• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بیرم خان‘‘  اس نے مغلوں کے اقتدار کو اس وقت بچایا، جب ان کے قدم لڑکھڑاگئے تھے

تاریخ میں بیرم خان کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ اس نے مغلوں کے اقتدار کو اس وقت بچایا، جب ان کے قدم لڑکھڑاگئے تھے۔ اس کو اکبر کے اتالیق ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اکبر کی حکومت کے استحکام میں اس کی خدمات کسی طور بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اکبر کے ڈوبتے ہوئے اقتدار کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ ہی نہیں رکھا ،بلکہ دشمنوں کی یلغار اور مہم ناکام بنادی تھی۔ بیرم خان کا شمارہمایوں کے وفادار ملازموں میں ہوتا تھا۔ وفاداری بشرط استواری اس کے مزاج کا جزو بن چکی تھی۔ 

وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے ہمایوںسے غافل نہیں رہتا تھا، جب شیر شاہ سوری نے مغلوں کے خلاف یلغار کی تو بیرم خان نے انتہائی چالاکی سے اسے ناکام بنادیاتھا۔شیرشاہ نے پہلی بار چوسہ کے مقام پر ہمایوں کو شکست دی۔ دوسری بار قنوج کے مقام پر ہمایوں اور اس کے درمیان زبردست معرکہ ہوا۔ مغلوں نے بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، لیکن ان کوناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں انتشار اور سراسیمگی پھیل گئی۔ وہ میدان چھوڑ کر فرار ہونے لگے،یہ صورت حال ہمایوں کے لیے اس قدر پریشان کن تھی کہ وہ خود ہندوستان سے فرار پر مجبور ہوگیا،گرچہ ہمایوں نے شیرشاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھائی تھی ،لیکن اس میں ہندوستان کی دوبارہ تسخیر کا حوصلہ تھا۔ 

وہ چاہتا تھا کہ وہ مختلف علاقوں سے افرادی اور مالی قوت حاصل کرکے دوبارہ شیر شاہ سوری سے مقابلہ کرے اور اپنی کھوئی ہوئی سلطنت حاصل کرے ۔ اس ارادے سے اس نے قنوج سے آگرہ اور آگرہ سے لاہور کی راہ لی ،وہاں کوئی تعاون حاصل نہیں ہوا تو سندھ میں داخل ہوگیا۔ ہمایوں کے حدود سندھ میں داخل ہونے کے بعد عمر کوٹ کے قیام کے دوران اسے بہ خوبی اندازہ ہوگیا تھا، کہ عمر کوٹ کا چھوٹا شہر اور اس کا ضلع اس کی فوجوں کی کفالت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اس جگہ مزید قیام قحط اور پریشانی کو دعوت دینا تھی،لہٰذا اس نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ وہ کسی اور سمت بڑھے، چناں چہ وہایک چھوٹے سے قصبے ’’جون‘‘ پہنچا۔ 

’’بیرم خان‘‘  اس نے مغلوں کے اقتدار کو اس وقت بچایا، جب ان کے قدم لڑکھڑاگئے تھے

یہ قصبہ چھوٹا، مگر شاداب تھا، جو بدین سے متصل تھا۔وہاں پہنچنے کے بعد ہمایوں کو اندازہ ہوا کہ اس کے پاس موجود سامان ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس نے غلہ وغیرہ جمع نہیں کیا ،تو اس کے لشکریوں اور ہمراہیوں میں قحط کے آثار پیدا ہوجائیں گے۔ اسی زمانے میں اسے ا طلاع ملی کہ پٹھوڑا کے قلعے میں اناج کا خاصا ذخیرہ موجود ہے، جس کو تھوڑی سی مزاحمت کے بعد حاصل کیا جا سکتا ہے، ہمایوں نے اپنے کچھ سرداروں کو پٹھوڑا کے قلعےکی مہم پر مامور کیا،جب سندھ کے حکمران میرزاشاہ حسن ارغون کو ہمایوں کے اس ارادے کی خبر ملی ،تو انہوں نے اپنے امراء کو ہمایوں کی اس مزاحمت پر مقرر کیا۔ جس کے نتیجے میں جون کے گردونواح، یعنی بدین کے علاقے میں ارغونوں اور مغلوں کی شدید لڑائیاں ہوئیں۔ جس میںہمایوںکےبہت سے تجربہ کار ساتھی ان مارے گئے۔ 

ان کے مارے جانے سے ہمایوں اس قدر رنجیدہ اور مایوس ہوا کہ اس نے سندھ کی حدود سے نکلنےکا ارادہ کرلیا۔اس واقعےکے کچھ دن بعد بیرم خان کو اطلاع ملی کہ ہمایوں سندھ کے مختلف علاقوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہا ہے ،اسے کہیں بھی کسی قسم کی مدد نہیں مل رہی ۔ بیرم خان اس وقت گجرات میں تھا،اس نے ہمایوںکی مدد کے لیے فوری گجرات سے سندھ کی طرف پیش قدمی کی اور ہمایوں سے مل کر درخواست کی کہ وہ قندھار سے ہوتے ہوئے عراق چلے۔ اس نے بیرم خان کی یہ تجویز مان لی۔بیرم خان نے سندھ میں تقریباً چھ ماہ کا طویل عرصہ گزارا اور اس کا مختلف شہروں میں قیام رہا،جب اکبر بادشاہ نے حکومت سنبھالی ،تو بیرم خان کے اثر و نفوذ سے درباری حسد کرنے لگے۔جب بیرم خان نے چند روز کے لیے پٹن میں قیام کیا، تو اس دوران وہ ایک دن سیروتفریح کے لیے نکلا۔ اس علاقے میں مبارک خان لوحانی بھی موجود تھا۔ 

’’بیرم خان‘‘  اس نے مغلوں کے اقتدار کو اس وقت بچایا، جب ان کے قدم لڑکھڑاگئے تھے

اس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کی لشکریوں کے ہاتھوں قتل ہوا تھا، وہ بھی چالیس افغانوں کے ہمراہ سیروتفریح کے لیے نکلا تھا اور اس امر کی خواہش کی کہ وہ بیرم خان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ بیرم خان کے دل میں اس کی ذات سے کسی قسم کا تکدر نہیں تھا۔ اس نے اسے ملاقات کی اجازت دے دی ، لیکن وہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا، چناں چہ اس نے بیرم خان کے حضور حاضر ہوتے ہی دھوکے سے اس کی پشت پر اس زور سے خنجر مارا کہ وہ سینے سے باہر نکل گیا۔ اس کے بعد اس نے اس کے سر پر تلوار کی اس قدر شدید ضرب پہنچائی کہ وہ موقع ےپر ہی جاںبحق ہوگیا۔

جب پٹن کے رہنے والوں کی اس واقعہ کی اطلاع ملی، تو وہ پریشان ہوگئے ان میں غم و غصےکی لہر دوڑ گئی، جگہ جگہ آہ و زاری کا شوراٹھا۔ بیرم خان ترکی اور فارسی پر عبور رکھتا تھا۔ اس نے ان دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ اس نے اپنا فارسی دیوان مکمل کرلیا تھا، اس کے دربار میں ملک کے تمام مشاہیر اور اہل قلم موجود تھے۔ وہ ان پر انعام و اکرام کی بارشیں کرتا رہتا تھا۔

تازہ ترین