• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ پر انگریزوں کی فتح تالپوروں کی شکست

فرید جتوئی

تالپور1784 میں سندھ کے اقتدار پر فائز ہوئے،انہوں نے یہ اقتدار کلہوڑوں سے چھینا تھا،مگر تالپور حکمراں اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی کمزوری کا شکار ہوگئے ، جس کی وجہ سےا نہیں اقتدار گنوانا پڑا۔ان کی شکست کے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ کچھ کوتاہیاں بھی تھیں،دیگرحکمرانوں کی طرح تالپورحکمرانوں کویہ علم تھا کہ انگریز سترھویں صدی عیسوی سے سندھ پر نظریں رکھے ہوئے ہیں، انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں یکطرفہ معاہدوں کے تحت طاقت بھی حاصل کرلی تھی۔ 

اب وہ سازگار وقت کا انتظار کررہے ہیں اور موقع پاتے ہی کسی بھی وقت کاری ضرب لگاسکتے ہیں،مگر انہوں نے بہترحکمت عملی اختیار کرنے کے بہ جائے تاخیر کی ۔کیماڑی بندر گاہ پر فوجی دستے موجود نہیں تھے،جو مزاحمت کرتے۔ انگریزوں نے سندھ پر حملہ کرنے کے لیےکیماڑی بندر گاہ والے راستے کا ہی انتخاب کیا، کیوں کہ انہیں کیماڑی کے علاوہ قرب وجوار کے کسی دوسرے راستے سے داخلے پر مزاحمت کا خدشہ تھا۔انگریزوں کا یہ خدشہ اس طرح درست ثابت ہوا کہ وارد ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد معمولی سی پیش قدمی پر انہیں منگھو پیر، گڈاپ، ملیروڈملوٹی کے مقامی قبائلیوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قبائلی وقتاً فوقتاً ان کے چھوٹے گھڑ سوار دستوں پر حملہ کرکے انہیں جانی نقصان پہنچاتے۔ قبائلیوں نے ایسا کرکے اپنی دھرتی سے محبت کا تاریخی رشتہ نبھایا۔تالپور حکمراں اقتدار کے دوران انگریزوں کے بتدریج بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے پیچھے چھپے ہوئے مقصد کونہ سمجھ سکے۔ 

وہ انگریزوں کی جانب سے اپنے دربار میں متعین معمولی سے ریزیڈنٹ افسر،ہنری پوٹنجر، کی نقل وحرکت اور خط وکتابت کی جانچ بھی نہ کرسکے ،دوسری جانب بمبئی میں اعلیٰ انگریزی حکام کوکراچی پر فوری حملے کا مشورہ دے رہا تھا۔سمندری سرحد کی حفاظت سے غفلت بھی بیرونی حملے کا باعث بنی۔ تالپور حکمراں افغانوں کے باج گزار ہونے کے سبب بڑے عرصے سے ایک بڑی رقم بطور تاوان ادا کرتے کرتے عاجز آچکے تھے۔ موقعے کوغنیمت جان کر ایک دفعہ میروں نے ادائیگی روک دی، تو افغانستان کا شاہ شجاع الملک عدم ادائیگی کی سزا دینے اور رقم کی وصولی کے لیے شکار پور تک آپہنچا اور بڑی رقم لے کر ٹلا۔

دراصل تالپوروں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کے اس پورے منظرنامے کو گزرے دوسو سالوں کے تناظر میں دیکھا جائے ،تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ انگریز اس کام یابی کے لیے دوسوسال سے محنت کررہے تھےاور تالپور حکمرانوں کے آخری ایام میں ان کی بوئی فصل پک چکی تھی۔انہوں نے میروں کو ہراساں کرکے اپنے آپ کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے علاوہ پے درپے معاہدوں کے ذریعے وہ میروں کوزیر کر چکے تھے۔اسی کے نتیجے میں وہ سندھ پر قابض ہوئے۔طرز حکومت جمہوری ہویا شخصی ، دونوں ہی میں عوام کے اوپراپنے حق حکمرانی کے جواز اور اقتدار کے تسلسل کی خاطر رعایا کی مجموعی فلاح وبہبود کے ساتھ نظر آنے والے ترقیاتی منصوبوں کے اجرا اور ان کی تکمیل خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

میرصاحبان کے علم میں تھا کہ پرتگال، فرانس، برطانیہ اور روس جیسے طاقتور شکاریوں نے سندھ کے اطراف میں بری اور بحری راستوں پر اپنے جال بچھا دیے ہیں ،یقیناً ان میں کسی ایک طاقت ور کی جیت ہوگی، ایسے میں حکمرانوں سے مطمئن رعیت ہی ڈھال بن کر امکانی شکست کو روک سکتی ہے۔مگر یہاں صورتحال اس طرح برعکس نظر آئی کہ اقتدار کے آخری عشروں میں رعایا کو سہولتیںفراہم کرنے کے بہ جائے، میروں کی تمام تر توجہ ٹیکسوں کی وصولی کے لیے اپنے اپنے نمائندے مقرر کر دئیے۔حکمرانوں کا یہ رویہ رعایا کو بیگانگی کی طرف لے گیا۔ لاتعلق اور بیزار لوگ انگریزوں کے قبضے کے خلاف بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہ آسکے۔

تازہ ترین