اقبالؔ کا پہلا مجموعۂ کلام، ’’بانگِ درا‘‘ستمبر 1924ء میں سامنے آیا۔ پہلا ایڈیشن 3ہزار کی تعداد میں شایع ہوا۔ پہلی اشاعت کے بعد سے نہ جانے کتنے ہی ایڈیشنز شایع ہو چُکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اقبالؔ کی شُہرت کا آفتاب بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں ہی میں اُفقِ ادب پر پوری طرح روشن ہو چُکا تھا۔ ’’بانگِ درا‘‘ کا دیباچہ ادب نواز حلقوں میں خاصا سراہا گیا۔ دیباچے کی ابتدائی سطور پر ایک نظر ڈالتے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُسے سراہے جانے کی وجہ کیا تھی۔ دیباچہ نگار کچھ یوں رقم طراز ہوتا ہے کہ ’’اگر مَیں تناسخ کا قائل ہوتا، تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کو اُردو اور فارسی شاعری سے جو عشق تھا، اس نے اُن کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسدِ خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آب یاری کرے اور اُس نے پنجاب کے ایک گوشے میں، جسے سیال کوٹ کہتے ہیں، دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘ یہ دیباچہ نگار سر عبدالقادر ہیں۔ وہی شخصیت کہ جن کے لیے اقبالؔ نے ایک نظم ’’عبدالقادر کے نام ‘‘ کے عنوان سے کہی؎اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر…بزم میں شعلہ نوائی سے اُجالا کر دیں…ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط…اسی ہنگامے سے محفل تہہ و بالا کر دیں۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ ’’بانگِ درا‘‘ کی اوّلین نظم،’’ہمالہ‘‘ اوّل اوّل سر عبدالقادر کے رجحان ساز ادبی پرچے، ’’مخزن‘‘ میں 1901ء میں شایع ہوئی تھی۔
سر عبدالقادر 15مارچ 1874ء کو غیر منقسم ہندوستان کی ریاست، مشرقی پنجاب میں واقع، لدھیانہ میں شیخ فتح الدّین کے گھر پیدا ہوئے۔ شیخ صاحب کو قانونی معاملات سے خاص لگاؤ تھا، تاہم اسے ذریعۂ معاش نہ بنایا اور گزر اوقات کے لیے مختلف ملازمتیں اختیار کیں۔ لوگوں سے بہت عاجزی و انکساری سے پیش آتے۔ ذی حیثیت اور صاحبِ رُتبہ افراد سے ملنا جلنا تھا۔ خاص و عام میں اُن کا احترام تھا۔ فارسی ادبیات سے خاص لگاؤ تھا۔ بیٹے، شیخ عبدالقادر کی تربیت اس طور کی کہ جہاں جاتے، جن لوگوں سے ملتے جلتے، بیٹے کو ساتھ رکھتے۔ اس طرح شیخ عبدالقادر کو ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ کم عُمری ہی سے وقت گزارنے کا موقع ملا۔ باپ نے فارسی کی تعلیم بھی بیٹے کو خود ہی دی۔ شیخ عبدالقادر نے آٹھویں جماعت( مڈل) کا امتحان قصور سے پاس کیا، جہاں اُن کے والد پینشن لے کر چلے آئے تھے، جب کہ میٹر ک لاہور سے کیا۔ باپ کی خواہش تھی کہ اولاد، بالخصوص بیٹا پڑھ لکھ کر خانوادے کا نام روشن کرے۔
غالباً یہ خواہش کسی قبولیتِ دُعا کے لمحے میں کی گئی تھی کہ شیخ فتح الدّین کے خانوادے کی آنے والی کئی نسلیں علم و دانش اور ادب و شعر سے وابستگی کے باعث سماج میں صاحبِ توقیر قرار پائیں۔ گرچہ شیخ فتح الدّین خود تو سرفرازی کی اُن داستانوں کو سُننے کے لیے موجود نہ رہے، کیوں کہ شیخ عبدالقادر ابھی عُمر کی محض چودہ منزلیں ہی سَر کر پائے تھے کہ والد کا سایہ سَر سے اُٹھ گیا۔ کم عُمر عبدالقادر کے لیے یہ دَور سخت آزمائش بن کر سامنے آیا۔ گھر میں اُن سے بڑی دو بِن بیاہی بہنیں موجود تھیں۔ اب نہ صرف یہ کہ کم سِن اور نا تجربے کار عبدالقادر کو گھر کی کفالت کا فریضہ انجام دینا تھا، بلکہ تعلیمی سفر بھی جاری رکھنا تھا۔ گویا سفینۂ حیات ایک ایسے بحرِ بے کنار میں ڈولنے لگا کہ جس کی موّاج، پُرشور اور طوفانی موجیں اُسے اپنے ساتھ بہائے لیے جانے پرآمادہ نظر آتی تھیں۔ تاہم، فتح الدّین کے تربیت یافتہ بیٹے نے ہمّت نہ ہاری۔
سب سے پہلے ملازمت تلاش کی، تاکہ معاشی اُلجھنوں سے نجات مل سکے۔ ملازمت مل گئی، مگر ایسی کہ صبح کو کام پر نکلنے والا عبدالقادر شام ڈھلے گھر کا رُخ کرتا۔ گرچہ بدن تھکن سے چُور ہوتا اور گھر کا اندھیرا کسی مزید کام کی طرف جانے سے روکتا، تاہم ذہن کے دریچوں اور روزنوں سے چھلکنے والی علم کی روشنی اُسے نہ صرف گھر کے اندھیروں، بلکہ جیون کے اندھیروں کو بھی دُور کرنے میں مدد دیتی۔ الفاظ اور کتابیں شیخ عبدالقادر کو اپنی طرف بلاتیں اور وہ دیوانہ وار اس صدا پر لبّیک کہتا۔ رفتہ رفتہ محنت رنگ لائی اور شیخ عبدالقادر نے 1894ء میں ایف سی کالج، لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں بی۔اے کا امتحان پاس کر لیا۔ یہ ایک بڑی کام یابی اور ایک مستقل مزاج طبیعت کی نامساعد حالات پر فتح تھی۔ یہ عزم و ارادے کی جیت تھی۔ یہ ایک بیوہ ماں کی اپنے ہمّت نہ ہارنے والے بیٹے کے حق میں کی جانے والی مسلسل دُعاؤں کی مستجابی تھی۔ گویا ایک منزل پر بیٹے کے لیے باپ کی دُعا کام آئی، تو کسی اور منزل پر ماں کی دُعا نے بیٹے کو فضیلت کی سند دلوائی۔ درجۂ اوّل کی اس کام یابی نے البرٹ وِکٹر پٹیالہ اسکالر شپ کے حصول میں مدد دی۔
اب شیخ عبدالقادر نے قدم بہ قدم کام یابی کی منزلوں کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ باپ ہی کے مانند بیٹے کا حلقۂ احباب بھی وسیع ہو گیا۔ دوستوں کے حلقے میں اقبالؔ بھی شامل تھے،جو کالج میں پروفیسر تھے۔ اب وہ اور شیخ عبدالقادر دوستی کے علاوہ ہم سائیگی کے رشتے میں بھی بندھ گئے۔ پھر دوستی اور ہم سائیگی بڑھ کر ہم نشینی میں بدل گئی۔ صحبتیں رہنے لگیں۔ اقبال کے گھر اُن کے استاد، میر حسن کے فرزند، سیّد محمد تقی، سیّد بشیر حیدر، سیّد عبدالغفور جمع ہو جاتے اور شیخ عبدالقادر کی آمد پر گویا محفل میں جان پڑ جاتی۔ وہ ابتدا کسی مصرعے یا شعر سے کرتے اور اقبالؔ اشعار کہنا شروع کر دیتے۔ کہنا ہی کیا شروع کر دیتے، بلکہ خوش الحانی سے سُناتے اور محفل جُھوم جُھوم جاتی۔ دورانِ محفل حُقّے اور چائے کا دَو بھی چلتا۔ سردار عبدالغفور ایک بیاض میں یہ سارے اشعار خوش خط تحریر کرتے۔ یوں یہ کلامِ اقبالؔ کی گویا ابتدائی منزل تھی۔
شدید عدیم الفرصتی اور سماجی معاملات سے چومکھی جنگ لڑنے کے باوجود شیخ عبدالقادر کے لیے مطالعہ، زندگی کا ایک لازمی جُزو تھا۔ اُردو ، انگریزی اور فارسی ادب کی کتابیں کسی نہ کسی طرح روز و شب کے مشاغل میں شامل رہتیں اور یوں ادبی ذوق ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھرتا رہا۔ طبیعت لکھنے کی طرف مائل تو رہتی۔ تاہم، کشاکشِ زیست قدم کو قلم کی طرف جانے سے روکے رہتی۔ 1895ء میں زندگی رنگوں سے آراستہ ہوئی۔ خاندان کے بزرگوں نے خاندان ہی کی ایک لڑکی کو شیخ عبدالقادر کی دُلہن بنا دیا۔ اللہ نے اولاد سے نوازا۔ اب آنے والے کئی سال مصروف ترین تھے۔
معاشی ذمّے داری، خانگی ذمّے داری اور تعلیمی ذمّے داری سے نبرد آزما، شیخ عبدالقادر اب صحافتی اُمور بھی انجام دیتے نظر آنے لگے۔ اب اُن کا کام اور نام دونوں اعتبار حاصل کر رہا تھا۔ لاہور سے شایع ہونے والے اخبار، ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ سے وابستگی اختیار کی۔ اگلی صحافتی منزل ’’پنجاب آبزرور‘‘تھی، جہاں پہلے معاون مدیر اور 1898ء میں مدیرکے طور پر کام کرنے لگے۔ مذکورہ اخبار سے وابستگی کے دِنوں میں ایک اہم واقعہ بھی پیش آیا، جو کچھ یوں تھا کہ مُصلحِ قوم، سر سیّد احمد خاں ایم اے او کالج، علی گڑھ کے لیے چندہ جمع کرنے کی مُہم پر لاہور آئے۔ کالج کے پرنسپل، تھیوڈر ماریسن بھی اُن کے ساتھ تھے۔ سر سیّد کی تقریر کے بعد ماریسن نے بھی خطاب کیا، مگر اکثر سامعین اُسے پورے طور پر یوں نہ سمجھ سکے کہ وہ انگریزی میں تھا۔ حاضرین کی فرمائش پر سر سیّد نے کہا کہ شیخ عبدالقادر اس تقریر کا اُردو مفہوم بیان کریں گے۔ شیخ عبدالقادر نے اتنی عُمدگی سے اُس تقریر کا مفہوم بیان کیا کہ لوگ جھوم اٹھے۔ جب شیخ عبدالقادر واپس اپنی نشست پر بیٹھے، تو سر سیّد ایک بار پھر گویا ہوئے اور کہا کہ آج سے انہیں شیخ عبدالقادر کی بہ جائے مولوی عبدالقادر کے نام سے پکارا جائے۔ یہ سر سیّد کا شیخ عبدالقادر پر اعتماد تھا۔
’’پنجاب آبزرور‘‘ کے صحافتی اُمور شیخ عبدالقادر کو اتنے پسند آئے کہ وہ اپنا رسالہ جاری کرنے کے بارے میں غور و خوض کرنے لگے۔ بالآخر دو سے تین سال کی فکری تگ و دو کے بعد انہوں نے اپریل 1901ء میں ’’مخزن‘‘ کے نام سے ادبی رسالے کا اجراء کیا۔ رسالے نے دیکھتے ہی دیکھتے شُہرت کے کئی ہفت خواں طے کر لیے۔ اقبال سمیت نہ جانے کتنے ہی شعراء اور ادباء ایسے تھے کہ جنہوں نے ’’مخزن‘‘ سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا اور ادب کے خزانے میں بیش بہا اضافہ کیا۔ اُردو صحافت کی تاریخ پر وقیع کام کرنے والے ایم ایس ناز اپنی کتاب، ’’لاہور نامہ‘‘ میں سر عبدالقادر کے رسالے’’مخزن‘‘ کو اس انداز میں یاد کرتے ہیں کہ’’بیسویں صدی کے آغاز میں سر عبدالقادر کے مخزن نے بے مثال شُہرت پائی۔ اس نے اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقّی میں نمایاں کردار ادا کیا اور اہلِ ادب کو نئے تصوّرات اور جدید تجربات سے روشناس کروایا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بیسویں صدی کے ربع اوّل میں جتنے ادیب اُبھرے، ان میں سے بیش تر کی نگارشات و تخلیقات سب سے پہلے مخزن ہی میں شایع ہوئیں۔ مخزن کی تحریک بِلا شُبہ ہمہ گیر تھی‘‘۔’’مخزن‘‘ کیوں ایک تحریک تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیخ عبدالقادر نے اپنے پرچے کے لیے کچھ اُصول و ضوابط مرتّب کیے ، جن کے مطابق، پرچے میں مذہبی اور سیاسی مباحث سے حتی ا لمقدور گُریز کیا جائے گا۔ ادب کو اس طور اُجاگر کیا جائے گا کہ نثر و نظم میں زبان و بیاں کے معاملے میں سادگی کو اوّلیت حاصل ہو۔ مغربی خیالات، فلسفے اور سائنس کو ادب کے پردے میں سامنے لایا جائے گا۔ تراجم کے ذریعے مغربی ادب کو اہلِ وطن سے روشناس کروایا جائے گا اور ہندو اور سکھ شعراء، ادیبوں اور مضمون نگاروں کو مستقل حیثیت دی جائے گی۔ غرض ایک ٹھوس منصوبے کے تحت ’’مخزن‘‘ برّصغیر کے اُفقِ ادب پر جلوہ گر ہوا۔
اب سر عبدالقادر کی شخصیت اس حد تک مضبوط ہو چُکی تھی کہ ہندوستان کے سربرآوردہ افراد میں شمار کیے جانے لگے۔ افراد اور ادارے اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ 1904ء میں ایک اور اعزاز شیخ عبدالقادر کا منتظر تھا اور وہ تھا، علی گڑھ کالج کا ٹرسٹی بننا۔ اسی سال وہ قانون کی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ لندن میں بھی اُن کی اقبالؔ سے تواتر سے ملاقاتیں رہیں۔ 1906ء میں شیخ عبدالقادر نے تُرکی کا مختصر سفر اختیار کیا، جہاں اُنہیں حکومتِ ترکی کی جانب سے ’’نشانِ عثمانی‘‘ سے نوازا گیا۔ 1907ء اُن کے لیے کام یابی کی ایک اور نوید لایا اور وہ لنکنز اِن،لندن سے بار ایٹ لا کی سند کے حق دار ہوئے۔ وطن واپس لوٹے، تو دہلی میں قیام کیا۔ اسی سال مختصر وقت کے لیے ایڈوکیٹ پنجاب، چیف کورٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ دہلی میں قیام کے دوران ’’مخزن‘‘ بھی دہلی ہی سے شایع ہونے لگا۔ دہلی میں قیام کی مدّت 1909ء تک رہی۔ 1910ء میں پنجاب یونی ورسٹی کے ’’فیلو‘‘ منتخب ہوئے۔ اگلے سال یعنی 1911ء میں اُنہیں اورینٹل اور لا فیکلٹی کا رُکن بنایا گیا۔ انہوں نے قائم مقام ڈِین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
ہمہ وقت محنت اور کام کی لگن شیخ عبدالقادر کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ مختلف اداروں کی طرف سے اُن کو مسلسل رُکن یا صدر بننے کی پیش کشیں ہوتی رہیں، جن میں سے بعض کو وہ قبول اور بعض کو اپنی شدید مصروفیات کی وجہ سے رَد کر دیتے۔ ان ہی مصروفیات میں لگ بھگ ایک عشرہ اور گزر گیا ۔1922 ء میں شیخ عبدالقادر کو پنجاب ہائی کورٹ کا قائم مقام جج مقرّر کر دیا گیا۔ اسی سال پنجاب لیجسلیٹو کائونسل کے رُکن بنے۔ 1925ء میں محکمۂ تعلیم پنجاب کے وزیر مقرّر ہوئے۔1926ء میں شیخ عبدالقادر ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے لیگ آف نیشنز میں ہندوستان کی نمایندگی کرتے ہوئے جنیوا کے لیے روانہ ہوئے۔ تب برّصغیر سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا اور ایسے تاریخ ساز موڑ پر، جب ہندوستان کے باشندے اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں سے لکھنا چاہتے تھے، ہر ذی شعور تیزی سے بدلتے سیاسی حالات کا گہرائی سے جائزہ لے رہا تھا۔ وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتیں میدانِ عمل میں موجود تھیں۔ کانگریس کی قیادت مہاتما گاندھی کے پاس تھی، جب کہ مسلم لیگ، قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف گام زن تھی۔ قائداعظم نے شیخ عبدالقادر کو دہلی آنے کی دعوت دی۔
شیخ عبدالقادر نہ صرف یہ کہ اُس دعوت میں شریک ہوئے، بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ بھی پیش کیا۔1927ء میں شیخ عبدالقادر کی وسیع علمی، تعلیمی و ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومتِ برطانیہ نے اُنہیں’’ سر‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ 1930ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرّر ہوئے اور 1932-34ء تک ’’انجمن حمایتِ اسلام‘‘ کے صدر رہے۔ یہ وہی انجمن تھی کہ جس نے برّصغیر میں وقت کی آواز کو محسوس کرتے ہوئے ادبیات کو مقصدیات کے سانچے میں ڈھال دیا۔1934-39ء تک کا عرصہ سر عبدالقادر نے لندن میں گزارا۔ وہ وہاں ممبر انڈیا کائونسل سیکریٹری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے گئے تھے۔ اس عرصے میں مختلف مواقع پر لیکچرز اور اہم مذہبی ایّام میں سامعین کو خطبات سے نوازتے رہے۔1939میں سر عبدالقادر کو وائسرائے کی ایگزیکیٹو کائونسل کا رُکن مقرّر کیا گیا۔1940-42ء ایک بار پھر انجمن حمایتِ اسلام کے صدر منتخب ہوئے۔1942-45 ء تک کا زمانہ بہ طور چیف جسٹس، بہاول پور بسر کیا۔
سر عبدالقادر کو اپنے عہد کی نام وَر ترین شخصیات کو دیکھنے، اُن سے ملنے اور اُن کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع ملے۔ ادبی شخصیات میں شادؔ عظیم آبادی اور مرزا داغؔ دہلوی سے لے کر سر سیّد احمد خاں جیسی دُوربیں و دُور اندیش ہستی بھی شامل تھی۔ مُلّا واحدی، جو دہلی کے رہنے والے منفرد ادیب اور ’’میرے زمانے کی دِلّی‘‘ جیسی شہرۂ آفاق کتاب کے مصنّف تھے، شیخ عبدالقادر کی ادیبانہ صلاحیتوں کی بے حد قدر کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مقام پر سر عبدالقادر کے بارے میں تحریر کیا کہ’’سر عبد القادر لاہور کے حکیم اجمل خاں تھے۔ ویسے ہی شُستہ و شائستہ، ویسے ہی سنجیدہ اور متین۔ باتیں بھی حکیم اجمل خاں کی طرح جچی تُلی کرتے تھے، لیکن حکیم اجمل خاں مقرّر نہیں تھے، جب کہ سر عبدالقادر بلند پایہ مقرّر بھی تھے۔ جیسا لکھتے تھے، ویسا ہی بولتے تھے۔ زبان بالکل دِلّی والوں کی سی تھی، لہجہ بھی دِلّی والوں کا سا، حرکات و سکنات بھی دِلّی والوں کی سی۔‘‘ 9فروری 1950ء کو بالاخر وہ شمع بُجھ گئی کہ جس نے ہندوستان میں ادب، قانون اور تعلیم کے میدان میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔
یوں تو سر عبدالقادر کے دیگر بیٹے بھی اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز رہے، تاہم منظور قادر یوں دیگر بھائیوں سے منفرد رہے کہ وہ ایّوب خاں کے دَور میں وزیرِ خارجہ مقرّر کیے گئے۔ منظور قادر28نومبر 1913ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ایک مضبوط خاندانی پس منظر رکھنے کے باوجود اُن کی ابتدائی تعلیم جن درس گاہوں میں ہوئی، وہ کوئی غیر معمولی اہمیت کی حامل نہ تھیں۔ 1928ء میں لاہور کے نسبتاً غیر معروف اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔1930ء میں ایف ایس سی اور مشہورِ زمانہ گورنمنٹ کالج، لاہور سے 1932میں گریجویشن کیا۔ جو مضامین بھائے، اُن میں ریاضی اور طبیعات شامل تھے اور سند بھی ان ہی مضامین میں حاصل کی۔ ان دونوں مضامین میں اُن کی مہارت اس حد تک تھی کہ انہیں آئن اسٹائن کی (Theory of Relativity )یا نظریۂ اضافت پر عبور حاصل تھا۔ مزید یہ کہ ریاضی میں جب کبھی اُن کے بیٹے کو دشواری پیش آتی، وہ اُسے خود دُور کرتے۔ حالاں کہ گورنمنٹ کالج، لاہور میں اُس وقت ریاضی کے شعبۂ صدر، ڈاکٹر لال محمد چاؤلہ تھے کہ جن کی ریاضی دانی مشہور تھی۔ مزید تعلیم کے لیے کیمبرج یونی ورسٹی کا رُخ کیا۔ 1935ء میں کیمبرج سے اکنامکس میں آنرز کیا۔ خاندانی پس منظر کے عین مطابق، قانون کی تعلیم کے حصول میں بھی کوتاہی نہیں کی اور مذکورہ سال ہی میں لنکنز اِن سے بیرسٹر ایٹ لا کی سند کے مستحق ٹھہرے۔
لندن سے واپس آتے ہی لاہور میں وکالت کا آغاز کیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہندوستان میں 1937ء میں صوبائی سطح پر انتخابات ہوئے۔ یہ سال ہندوستان کی آزادی کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی معرکے کا اصل حصّہ تھیں۔ گرچہ مسلم لیگ ان انتخابات میں نمایاں کام یابی حاصل نہ کر سکی، تاہم یہ انتخابات اُسے آیندہ کی سیاسی حکمتِ عملی مرتّب کرنے کی صحیح راہ دِکھا گئے۔ یہ سال منظور قادر کے لیے اس لیے بھی بہت یادگار رہا کہ اُن کی زندگی میں شریکِ سفر کی شمولیت ہوئی۔ 1940-42ء کا زمانہ تھا کہ جب منظور قادر لاہور سے لائل پور (موجودہ فیصل آباد) منتقل ہو گئے، جہاں دو سال بھرپور انداز میں وکالت کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں، ایک بار پھر لاہور میں قدم رنجہ ہوئے اور لاہور ہائی کورٹ سے وابستگی اختیار کی۔1939-44ء تک کا عرصہ منظور قادر کے لیے بہت سی کام یابیاں لے کر آیا۔ محنت، لگن اور مستقل مزاجی نے شخصیت کو ایک متوازن رُخ عطا کیا۔ اسی عرصے میں قدرت نے اُنہیں پہلے ایک بیٹی اور پھر دو بیٹوں سے نوازا۔ تب برّصغیر کی سیاسی تحریک فیصلہ کُن موڑ پر آ چکی تھی اور ذہین و زیرک منظور قادر بھی اس تمام تر سیاسی تبدیلی کو بہ غور محسوس کر رہے تھے۔
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا اور نئی مملکت، پاکستان وجود میں آئی۔ تقسیم، آگ و خون کے ہول ناک عمل سے گزری۔ ہزاروں ہزار افراد جنونی فسادیوں کی شقاوت کا نشانہ بنے۔ لاکھوں افراد ہجرت کے عمل سے گزرے۔ جہاں پورا برّصغیر تقسیم سے متاثر ہوا، وہاں پنجاب کیوں نہ ہوتا۔ اگر ہندوستان سے قافلوں پر قافلے نئی مملکت کی طرف آ رہے تھے، تو پاکستان سے بھی اَن گِنت افراد ہندوستان کی طرف جا رہے تھے۔
لاہور میں عدالتی اُمور سے وابستہ بہت سے ہندو وکلاء ہندوستان کی طرف مراجعت کر گئے۔ اُن کے جانے سے پیدا ہونے والے خلاء کو جلد ہی قابل مسلمانوں نے پُر کر دیا۔ اُن ہی کی فہرست میں منظور قادر بھی شامل تھے، جو جلد ہی اپنی قانونی مہارت کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ تاریخ کا ایک حصّہ ہوتے ہوئے منظور قادر تقسیم اور اُس کے ما بعد اثرات کے نہ صرف عینی شاہد رہے، بلکہ بہت سے وقوع پزیر ہونے والے واقعات میں شامل بھی رہے۔ ایسا ہی ایک اہم واقعہ تقسیم کے بعد دونوں ممالک کے حصّوں میں آنے والے اثاثہ جات کا بھی تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے مابین اثاثوں کی تقسیم کے لیے گفت و شنید کی غرض سے بنائی گئی کمیٹی میں منظور قادر کو پاکستان کے نمایندے کے طور پر شامل کیا گیا۔30جنوری 1948ء کو نئی دہلی میں واقع، بِرلا ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں جب انتہا پسند ہندو، نتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا، تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے برّصغیر میں پھیل گئی۔ منظو قادر اُس روز نئی دہلی ہی میں موجود تھے اور رونما ہونے والے تمام تر واقعات کو گہری نظر سے دیکھتے رہے۔
1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ منظرِ عام پر آیا، جس نے پاکستانی سیاست میں ہل چل مچا دی۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم، نواب زادہ لیاقت علی خاں کی حکومت کو گرانے کی سازش کے الزام میں 15افراد کوحراست میں لیا گیا، جن میں نمایاں ترین نام فیض احمد فیضؔ اور سیّد سجّاد ظہیرکے تھے۔ دفاع کی طرف سے اے کے بروہی اور استغاثہ کی طرف سے حسین شہید سہروردی اور منظور قادر نے مقدّمے کی پیروی کی۔ جیل سے اپنی بیوی، ایلس فیض کو تحریر کیے گئے خط میں فیضؔ نے لکھا کہ’’معذرت خواہ ہوں کہ گزشتہ ہفتے آپ کو خط نہ لکھ سکا۔ ہم سب یوں مصروف رہے کہ منظور قادر یہاں موجود تھے، جو کیس کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ اُن کو اپنے درمیان موجود پا کر بہت اچھا محسوس ہوا، ہر چند کہ ہم قانونی نکات کے علاوہ بہ مشکل ہی کوئی گفتگو کر پائے ہوں گے۔‘‘ فیضؔ کے یہ جملے منظور قادر کی شخصیت کے لیے ایک بہترین خراجِ تحسین تھا۔ ’’پروڈا‘‘ (پبلک اینڈری پریزنٹیٹوآفس ڈس کوالی فکیشن ایکٹ یاسیاسی شخصیات کے بدعنوانی میں ملوّث پائے جانے پر انہیں نا اہل قرار دینے کا قانون مجریہ 1949ء) کے سلسلے میں بھی منظور قادر نے کئی مقدّمات لڑے اور نام کمایا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ء میں خواجہ ناظم الدّین کی حکومت برطرف کی، تو اس برطرفی کے خلاف آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر، مولوی تمیز الدّین نے عدالت میں درخواست دائر کی۔ منظور قادر نے اُس مشہور مقدّمے کی بھی پیروی کی۔1958ء میں انہوں نے سابق یوگوسلاویہ میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل لا کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اسی سال اکتوبر میں جنرل ایّوب خاں نے مارشل لا نافذ کیا اور منظور قادر سے درخواست کی کہ وہ وزارتِ خارجہ کا منصب قبول کر لیں۔ منظور قادر نے یہ پیش کش قبول کر لی اور ایّوب خاں کی حکومت میں وزیرِ خارجہ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔
پاکستان میں ’’بیسٹ سیلر‘‘ یا سب سے زیادہ فروخت ہونے والی خود نوِشتوں میں’’شہاب نامہ ‘‘بھی شامل ہے، جس کے مصنّف مُلک کے معروف بیورو کریٹ اور ممتاز قلم کار، قدرت اللہ شہاب تھے۔ وہ مذکورہ خود نوِشت میں منظور قادر کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں کہ’’یہ صدر ایّوب کی خوش قسمتی تھی کہ اُنہیں اچھے، قابل، سمجھ دار اور دیانت دار وزرائےخارجہ میسّر آتے رہے۔ اُن کے پہلے وزیرِ خارجہ، شیخ منظور قادر تھے، جن کا شمار اپنے دَور کے نام وَر دانش وروں میں ہوتا تھا۔ وہ اَن تھک کام کرنے کے علاوہ ایک انتہائی ذہین، پڑھے لکھے اور با اصول ماہرِ قانون بھی تھے۔‘‘ چوں کہ منظور قادر کی قانونی مہارت مسلّمہ تھی، اس لیے اُس وقت کے وزیرِ قانون کی عدم موجودگی میں وہ وزارتِ قانون کے معاملات بھی دیکھا کرتے تھے۔ قانونی اور دستوری معاملات میں اُن کی مشّاقی کے چرچے تھے۔ اسی اثناء میں آئین سازی کا کام بھی ہوتا رہا اور جب 1962ء میں آئین بن کر سامنے آیا کہ جس میں منظور قادر کی قانونی و آئینی مہارت بھی شامل تھی، تو 3اپریل 1963ء کو روزنامہ جنگ کے لیے لکھے گئے اپنے قطعے میں رئیسؔ امروہوی نے اُن کے لیے کہا کہ ؎مبصّر وہی چشمِ بددُور ہے …مقنّن وہی حسبِ دستور ہے … غرض یہ کہ منظورِ قدرت وہی … جو منظور قادرؔ کو منظور ہے۔ جب آئین سازی کا کام بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا، تو منظور قادر نے مناسب سمجھا کہ وہ حکومت سے الگ ہو جائیں۔
جنرل ایوّب خاں کی خواہش تھی کہ اُنہیں ساتھ رکھا جائے، مگر منظور قادر آمادہ نہ ہوئے۔ حکومت نے جب دیکھا کہ وہ کسی صورت رُکنے پر آمادہ نہیں، تو اُنہیں پیش کش کی کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عُہدہ قبول کر لیں۔ منظور قادر کو جج بننے کی ہر گز خواہش نہ رہی تھی۔ تاہم، انہوں نے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ جوںہی یہ محسوس ہوا کہ جس مقصد کے لیے منصفی قبول کی ہے، وہ پورا ہو گیا ہے، تو اگلے ہی لمحے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔ چناں چہ ستمبر 1963ء میں ایک سال سے بھی کم مدّت میں وہ مستعفی ہو کر دوبارہ وکالت کی سمت آ گئے۔1964 ء میں اُن کی طویل خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے اُنہیں ’’ہلالِ پاکستان‘‘ سے نوازا۔1967-68 ء میں منظور قادر نے رَن آف کچھ کے سلسلے میں بنائے جانے والے بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل میں پاکستان کی قیادت کی۔ وہ اس کے علاوہ بھی اہم قومی نوعیت کے بہت سے مقدّمات میں استغاثہ یا دفاع کی طرف سے پیش ہوتے رہے۔
منظور قادر اپنے والد، سر عبدالقادر سے بے حد متاثر تھے اور انہوں نے اُن کی بہت سی صفات کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔ دیانت داری، اصول پسندی، سادگی اور لوگوں سے یکساں طور پر ملنا، اُن کی شخصیت کا خاصّہ تھا۔ اُن کے یہاں کا دستور تھا کہ وہ سال میں ایک بار موسمِ گرما میں نتھیا گلی جاتے اور کچھ دن وہاں اہلِ خانہ کے ساتھ قیام کرتے۔ دورانِ قیام خود منظور قادر اور اُن کے اہلِ خانہ اپنے احباب اور ملازمین کے لیے چائے بناتے اور اُنہیں پیش کرتے۔ وزارت اور اعلیٰ ترین مناصب سے وابستہ رہنے کے باوجود بھی منظور قادر کی شخصیت میں کبھی کوئی کجی دیکھنے میں نہیں آئی۔ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’شیخ‘‘ کا سابقہ لگانے کی بہ جائے ’’میاں‘‘ کا سابقہ لگانے کو ترجیح دیتے۔ ایم پی بھنڈارا پاکستان میں رُکنِ قومی اسمبلی رہنے کے علاوہ مختلف قومی اخبارات میں کالم بھی تحریر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک اخباری کالم میں مشہور ہندوستانی صحافی اور ’’Train to Pakistan ‘‘کے عنوان سے لکھے گئے تاریخی ناول کے مصنّف، خوش وَنت سنگھ کے بارے میں تحریر کیا تھا کہ وہ منظور قادر کو اپنا سب سے بہترین دوست گردانتے تھے۔
ایم پی بھنڈارا چین میں ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ انہیں پاکستان واپس لایا گیا اور اسلام آباد کے اسپتال میں زیرِ علاج رکھا گیا، جہاں وہ بہترین علاج معالجے کے باعث بہتری کی طرف گامزن تھے کہ اچانک انتقال کر گئے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی صفِ اوّل کی انگریزی ناول نگار، بیپسی سِدھوا اُن کی بہن ہیں۔ ایم پی بھنڈا راکی حادثاتی موت پر تعزیّتی تحریر میں خوش وَنت سنگھ نے تحریر کیا کہ ’’اب مُجھے یہ تو یاد نہیں کہ مَیں پہلے پہل مِنّو (ایم پی بھنڈارا کی عُرفیت) سے کب ملا۔ تاہم، اتنا ضرور یاد ہے کہ ہم دونوں کے لیے رول ماڈل رہنے والی ہستی منظور قادر کی تھی اور ہم دونوں ہی اُن کے اعلیٰ انسانی اوصاف کے باعث اُن کی بے حد قدر کرتے اور اُن سے متاثر رہتے، بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ شاید منظور قادر کے لیے ستائش کاجذبہ رکھنے ہی کی وجہ سے ہم دونوں بھی ایک دوسرے کے نزدیک آ گئے تھے۔‘‘ خوش وَنت سنگھ نے منظور قادر سے متعلق ایک واقعہ بھی بیان کیا، جس میں یہ بتایا کہ ’’جب ہندوستان تقسیم ہوا، تو مَیں لاہور چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا۔ تاہم، اپنے گھر کی کُنجی اور کُل اثاثہ منظور قادر کے حوالے کر گیا۔
مَیں نے اپنے دوست سے کہا کہ اگر قسمت نے یاوری کی اور مَیں پاکستان آیا، تو اپنی امانت تم سے وصول کر لوں گا۔ میرے سِکھ ملازمین لاہور ہی میں رہ گئے تھے، جنہیں منظور قادر نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بہ حفاظت ہندوستانی سرحد پر پہنچایا۔ جب مَیں پاکستان آیا، تو منظور قادر وزیرِ خارجہ تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ میری تمام کی تمام امانت مُجھے واپس لوٹائی، بلکہ میرے میکدے میں موجود مے بھی اُسی حالت میں واپس کر دی۔‘‘ اپنے والد ہی کی مثل منظور قادر بھی اقبالؔ کی شاعری کے دل دادہ تھے۔ وہ غالبؔ کے شاعرانہ اوصاف کے بھی مدّاح تھے۔ خوش ونت سنگھ نے تو یہ بھی بیان کیا کہ خود منظور قادر بہت اچھے شاعر تھے اور اُن کے چند اشعار حد درجہ ظرافت پسندی پر مبنی تھے۔ تاہم، اگر ایسا تھا بھی، تو منظور قادر کی طبیعت کا یہ رنگ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اُن کی ایک غیر مطبوعہ نظم کا یہ شعر اُن کی شاعرانہ سوچ کی عکّاسی کرتا ہے؎معافی کا خواہاں ہوں یارب مَیں تجھ سے…نہ سوچوں مَیں یوں بَن پڑے گریہ مجھ سے …نہیں زور اپنے خیالوں پہ مجھ کو… ندامت ہے خود ان سوالوں پہ مجھ کو۔13 اکتوبر 1974 ءکو عظیم باپ کے نام ور بیٹے نے اس دُنیا سے دوسری دنیا کا سفر اختیار کیا۔
شیخ عبدالقادر نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے 4بچّے تھے۔ آج اُن میں سے کوئی حیات نہیں۔ ایک بیٹے کا نام، شیخ محمد رفیع تھا۔ انہوں نے بھی دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے دو بیٹیاں اور دوسری سے دو بیٹے تولّد ہوئے۔ شیخ عبدالقادر کی بیٹی، وزیر بیگم کی شادی عبدالطیف تپشؔ سے ہوئی، جو شاعر تھے۔ ان سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ بیٹے کا نام، اے زیڈ حنیف تھا، جو صادق پبلک اسکول کے پرنسپل رہے۔ شیخ عبدالقادر کے دوسرے بیٹے، شیخ بشیر الدّین احمد تھے۔ انہوں نے بھی دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے دو بیٹے ہوئے،جب کہ دوسری اہلیہ سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ شیخ عبدالقادر کی دوسری بیٹی کا نام کنیز فاطمہ تھا۔ یہ شیخ عالم گیر سے بیاہی گئیں، جو بیرسٹر تھے۔ ان کے چھے بچّوں میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے شامل تھے۔ شیخ عبدالقادر کی دوسری شادی 1911ء کے آس پاس ہوئی۔
انوری بیگم نامی خاتون قصور، پنجاب کے رہنے والے قانون داں، شیخ محمد عُمر کی صاحب زادی تھیں۔ باپ نے بیٹی کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک انگریز گورنیس کی خدمات حاصل کیں۔ جب شیخ عبدالقادر کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا، تو انوری بیگم ’’لیڈی اے بی‘‘ کہلائی جانے لگیں۔ دراصل، یہ اُن ہی کی دُوربینی اور معاملہ فہمی تھی کہ انہوں نے اپنی ہونے والی اولاد کے نام کے ساتھ ’’قادر‘‘ کا لاحقہ استعمال کیا، جو کہ پہلی شادی کے موقعے پر دیکھنے میں نہیں آیا۔ انوری بیگم سے پانچ بیٹے پیدا ہوئے۔ احسان قادر، منظور قادر، الطاف قادر، ارشاد قادر اور ریاض قادر۔ انوری بیگم نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا بھی حد سے زیادہ خیال رکھا شاید یہ اُن ہی کی تربیت تھی کہ اُن کے پانچوں ہی بیٹے بہت لائق و فائق نکلے۔
احسان قادر حکومتِ برطانیہ میں انڈین نیشنل آرمی میں لیفٹیننٹ کرنل کے عُہدے تک پہنچے۔ وہ دوسری عالمی جنگ میں شریک ہوئے اور قیدی بھی بنائے گئے۔ اُن کی تیں بیٹیوں میں سے سب سے بڑی صاحب زادی، مسز نیلوفر شفیع قادر ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔ دوسری بیٹی، مس سونیا قادر، وفات پا چُکی ہیں۔ تیسری بیٹی، مسز پروین قادر آغا ہیں۔ وہ فیڈرل سیکریٹری وومنز ڈویژن کے عُہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ مُلک کی نام وَر ترین شاعرہ، پروین شاکر سے اُن کی گہری دوستی تھی۔ جب پروین شاکر کا ٹریفک کے الم ناک حادثے میں اچانک انتقال ہو گیا، تو پروین قادر ہی نے اُن کی یادوں ، باتوں کو زندہ رکھنے کے لیے ’’پروین شاکر ٹرسٹ‘‘ قائم کیا ،جس کے تحت وقتاً فوقتاً ادبی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مذکوررہ ٹرسٹ آج بھی ان ہی کی زیرِ نگرانی کام کررہا ہے۔منظور قادر کی اولاد میں ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں۔ مسز شیریں اکرام بیرسٹر ایٹ لا ہیں اور امریکا میں پریکٹس کرتی ہیں۔
بشارت قادر بھی قانون کے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں اور وکالت ہی کے شعبے سے وابستہ ہیں، جب کہ ڈاکٹر اصغر قادر بھی اپنے والد، منظور قادر کی طرح ریاضی اور طبیعات میں طاق ہیں۔ وہ میتھمیٹکس، فزکس اور اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔ انوری بیگم کے تیسرے بیٹے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) الطاف قادر پاکستانی فوج میں اعلیٰ ترین عُہدے تک پہنچے۔ وہ ایوّب خاں کے دَور میں ریٹائر ہوئے۔ اُن کے دو بیٹوں میں سے ایک، پرویز قادر، حیات نہیں ہیں، جب کہ شاہد قادر برطانیہ سے شایع ہونے والے وقیع جریدے، ’’تھرڈ ورلڈ کوارٹرلی‘‘ کے بانی رُکن، مدیر اور پروپرائٹر ہیں۔ ارشاد قادر آرمی آرڈنینس کور میں سویلین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اُن کی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ شوکت قادر بریگیڈیئر کے عُہدے سے ریٹائر ہوئے۔ یہ بہ طور تجزیہ کار اکثر ٹی وی پروگرامز میں شرکت کے علاوہ نیشنل ڈیفینس یونی ورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر لیکچرز بھی دیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خرّم قادر تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ڈاکٹر فرح فاطمہ قادر سائیکالوجسٹ ہیں۔ شیخ عبدالقادر کے سب سے چھوٹے بیٹے، ریاض قادر شاعر تھے اور اسکیچز بھی بنایا کرتے تھے۔
تقسیمِ ہند کے پس منظر میں پُر اثر افسانے تحریر کرنے والوں میں ایک معتبر نام انتظار حسین کا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں ’’کافی ہاؤس‘‘ کی صحبتوں کے ایک عینی شاہد اور ہندوستان اور پاکستان کے چند ’’کافی ہاؤسز‘‘ میں کام کرنے والے قدیم ویٹر ’’منشی جی‘‘ کی، جن کا اصل نام، شمشاد حسین صدیقی تھا اور کچھ لوگ انہیں ’’میر صاحب‘‘ بھی کہہ کر پکارتے تھے، یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مولانا چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر دین محمد تاثیر، عبداللہ بٹ، ناصر کاظمی، باری علیگ، فیض احمد فیض، صفدر میر، سیف الدّین سیف، شاکر علی، اعجاز حسین بٹالوی، ایم ایچ لطیفی، حبیب جالب، شیخ منظور قادر اور ریاض قادر وہ چہرے ہیں، جو بھلائے نہیں جا سکتے۔‘‘ منشی جی کی یادداشتوں کے مطابق، ’’سب سے پہلے ریاض قادر کافی ہاؤس میں آیا کرتے اور اکثر میز پر تنہا بیٹھے کافی پیتے اور سگریٹ نوشی کرتے ہوئے سگریٹ کے خالی ڈبّوں پر پینسل سے اسکیچز بنایا کرتے۔ پھر ناصر کاظمی آتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کافی ہاؤس آباد ہو جاتا اور شعراء اور ادیب مباحث میں اُلجھ جاتے۔
ریاض قادر جب بولنا شروع کرتے، تو بہت مشکل سے چُپ ہوتے۔ دورانِ گفتگو اگر اُنہیں شُبہ ہو جاتا کہ کوئی اُن کے بالوں سے خالی سر کو دیکھ رہا ہے، تو ناراض ہو جاتے۔‘‘ریاض قادر خود بھی کلام کہتے۔؎زمانے کے پہلو میں وعدے تو لاکھوں تھے نشوونمو کے… مگر یہ جو دن آگیا ہے، ہمارا تمہارا نہیں ہے… تمنّا ہماری بھی تھی کہ چمن میں بنائیں نشیمن … مگر وہ چمن جو قفس بن گیا ہو، گوارا نہیں ہے۔ ریاض قادرکی اولاد میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ قادر اور ڈاکٹر سعدیہ خان دونوں امریکا میں شعبۂ طب سے وابستہ ہیں، جب کہ رفعت مقبول قادر انجینئر ہیں اور امریکا ہی میں سکونت رکھتے ہیں۔