتیٰ کہ محمد اسد نے زِنڈر کے بیٹے کے بالغ ہونے کی تقریب میں بھی شرکت کی اور زِنڈر، پولا حمیدہ کے ساتھ ان کی شادی کی تقریب میں بھی شریک ہوا۔ زِنڈر نے محمد اسد کی یروشلم واپسی پر ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا تذکرہ بھی کیا۔ اس دوران زِنڈر نے محسوس کیا کہ محمد اسد اسرائیل کے کُھلم کھلا دشمن تھے ۔ گرچہ اُن کی اسرائیل دشمنی کی شدّت کو کم کیا جا سکتا تھا، لیکن وہ پاکستانی وزارتِ خارجہ سے ٹھوس اور گہری وابستگی رکھتے تھے۔ برسوں بعد زِنڈر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’موساد‘‘ نے اُسے اسرائیلی خفیہ ایجینسی کے لیے پیسوں کے عوض محمد اسد کی خدمات حاصل کرنے کی پیش کش کی تھی، جسے زِنڈر نے فوراً مسترد کر دیا، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ محمد اسد یہ سُنتے ہی طیش میں آ جائیں گے اور اُس کے ساتھ روابط ختم کر دیں گے۔ تاہم، اس کے باوجود ہی دونوں میں روابط کم زور ہو گئے۔ اس بارے میں زِنڈر کا کہنا تھا کہ پولا حمیدہ بالخصوص محمد اسد کے اُن کے خاندان سے قریبی روابط اور بالعموم یہودیوں سے تعلقات کو ناپسند کرتی تھیں۔
محمد اسد کی تحریروں اور زِنڈر کی گواہی کے بعد اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ وہ صیہونیت کے شدید ترین مخالف تھے۔ 1947ء میں وہ تقسیمِ ہند میں محو رہے اور اس دوران فلسطین کی تقسیم اور تخلیقِ اسرائیل کے حوالے سے اُن کا کوئی بیان یا تبصرہ منظرِ عام پر نہیں آیا۔ تاہم، 1967ء کی عرب، اسرائیل جنگ کے بعد کے برسوں میں انہوں نے خاص طور پر یروشلم کے حوالے سے مسلسل گفتگو کی۔ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے سخت خلاف تھے۔ وہ ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے خواہاں تھے کہ جس میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو مساوی طور پر سیاسی و ثقافتی حقوق حاصل ہوں اور ایک شہر کی حیثیت سے یروشلم کا نظم و نسق مسلمانوں کے پاس ہو اور یہ تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کُھلا ہو۔ تاہم، 1967ء کے بعد عرب دُنیا میں اسرائیل مخالفت کا جنون پیدا کرنے کے بعد محمد اسد کی اسرائیل پر تنقید کو ایک پابند نکتہ چینی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اس تنازعے سے دُوری اختیار کر لی تھی اور پھر وہ پاکستان کی دیگر توقّعات پر پورا اُترنے سے بھی قاصر رہے تھے۔پاکستانی وفد میں شامل محمد اسد کے رفقائے کار میں سے ایک نے اُن کے پولا حمیدہ سےمعاشقے کا اسکینڈل بنایا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم پاکستان، خواجہ ناظم الدّین نے ان کی شادی پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔ 1952ء کے آخر میں انہوں نے اس امید پر استعفیٰ پیش کیا کہ اُن کا درجہ مستحکم ہو جائے گا، لیکن حیران کُن طور پر اُن کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا۔ تاہم، پاکستانی وزارتِ خارجہ سے اُن کا ناتا قائم رہا کہ جب 1953ء میں خواجہ ناظم الدّین کا اقتدار ختم ہوا، تو وہ وزارت میں واپس آ گئے۔ تاہم، اب انہیں مالی مشکلات کا سامنا تھا اور انہوں نے اپنے ایک امریکی دوست کے مشورے پر نیویارک کے ایک پبلشر، سائمن اینڈ شسٹر کو اپنی سوانح لکھنے کی پیش کش کی، جسے قبول کر لیا گیا۔
پھر محمد اسد نے وہ کتاب لکھنا شروع کی، جس نے عالم گیر انہیں شُہرت عطا کی۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ نامی کتاب نیویارک میں لکھی گئی، 1954ء میں منظرِ عام پر آئی اور روحانی سکون کی تلاش اور صحرا میں مُہم جوئی کے امتزاج پر مشتمل اس کتاب کو دُنیا بَھر میں پزیرائی ملی۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ کو قبولِ اسلام کے اعتراف کے طور پر لکھی گئی دیگر کُتب پر آج بھی سبقت حاصل ہے اور آج بھی دُنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ جاری ہے، جو عام قاریوں اور ہم دردانِ اسلام پر اس کتاب کے طاقت وَر اثر کا بیّن ثبوت ہے۔ اس کتاب کے اثرات کا اندازہ ایک 21سالہ امریکی یہودی خاتون، مارگیرٹ مارکوس کی گواہی سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ محمد اسد کی کتاب جب مارکوس کے گھر کے قریب واقع عوامی لائبریری میں رکھی گئی، تو اُن کے والدین نے یہ کتاب گھر لانے کی اجازت نہیں دی۔ لہٰذا، انہوں نے اسے لائبریری ہی میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیا۔ اس بارے میں وہ لکھتی ہیں کہ ’’ انہوں نے جو کچھ کیا، مَیں نے سوچا کہ مَیں بھی کر سکتی ہوں اور یہ سب ایک مَرد کے مقابلے میں ایک تنہا عورت کے لیے کتنا سخت ہو گا، لیکن مَیں نے اللہ سے عہد کیا کہ پہلے موقعے کے طور پر مَیں اس مثال کی تقلید کروں گی۔‘‘ بعد ازاں، اس خاتون نے اسلام قبول کر لیا، اپنا نام مریم جمیلہ رکھا اور پاکستان میں خدمات انجام دینے کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی۔ مریم جمیلہ کے علاوہ ایچ ایس ٹی جون (عبداللہ) فلبی نے بھی محمد اسد کی شہرۂ آفاق تصنیف پر روشنی ڈالی ہے۔ فلبی نے ایک نو مسلم کی حیثیت سے اُن کی ابنِ سعود سے قربت کو دیکھتے ہوئے 1930ء میں اسلام قبول کیا۔ وہ بھی سچّائی کی کھوج اور سیاست میں مصروف رہے اور اس ضمن میں محمد اسد کی کوششوں پر کڑا نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ محمد اسد صرف ایک صحافی تھے، جو اسٹوری کی تلاش میں رہتے اور اس بات کا کسی آزاد ذریعے سے کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہ ابنِ سعود یا سنوسی اعظم کے خفیہ مِشن پر تھے۔ نیز، اگر اس کتاب کی اہمیت کو سیاست اور جستجو کے اعتبار سے مشکوک سمجھا جائے، تو کیا یہ ایک معتبر ذاتی سرگزشت ہے؟ جوڈ ٹیلر نے ’’کمنٹری‘‘ میں کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ نکتہ اُٹھایا کہ اسد نے اُن ضروری امور کا تذکرہ نہیں کیا، جو کسی یورپی یہودی کی ذاتی سرگزشت میں مذکور ہونے چاہیے تھے۔ ان میں سے ایک معاملہ اسد کے یورپ کے یہودی مخالف تجربے کا بھی ہے، جس کا مصنّف نے کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔
جوڈ ٹیلر لکھتے ہیں کہ ’’ وہ گلیشیا میں پیدا ہوئے تھے، جہاں سامی النّسل مخالف یوکرینیوں اور پولش نژاد باشندوں اور ناقابلِ اعتماد، روادار آسٹرین حکومت کے درمیان جاری طاقت حاصل کرنے کی جدوجہد میں کسر پوری کرنے کے لیے یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے ویانا میں اس وقت پرورش پائی، جب یہ شہر سامی النّسل مخالف یورپیوں کا دارالحکومت تھا۔ وہ برلن سےفلسطین کے لیے اُس برس روانہ ہوئے کہ جب نسل پرست قوم پرستوں نے والٹر رے تھینو(جرمنی کے سابق وزیرِ خارجہ) کو قتل کیا تھا۔ کیا ان تمام عوامل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا؟ ‘‘ فلبی اور ٹیلر دونوں نے ہی ایک اور اہم نکتے کی غیر موجودگی کی شکایت کی ہے کہ اسد نے عریبیہ کو خیر باد کہنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ ٹیلر کا خیال ہے کہ اس کا سبب فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان تنائو میں اضافہ تھا۔ مغربی دانش وَروں کے مطابق اس تنقید سے پتا چلتا ہے کہ ’’ دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ کو عریبیہ، ابنِ سعود حتیٰ کہ مصنّف کی اپنی زندگی سے متعلق بھی ایک تاریخی سچ کی دستاویز کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا۔ یہ ایک تاثریت کے نمایندے کی اپنی تصویر کَشی ہے، جو بتانے سے زیادہ تجویز کرتی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود کتابِ ہٰذا کی کام یابی میں کوئی رُکاوٹ کھڑی نہیں ہوئی۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ کو انگریزی سے یورپ کی دوسری بڑی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک غیر متوقّع دولت ثابت ہوئی۔ مذکورہ تصنیف کی وجہ سے اسد کی ایک لیکچرر کے طور پر خدمات کی طلب پیدا ہوئی اور مغرب میں ان کی شُہرت، نیک نامی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ تاہم، مغربی دانش وَروں کا ماننا ہے کہ اسلامی ممالک، بالخصوص سرگرم مسلمان شخصیات میں ان کی پسندیدگی نے کئی بے چین کر دینے والے سوالات پیدا کیے۔ وہ اس بارے میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے بانی اور نظریہ ساز، مولانا مودودیؒ کے 1961ء میں لکھے گئے مکتوب میں بیان کیے گئے ان خدشات کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیںکہ’’ مَیں ان (علاّمہ محمد اسد) کی اسلامی نظریات کی تشریح اور بالخصوص مغربی ثقافت اور اس کے مادہ پرستانہ فلسفے پر تنقید کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ تاہم، معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ گر چہ اپنے قبولِ اسلام کے ابتدائی دِنوں میں وہ ایک پکے عملی مسلمان تھے، لیکن پھر وہ بہ تدریج ’’اصلاح شدہ‘‘ یہودیوں کی مانند نام نہاد ’’ ترقی پسند‘‘ مسلمانوں کے طریقِ کار کے قریب ہو گئے۔ حال ہی میں اُن کی اپنی عرب بیوی سے علیحدگی اور ایک جدید امریکی لڑکی سے شادی نے راہِ راست سے انحراف کے عمل کو واضح طور پر تیز کر دیا ہے… کوئی فرد ایک بار ایک سچّے مسلمان کی مانند زندگی گزارنے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کی تمام قابلیتیں اپنی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ گنوا دیتی ہیں۔ محمد اسد کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، جو ہمیشہ سے اعلیٰ اور جدید معیارِ زندگی کے خُوگر تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں سنگین ترین معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں انہیں ایک کے بعد دوسرے سمجھوتے پر مجبور ہونا پڑا۔ ‘‘
محمد اسد نے پولا حمیدہ کے ساتھ جنیوا میں نقل مکانی کی اور یہاں قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے کا منصوبہ بنایا۔ وہ مرمدوک پِکتھل کے بڑے پیمانے پر مستعمل ترجمے سے مطمئن نہیں تھے کہ اُن کے خیال میں پِکتھل کا عربی سے متعلق علم محدود تھا۔ محمد اسد نے 1960ء میں ترجمے پر کام شروع کیا۔ اس قدر وسیع پیمانے کے منصوبے کے لیے انہیں ایک سرپرست کی ضرورت تھی، جو بالآخر سعودی فرماں روا، شاہ فیصل کی شکل میں سامنے آیا۔ وہ 1927ء سے شاہ فیصل کو جانتے تھے۔ اسد نے ترجمے کا آغاز سوئٹزر لینڈ میں کیا اور 1964ء میں قرآنِ پاک کی پہلی 9سورتوں کا ایک محدود ایڈیشن شایع کیا۔ پھر انہوں نے مراکش کے شہر، طنجہ میں صنوبر کے درختوں اور بوگن ویلیا میں گِھرے ایک پُرسکون بنگلے میں رہائش اختیار کی، جہاں انہوں نے ترجمے کا کام مکمل کیا۔ 1980ء میں انہوں نے جبل الطّارق میں ’’ دی میسیج آف دی قرآن‘‘ کے عنوان سے قرآن کا مکمل ترجمہ اور تفسیر شایع کی، لیکن اس ترجمے نے بعض مسلمان علما کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا، جنہوں نے اسد کی جانب سے بعض آیات کی جدید اور علامتی تشریحات کو متنازع قرار دیا اور نقّادوں نے ان پر کئی الزامات بھی عاید کیے۔ نیز، بعض افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ترجمے کی صورت ’’اسرائیلیات‘‘ کو دوبارہ متعارف کروایا گیا۔ 1974ء میں ترجمے کی اشاعت مکمل ہونے سے قبل ہی اس پر سعودی عرب میں پابندی عاید کر دی گئی اور محمد اسد کو اپنے طور پر کام مکمل کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ۔ اس موقعے پر ان کے دوستوں نے ان کی مالی مدد کی۔ علامہ اسد نے ترجمے کے استرداد کو بنیاد پرستی، عدم رواداری اور انتہا پسندی پر محمو ل کیا۔ ایک موقعے پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’ کئی صدیوں سے مفلسی کے شکار مسلمان اب اپنے مختلف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ انسان ہیں، کسی سے مختلف نہیں۔‘‘ خصوصاً انہوں نے حقوقِ نسواں کا دِفاع کیا اور حجاب کے لیے چلائی گئی مُہم کی مخالفت کی۔ گرچہ محمد اسد کسی دَور میں عربوں کے شدید عشق میں مبتلا تھے، لیکن یہ زیادہ عرصے تک انہیں اپنی گرفت میں نہ رکھ سکا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1982ء میں اس وقت کے صدرِ پاکستان، جنرل ضیاء الحق نے انہیں پاکستان واپس لانے کی کوشش کی، مگر یہ بے نتیجہ رہی۔ 1982ء میں محمد اسد طنجہ سے سِنترا اوروہاں سے جنوبی اسپین روانہ ہو گئے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ کے آخری حصّے پر کام شروع کر دیا تھا، جس کا نام ’’ ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ محمد اسد کا انتقال 20فروری 1992ء کو ہوا اور انہیں غرناطہ کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔مغربی دانش وَروں کے مطابق،علاّمہ محمد اسد منطقی اسلام کی بات کرتے تھے اور اسلامی تعلیمات اور جمہوریت کے درمیان مطابقت چاہتے تھے۔ دیگر مغربی نو مسلموں کے برعکس انہوں نے اسلامی معاشروں میں رہائش کا انتخاب اور اسلام کو ایک سمت دینے کی کوشش کی، لیکن وہ ہم عصر اسلام میں ایک غیر مُلکی ہی رہے اور انہیں ان کے میزبانوں نے بھی مسترد کیا۔ مثال کے طور پر سعودی عرب نے انہیں ایک صحافی کے طور پر اپنے مُلک میں رکھنے سے انکار کر دیا اور پاکستان نے بھی، جس کے لیے انہوں نے ایک سرکاری عُہدے دار اور سفارت کار کے طور پر خدمات انجام دیں، ان سے ناتا توڑ لیا اور اسلامی قدامت پسندی کے خود ساختہ محافظین نے انہیں مترجم و مفسّرِ قرآن کے طورپر قبول کرنے سے اجتناب کیا۔ اس کے برعکس مغرب نے ان کی کاوشوں کا حقیقی اعتراف کیا، جہاں انہیں اپنے نظریات کے لیے کُھلے دماغ اور ان کی اشاعت اور لیکچر کے لیے مواقع ملے۔