• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کی ثقافت کی قدیم دست کاری ’’سوسی‘‘

سدرہ خان

وادیٔ سندھ میں زمانۂ قدیم سے ایسی کار آمد چیزیںتیار ہوتی رہی ہیں ،جو نہ صرف قدیم قبائلی اور زرعی سماج میں بڑی اہمیت کی حامل تھیں بلکہ آج کے جدید دور میں بھی ان کی اہمیت و افادیت، خوب صورتی اور دل کشی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور اس بات پر دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سندھ کے باسی انسانی سماج کی تشکیل کے دور سے ہی بڑے ہنر مند تھے، ان کے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزیں اقوام عالم میں بڑی پزیرائی حاصل کرتی رہی ہیں۔سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا بھی ہے، جو کپاس اور ریشم کے دھاگے کی ملاوٹ سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں ’’چرخے‘‘ کا استعمال ہوتا ہے ۔چرخے پر تیار کی جانے والی سوسی بے حد آرام دہ، سادہ اور خوب صورت ہوتی ہے۔ 

سندھ کی ثقافت کی قدیم دست کاری ’’سوسی‘‘

یہ بالخصوص سندھ کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا پسندیدہ لباس رہا ہے۔ شہر ی خواتین بھی فیشن کے طور پر سوسی زیب تن کرتی ہیں۔ سوسی کے اسکرٹس بھی بنائے جاتے ہیں جنہیںمغربی ممالک کی خواتین میں کافی پسند کرتی ہیں۔قدیم تہذیب موہن جو دڑو کے عہد میں پوری دنیا میں سوتی ملبوسات، کپاس،اس کے بیج یا ریشے سے بنائی جانے والی ہر چیز کے کاروبار پر سندھ کے لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔

تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ قدیم بولونیا (بابل) کے باسی کپاس کو’’ سندھو‘‘ کے نام سے پہچانتے تھے، کیوں کہ وہ سندھ سے آتی تھی۔ یوںتو دنیا کی یہ قدیم تہذیبیں اور قومیں مثلاً میسوپوٹیمیا، مصر اور شام وغیرہ تو صدیوں سے سندھ کی سوتی مصنوعات سے استفادہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن مغرب اور یونانیوں کو کپاس، سوتی دھاگے، سوتی کپڑے وغیرہ کا پتا اس وقت چلا جب سکندراعظم کی فوج کے سپاہی سندھ سے واپسی پر سندھ کی سوتی مصنوعات اپنے ساتھ بہ طور سوغات لے گئے۔یہ کپڑے اس قدر باریک، نرم و ملائم ہوتے تھے کہ ایک مغربی محقق ڈاکٹر جیمس اے بی شیر نے اپنی کتاب ’’کاٹن ایزورلڈ پاور‘‘ میں ان کو صبا سے بُنے گئے جالوں سے تعبیر کیا ہے۔ یونان اور مغربی دنیا میں اس کپڑے کو ’’سنڈن‘‘ کہا جاتا تھا۔ سندھ کے اس کپڑے نے اپنی نرمی اور لطافت کی وجہ سے مغربی شعر و ادب میں بھی اپنی جگہ بنائی اور عظیم انگریز مصنفوں نے اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا۔

سندھ کی ثقافت کی قدیم دست کاری ’’سوسی‘‘

انگریزی کے عظیم شاعر ملٹن نے بھی اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا ہے جن میں ملٹن نے سنڈن کا ذکر جالی کے طور پر کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کپڑے کے باریک ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال جالی کے طور پر کیا جاتا ہو اور اسی وجہ سے ملٹن نے اس کا ذکر جالی کے طور پر کیا ۔سندھ کی بنی ہوئی سوتی مصنوعات میں سے دوسری چیز جس نے مغربی شعر و ادب میں جگہ بنائی اس کا نام ’’سنڈل‘‘ ہے جس کے معنی ہیں ’’بٹا ہوا دھاگہ‘‘ اس زمانے میں سنڈل سے رسے بنائے جاتے تھے، جن سے بڑے بڑے جہازوں اور بجروں کو باندھا جاتا ہوگا، جن کے بادبان ریشم کے بنے ہوتے تھے۔ یہ ہے سندھ میں تیار ہونے والے کپڑے کا پس منظر اور تاریخ، ململ کے باریک اور نرم کپڑے سے لے کر قدرے موٹا ،مگر ہلکا پھلکا کپڑا سوسی سندھ کی قدیم دست کاری ہے، ململ بھی چرخوں اور تکلوں سے بنائی جاتی تھی اور سوسی بھی چرخوں اور دور حاضر میں کھڈی میں بنائی جاتی ہے۔ سوسی کے کپڑے میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اسے ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے، یہ سردیوں میں حرارت اور گرمیوں میں ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے۔ پھر اس پر ہر طرح کی ڈیزائننگ بھی بآسانی کی جاسکتی ہے۔ 

سندھ کی ثقافت کی قدیم دست کاری ’’سوسی‘‘

سوسی کی پسندیدگی اور خوب صورتی کا راز اس کے کلر کامبی نیشن میں پنہاں ہے۔ یہ کپڑا ملائم ہے اور ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ کپڑا سال کے بارہ مہینے نظر آتا ہے۔سوسی خاص طور پر نصر پور، ہالا اور تھرپارکر میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی مانگ پورے ملک میں ہے، بلکہ بیرون ملک بھی ہے۔ سندھ ہنرمندوں کی سرزمین ہے، جن کا ہنر خود بولتا ہے۔ چرخوں اور کھڈیوں میں تیار کردہ سوسی سندھ کی ایک ایسی دست کاری ہے، جس پر اہل سندھ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ ململ اور سوسی سندھ کا خوب صورت تاریخی کپڑا اور قدیم دست کاری کا ثبوت بھی۔

تازہ ترین