میرے شوہر، صحافت کے پیشے سے وابستہ تھے، وہ ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جہاں تعلیم کا رواج بہت کم تھا، اگرچہ میرے خاندان میں بھی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی، لیکن میرے والد صاحب اپنی کوششوں سے پڑھ لکھ کر ایک سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے، تو وہ اپنی اولاد کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے، لیکن صرف بیٹوں کو،جب کہ بیٹیوں کی تعلیم کو، انہوں نے بھی غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔ مَیں جب دس سال کی تھی، تو میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ بہن مجھ سے سات سال چھوٹی تھی۔ والدہ نےوالد صاحب کے انتقال کے بعد ملنے والے بقایا جات اور کچھ جمع پونجی سے بچت اسکیم کے کچھ سرٹیفکیٹس خرید لیے۔ اس طرح بھائیوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات والد کی پینشن اور بچت اسکیم سے کسی نہ کسی طرح پورے ہونے لگے۔
کچھ عرصے بعدمیرے دونوں بھائیوں کو بیرونِ ملک ملازمت مل گئی، تو انہوں نے اپنے اپنے گھر بسالیے اور ہم سے رابطہ منقطع کرلیا، تو والدہ کواحساس ہوا کہ بیٹوں پر اپنی بچت لٹا کر انہوں نے بیٹیوں کے ساتھ کس قدر زیادتی کی ہے، مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ میں سولہ سال کی ہوچکی تھی۔ میرے ماموں کا بیٹا، صحافت سے منسلک تھا اور ایڈیٹر بن چکا تھا، ماموں نے اس کا رشتہ مجھ سے کرنے کا فیصلہ کیا، میں چوں کہ گھریلو کاموں میں طاق اور اچھے قد و قامت کی خوب صورت لڑکی تھی، اس لیے ماموں کے بیٹے نے بھی مجھے تعلیم نہ ہونے کے باوجود قبول کرلیا، مگر شادی کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کی خواہش رکھتے تھے۔ خیر، یکے بعد دیگرے ہمارے یہاں پہلے بیٹا اور پھر بیٹی پیدا ہوئی۔ تیسرے بچّے کی ولادت ہونے والی تھی کہ میرے شوہر اچانک غائب ہوگئے۔ چند روز بعد جب ان کے دفتر سے پتا کروایا، تو معلوم ہوا کہ وہ تو ایک ماہ پہلے ہی ملازمت چھوڑ چکے ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ انہیں باہر نوکری مل گئی ہے۔ میرے سسر کا ایک سال پہلے انتقال ہوچکا تھا، ساس سخت مزاج کی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے غائب ہونے کا سارا الزام مجھ پر ڈال دیا، حالاں کہ میرے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کب، کیوں اور کون سے ملک گئے ہیں۔
ایک روز بعد میں نے یوں ہی اپنی الماری کھولی، تو انکشاف ہوا کہ وہ میری بچت کی ساری رقم اور زیورات بھی چرا کر اپنے ساتھ لےگئے ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے یہ بات اپنی ساس کو بتائی، تو الٹا مجھے ہی قصور وار ٹھہراتے ہوئے کہنے لگیں ’’میرا بیٹا ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ تُو اپنے پیسے اور زیورات مجھ سے چھپانا چاہتی ہے، تُونے خود ہی میرے بیٹے کو اپنے سلوک سے بھگادیا۔ ہائے،میرا بچّہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ اب دیکھنا میں بھی تیرے ساتھ کیا کرتی ہوں۔‘‘
انہوں نے مجھ پر پہلا ستم یہ کیا کہ میرا کمرا خالی کرواکر کرائے پر چڑھادیا۔ میرے پاس تعلیم تھی، نہ ہی کوئی ہنر۔ دو چھوٹے بچّے جنہیں وقت پر کھلانا پلانا میری ذمّے داری تھی، دو ماہ روتے دھوتے گزرگئے۔ ایک روز اچانک میرے شوہر کا فون آگیا۔ انہوں نے گھر سے بغیراطلاع چلے جانے کی معافی مانگتے ہوئے یہ کہانی سنائی کہ’’ایسا کرنا میری مجبوری ہوگئی تھی، میں نے اخبار میں ایک وڈیرے کے خلاف ایک مضمون چھاپا،تو وہ میری جان کا دشمن بن گیا۔ اخبار کے مالک سے بات کی، تو اس نے صرف تسلّیاں ہی دیں۔ پھر جب اس کے بھیجے گئے غنڈے، محلّے میں منڈلاتے دکھائی دیئے، تو میں نے فوری طور پر رازداری سے ملک چھوڑ کر مسقط جانے کا فیصلہ کرلیا۔ تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ بات نکل گئی، تو پتا نہیں وہ فرعون میرے اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ میرے مسقط جانے کا کام جلد ہوگیا تھا، مگر زادِراہ نہیں تھا، اس لیےالماری سے تمہاری رقم اور زیورات چوری کرنے پڑے،جس کے لیے میں بہت شرمندہ ہوں، ان شاء اللہ کام ملتے ہی پائی پائی چکادوں گا، بلکہ دگنا کر کے دوں گا۔ اب میں اس وڈیرے کا غصّہ ٹھنڈا ہونے ہی پر پاکستان آپائوں گا۔
مجھے معاف کردینا اور بچّوں کو لازمی تعلیم دلوانا، میں نہ بھی آسکوں، تو انہیں پڑھانا ضرور۔‘‘ ان کی جھوٹی، سچّی باتیں سن کر بھی، میں نے انہیں معاف کر دیا۔ اپنی ساس کو ان کے فون کے بارے میں بتایا،تو ان کا پارہ چڑھ گیا کہ مجھ سے بات کیوں نہیں کروائی۔ اب چوں کہ ساری صورتِ حال واضح ہوگئی تھی، تو ساس نے مجھے یہ الٹی میٹم دے دیا کہ’’اب میں مزید تمہارا اور تمہارے بچّوں کا خرچہ اٹھانے سے قاصرہوں، اس لیے جلداز جلد اپنا کوئی بندوبست کرلو۔‘‘ ان کی بات بھی درست تھی کہ وہ اس بیٹے کی اولاد کو کیوں پالیں، جو بغیر بتائے گھر چھوڑ کر پردیس جا بیٹھا اور فون پر بھی ماں سے رابطہ نہیں رکھتا۔ میں نے پریشانی میں مدد کے لیے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، میری ساس نے مجھے ایک ہفتے میں گھر سے نکل جانے کا نوٹس دیا تھا۔ پریشانی کے عالم میں اچانک مجھے اپنے والد کے ایک دوست یاد آئے، جو اکثر ہمارے گھرآتے جاتے تھے۔ انہوں نے والد کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ کاروبار بھی کیا تھا اور اب ان کا شمار گائوں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہوتا تھا۔ سوچا کہ ان سے مل کر مشورہ لینا چاہیے کہ ان حالات میں مجھے میں کیا کرنا چاہیے۔ ماں کے گھر جا کر بوجھ بننے سے بہتر ہو گا کہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو نے کی کوشش کروں۔ شوہر کو تو واپس آنا نہیں تھا۔ چناں چہ اپنا مختصر سا سامان باندھا اور اپنے گائوں کی راہ لی اور سیدھے اپنے والد کےدوست کے گھر جا پہنچی۔ وہ مجھ سے محبت سے ملے اور کہنے لگے۔ ’’بیٹا! تمہاری ماں اس قابل نہیں کہ وہ تمہیں بچّوں سمیت اپنے ساتھ رکھ سکے۔
وہ اور تمہاری بہن، گائوں میں عزت سے رہ رہی ہیں، ان کی زندگی میں مزید مشکلات پیدا مت کرو۔ تم اپنے بچّوں کو پڑھانا بھی چاہتی ہو، تو ایسا کرو، شہر چلی جائو، جانے سے پہلے اپنی ماں سے ضرور مل لو، ہوسکتا ہے وہ مجھ سے بہتر مشورہ دے سکیں۔‘‘ وہ حقیقتاً مجھے صحیح مشورہ دے رہے تھے۔ میں نے ان کے مشورے پرعمل کیا۔ دونوں بچّوں کو ان کے گھر چھوڑ کر ماں اور بہن سے ملنے چلی گئی، انہیں اپنی داستان سنائی، تو ماں نے مشورہ دیاکہ ’’تم بیٹی کو میرے پاس چھوڑ کر بیٹے کو لے کر شہر چلی جائو اور اپنے بیٹے کو کسی اچھے اسکول میں پڑھائو۔‘‘ لیکن میں نے کہا کہ’’ میرا تیسرا بچّہ پیدا ہونے والا ہے، ایسی حالت میں کیا کام کروں گی۔‘‘ ماں نے مایوسی سے کہا ’’بچّے کی پیدائش تک تم میرے پاس رہو، حالات ٹھیک ہوتے، تو تمہارے بچّوں کو پڑھاتی لکھاتی اور تمہارے اخراجات بھی اٹھا لیتی، مگر اس بیماری نے تو مجھے بھی مقروض کردیا ہے۔ معمولی پینشن پر گزارا ہے، تمہارے بھائیوں نے تو ایک دن آکر پوچھنا بھی گوارا نہ کیا، وہ میرے لیے مرچکے ہیں۔‘‘ قصّہ مختصر، میں چند ماہ ماں کے ساتھ رہی، اسی دوران میری بیٹی کی ولادت بھی ہوگئی۔ میری بچّی جب دو ماہ کی ہوگئی، تو میں نے والد کے دوست سے دوبارہ رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اب میں شہر جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے مجھے ایک خطیر رقم تھماتے ہوئے کہا کہ گولڑا شریف، اسلام آباد میں کوئی سستا مکان کرایے پر لے کر قریبی آبادی کے بنگلوں میں کام ڈھونڈنے کی کوشش کرو، وہاں محنتی ملازمائوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔‘‘
میں جوان تھی، ہمّت اور اعتماد بھی تھا۔ اس لیے حوصلے سے گولڑا شریف آگئی اور دوگھروں میں اچھی تنخواہوں پر کام بھی باآسانی سے مل گیا۔ رات دن کولھو کے بیل کی طرح کام کر کے گھر کی ضروری اشیاء بھی خریدلیں۔ امورِ خانہ داری میں ماہر تھی، اس لیے جن گھروں میں کام کرتی تھی، ان کی باجیاں بھی میرا خیال رکھتی تھیں۔ زندگی کی گاڑی ڈگر پر آ گئی تھی۔ شروع میں چھوٹے موٹے مسائل بھی آئے۔ بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر بجلی کٹ گئی، تو ایک باجی نے بل بھروا کر بجلی بحال کروا دی۔ تنہائی میں سوچتی، تو آنکھوں میں آنسو آجاتے کہ کبھی میں بھی اپنے گھر کی مالکہ اور شوہر کے ساتھ رہتی تھی، مگر قسمت نے مجھے دوسروں کی نوکرانی بنادیا۔ صبح سویرے اُٹھتی، بچّوں کو نہلاتی، شروع میں بیٹا میری نوزائیدہ بچّی کو گھر پرسنبھالتا تھا۔ جب پیسے ہاتھ میں آئے،تو اُسے اسکول میں داخل کروادیا اور بچّی کو ساتھ لے کر کام پر جانے لگی۔ کچھ عرصے بعد یہ ذمّے داری میری پڑوس کی ایک نیک دل خاتون نے لے لی اور اس کی دیکھ بھال کرنے لگی۔ دُنیا ابھی نیک دل لوگوں سے خالی نہیں ہوئی، مگر بُرے لوگ بڑھتے جارہے ہیں۔ مجھے گھر سے کام پر جانے کے لیے بس اور ویگن پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ راستے میں کتنے ہی لوگوں کے درمیان سے گزرنا پڑتا۔
کنڈکٹر تک کندھا چھوئے بغیر اترنے کا راستہ نہیں دیتا تھا۔ راستے بھر مجھے اپنی اچھی شکل و صورت اور جوانی کی وجہ سے گندے فقرے سننے کو ملتے۔ یہ دُکھ صرف وہ شریف خواتین ہی سمجھ سکتی ہیں، جو بہ حالتِ مجبوری کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں۔ البتہ میرے اڑوس پڑوس کے لوگ بہت اچھے اور ہم درد تھے۔ بڑی بیٹی نانی کے پاس تھی۔ اس کے کھانے پینے کا خرچہ میری ماں اور بہن اٹھاتی تھیں، میں باقاعدگی سے اس کی پڑھائی کا خرچہ بھیجتی تھی، ماشاء اللہ ذہین تھی، بیٹے نے بھی مایوس نہیں کیا، وہ بھی اچھے نمبروں سے کام یابیوں کے زینے طے کرتا اور میرا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ کچھ عرصے بعد چھوٹی بچّی کو بھی اسکول میں داخل کروادیا۔ بڑی بیٹی اب میٹرک کر چکی ہے۔ بیٹا کالج میں، جب کہ چھوٹی بیٹی چھٹی جماعت میں ہے۔ اس طویل سفر میں میرے نام نہاد اور پڑھے لکھے شوہر کا صرف ایک بار فون آیا،وہ مجھے جھوٹی تسلّیاں دینے لگا، تو میں نے فون بند کر دیا۔اس کے بعد اس نے کبھی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
قارئین سے میری خصوصی درخواست ہے کہ صرف لڑکوں ہی کو تعلیم دلانا اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ آپ کو سکھ بھرا مستقبل دیں گے۔ بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے،کیوں کہ ایک پڑھی لکھی ماں ہی اپنی اولاد کو بہتر مستقبل دے سکتی ہے۔ بہ صورتِ دیگر وہ کسی برے وقت میں، تعلیم نہ ہونے کے سبب، میری طرح ماسیاں ہی بن کر رہ جاتی ہیں۔ میں اپنی یہ روداد اپنی بیٹی سے لکھوا کر بھیج رہی ہوں، تاکہ لوگ لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی اہمیت کو سمجھیں کہ برا وقت کسی پر، کبھی بھی آسکتا ہے۔ خدارا! بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کریں اور مستقبل کی ماسیاں بننے سے بچائیں۔
(جمیلہ خاتون، گولڑا شریف،اسلام آباد)