• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کیٹی بندر‘‘ ماضی کا ترقی یافتہ شہر اور بندرگاہ

کاشف سومرو

کیٹی بندر گھارو سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب گھارو کے چھوٹے سے شہر سے نکل کر کیٹی بندر کی طرف روانہ ہوتے ہیں، ہریالی نہ جانے کہاں کھوجاتی ہے۔ سوکھے درخت، فصلوں کا نام و نشان تک نہیں، کہیں کہیں 'پان کے پتوں کے فارم ، تو کہیں فارمی مرغیوں کے فارم نظر آتے ہیں، راستے میں چھوٹے چھوٹے سے گاؤں تھے، جن میں سے کچھ ویران ہو چکے اور کچھ ویران ہونے کی دہلیز پر ہیں۔

تاریخ کے صفحات جس علاقے کی زرخیز زمین اور فصلوں کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں، موجودہ دنوں میں اس علاقے کے حالات بدقسمتی سے ان حوالوں سے بالکل برعکس ہیں۔ کچھ پیلے پتھر اور سرخ اینٹوں کے نشانات بتاتے ہیں کہ یہاں ایک زمانے میں قبرستان تھے۔

میٹھے پانی کی شدید کمی اور سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے مقامی جنگلی حیات کو ایسا شدید نقصان ہو رہا ہے، جس کا ازالہ شاید ایک لمبے عرصہ تک نہ کیا جا سکے۔ مقامی جانور اور ان پرندوں کی نسلیں جو ہزاروں برسوں سے ان جنگلوں اور آب گاہوں میں جیتی تھیں، وہ یا تو ختم ہوچکی ہیں یا ختم ہونے والی ہیں۔کیٹی بندر پہنچ کر دیکھا کہ ماضی کا وہ شہر اور بندرگاہ جس کی آبادی ہزاروں میں تھی ، اب سمٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بن گیا ہے۔ ویران سا بازار بھی نظر آیا، جہاں لوگ کم اور خاموشی زیادہ تھی۔

’’کیٹی بندر‘‘ ماضی کا ترقی یافتہ شہر اور بندرگاہ

دیکھا جائے، توماضی کی عظمتوں اور خوب صورت دنوں کی اب یہاں کوئی نشانی نہیں بچی ہے۔ تھوڑا تصور کیجیے آج سے ڈیڑھ سو برس قبل ایک ایسی بندرگاہ، جہاں ایک ہی وقت میں سیکڑوں کشتیاں کھڑی ہوں، انتہائی مستحکم حالت میں ہو، جہاں سے ہزاروں ٹن چاول اور دیسی گھی دوسرے شہروں کو بھیجا جاتا ہو، شہر کی گلیاں پکی اینٹوں کی ہوں، اور سرِ شام ان گلیوں کو روشن کرنے کے لیے شمع دان روشن کیے جاتے ہوں، لوگ جب کیٹی بندر کے ماضی کی باتیں کرتے ہیں، تو ان کے الفاظ اور آنکھوں میں ماضی کے دنوں کی خوب صورتی، چمک اُٹھتی ہے، اب کیٹی بندر کی گلیوں میں پراسرار خاموشی ہے۔

جس طرح ہر بندرگاہ کو کچھ سال بعدصفائی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی گہرائی برقرار رکھی جا سکے، اسی طرح کیٹی بندر کو بھی تھی، لیکن ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے مٹی نہیں نکالی جا سکی، جس کی وجہ سے پہلا کیٹی بندر ناقابلِ استعمال ہو گیا۔ اسی طرح سے پھر دوسرا کیٹی بندر بھی استعمال کے قابل نہ رہا، تو تیسرا کیٹی بندر بنایا گیا۔

ہم نے کیٹی بندر کا مختصر سا بازار دیکھا، اس کی کچی سی بستی کی کچی گلیوں سے گزرے، جہاں تیز ہوا کے جھونکے مٹی اڑاتے۔ہم نے کسٹم ہاؤس کے آثاروں کی تلاش کی، جہاں سیکڑوں کشتیوں اور آنے جانے والے سامان کا اندراج ہوتا تھا، اس بینک کی بھی نشانیاں ڈھونڈنے کی کوشش کی، جس میں ہزاروں اور لاکھوں کی لین دین ہوتی تھی، سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ان گلیوں کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جہاں شام ہوتے ہی شمع دان روشن کردئیےجاتے تھے،لیکن یقین جانیے ہمیں اب اس جگہ گہری خاموشی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔

یہاں ایک چائے کے ہوٹل پرہم نے ایک بزرگ سے کیٹی بندر کے گزرے ہوئے دنوں کے متعلق پوچھا تو انہیں زیادہ کچھ تو معلوم نہ تھا، البتہ موجودہ صورت حال کے متعلق انہوں نے کہا کہ ’’پہلے کا تو پتا نہیں پر اس وقت بھی یہاں چار سو سے زائد چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں ،جن سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے، ہمارے یہاں خشکی پر بھی گاؤں ہیں اور اندر سمندر میں جزیروں پر بھی، روز کماتے اور انہی پیسوں سے کھاتے ہیں، اسی طرح زندگی کٹ رہی ہے۔‘‘

یہاں کے مقامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں پینے کا پانی خریدنا پڑتا ہے، کیوں کہ نہروں میں میٹھا پانی نہیں آتا، اس لیے زمینیں بھی برباد ہوگئی ہیں۔ اب یہاں فصلیں نہیں اُگتیں، روز یہاں پانی کے دس پندرہ ٹینکر آتے ہیں، جس کے پاس جتنے پیسے ہوتے ہیں، اس حساب سے پانی خرید لیتا ہے۔

یہ سوچ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جس جگہ کے متعلق 'مسٹر ہڈسن جس نے 1905میںسروے رپورٹ کہا تھا کہ’’1848ء سے یہ شہر درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے، اناج کی مشہور منڈی ہے۔ یہاں سے کراچی، کچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات تک اناج جاتا ہے۔ ‘‘

1948ء میں دریائی بہاؤ کی تبدیلی کی وجہ سے کیٹی بندر کی خوش حالی کا سورج غروب ہونے لگا ا، یوں اس کے زوال کی کہانی کی ابتدا ہوئی۔ اب ان بادبانی جہازوں پر ہجوم نہیں ہوتا، یہاں کے مقامی افراد انجن والی کشتیاں اس امید سے سمندر میں اتارتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کوئی شکار مل جائےاور ان کی گزر بسر کا سامان ہو جائے۔ یہاں سے کئی خاندانوں نے ہجرت کر لی ہے۔ کراچی کا آدھا ابراہیم حیدری، ریڑھی میان، اور ماہی گیروں کی جو چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں، وہ سب یہاں سے چلے گئے ہیں۔ 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ خوشی سے اپنے گھر کا آنگن کون چھوڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو سارے سندھ میں دھان کی فصل اور اس کے مختلف اقسام کی وجہ سے مشہور تھا، یہاں تک کہ فصل کاٹنے کے لیے مقامی لوگ کم پڑتے تو دیگر علاقوں سے لوگ یہاں آتے۔یہاں معاش کے ذرائع مسلسل ختم ہو رہے ہیں، پینے کا میٹھاوصاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ کہاوت ہے کہ اگر پگڈنڈیاں زمینوں سے روٹھ جائیں، تو وہاں موسم نہیں آتے۔ہم نے کیٹی بندر پر خالی گاؤں اور ویران گھروں کے آنگن دیکھے، تب یقین ہوگیا کہ یہاں کی زمینوں سے واقعی پگڈنڈیاں روٹھ گئی ہیں، اور اب یہاں خاموشی، بے بسی اور ویرانی کے ایک ہی موسم نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

تازہ ترین