• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سونڈا کا قبرستان

ناصر جونیجو

جب ہم گزرے وقت کا ذکر کرتے ہیں ،تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ماضی کا تصور جتنا قدیم ہوتا جاتا ہے، ایک دھند چھانے لگتی ہے۔ اس دھند میں ایک سحر پوشیدہ ہوتا ہے، جو آپ کو ماضی کے ان دنوں میں لے جاتا ہے، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے، بس کتابوں کے اوراق پر جمے الفاظ ہمیں سناتے ہیں اور ہم ذہن میں ان دنوں کو بننے لگتےہیں۔

تحفتہ الکرام میں درج ہے کہ ’’سونڈا‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایک کامل بزرگ رہتے تھے، جو 'سر سونڈرکے راگ کو بے حد پسند کرتے تھے ، اسی لیے عام لوگوں کی زبان پر یہ خطہ اسی راگ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ جب جام تماچی نے اس شہر کی بنیاد رکھی تو اس نے بھی اس کا یہ ہی نام رکھا۔

ہر دور کی اپنی خوبصورتیاں اور بدصورتیاں ہوتی ہیں، کچھ زمانوں کی جھولیوں میں مثبت عملوں کے پھول زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ زمانوں کی جھولیوں میں کانٹے بہت ہوتے ہیں۔ ہم اگر تعمیر کے حوالے سے ایک سرسری جائزہ لیں تو موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے لے کر بارہویں صدی کی آخر تک فن تعمیر کی تقریباً پانچ ہزار برس کی شان دار تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتا چلتا ہے کہ آریوں کے آنے کے بعد فن تعمیر ایک جمود کا شکار ہوئی، اس کے اسباب یہ تھے کہ آریہ مقامی لوگوں سے زیادہ تیز مزاج، مسلح اور جھگڑالو تھے۔

تیرہ سو سے پانچ سو قبلِ مسیح تک مٹی سے بنی اینٹوں اور لکڑیوں سے عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں، گھر اور عبادت گاہیں بنتی رہیں، مگر اب ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ اشوک کے زمانے میں فن تعمیر کو ایک نیا راستہ ملا۔ پہلے جو عمارت سازی تھی، وہ سادہ تھی، مگر اس زمانے میں باریک اور نفیس پھول اور بوٹوں کی سنگ تراشی کا فن اپنے کمال کو پہنچا۔

مورخ لکھتے ہیں کہ ’’سندھ، ہندوستان کا وہ حصہ رہا جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے آنکھ کھولی، جیسا کہ سندھ میں بدھ مت، جین مت اور برہمنوں کے اثرات موجود تھے، اس لیے ان سب کا اثر اسلامی فن تعمیر پر بھی ہوا۔ اگر ہم مسجدوں کی تعمیر کو دیکھیں تو ترکی، ایران، مصر اور ہند کی تعمیر کا اثر ہمیں نظر آئے گا۔

ٹھٹھہ سے حیدرآباد جانے والے راستے پر 35 کلومیٹر کا سفر کر نے کے بعد آپ اس پہاڑی پر پہنچیں گے جس کے جنوب میں سونڈا کا چھوٹا سا شہر اور پہاڑی کے مغرب میں سونڈا کے نام سے پکارے جانے والا وسیع قبرستان پھیلا ہوا ہے۔ ہزاروں قبریں ہیں، جو پیلے رنگ میں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ تیز دھوپ ہو، بارشیں ہوں یا ٹھنڈی چاندنی راتیں یہ قبریں صدیوں سےایسی ہی ہیں، ان پر سنگ تراشی کا کام نازک و نفیس اپنی خوب صورتی اور نزاکت میں لاجواب ہے۔ قبروں پر پیلے پتھر کی سلوں پر جنگ کے مناظر کندہ ہیں۔جنگ میں مارے جانے والوں کی قبروں کی نشاندہی کے لیے پتھروں کے ستون گاڑے گئے ہیں۔

سونڈا کا قبرستان

ایک قبر پر توجنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے،مگر زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ہر قبر اپنی کہانی خود سناتی ہے، بس آپ کے پاس دل سے سننے والے کان اور آنکھیں ہونی چاہییں ،جو صدیوں کے آرپار دیکھ سکیں۔ قبر کی سنگ تراشی بتاتی ہے ، کہ یہ کسی سردار کی ہے، عورت کی یا کسی جنگجو کی۔ قبرستان میں پتھر کی بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں طرف نچلی طرف گھڑ سوار کی تصویریں بھی تراشی گئی ہیں، جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ کچھ قبروں پر دستار کی شبیہہ تراشی گئی ہے ،جن کے متعلق آثاریاتیوںکا خیال ہے کہ یہ سرداروں کے قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ وہ قبریں جن پر سات فیٹ اونچے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں، وہ قبریں جنگ میں مارے جانے والوں کی ہیں۔جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی نشاندہی کے لیے پتھر کے ستون رکھے گئے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں اس طرز کے سیکڑوں قبرستان ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ، کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت)، مغلوں کے زمانے میں طاقت ور قبیلے تھے۔ ان قبیلوں کا ذکر ہمیں سمہ دور میں بھی ملتا ہے۔ یہ اکثر مغلوں سے لڑتے اور گزرتے ہوئے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے۔ اگر کلہوڑا دور پر نظر ڈالی جائے تو گبول، لاشاری، پنھور، جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے۔ ان قبیلوں کی یادگار قبریں اور قبرستان ہیں ،جو اس حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔سارے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فن تعمیر سمہ دور میں یہاں آیا اور اس فن تعمیر پر گجرات کی عمارت سازی کا مکمل اثر تھا۔ سندھ میں سمہ دور فن تعمیر کے لیے ایک انتہائی شاندار دور ثابت ہوا۔ مکلی اور ٹھٹھہ میں زیادہ تر تعمیرات اس دور کی یادگار ہیں۔

سونڈا کا قبرستان

سترہویں صدی میں قبرستانوں پر سنگ تراشی کا یہ فن بڑی تیزی سے پھلا پھولا۔ پتھروں کے تختوں پر گھڑ سواروں اور دوسری چیزوں کی تصویریں بننا شروع ہوئی۔ سمہ سردار اس فن کو گجرات سے لائے، ارغونوں، ترخانوں اور بلوچ سرداروں نے اس فن کو عروج پر پہنچایا ،مگر پھر وہ ہی ہوا جو ہر کمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ فن اپنے کمال کے زوال کی آخری سانسیں لینے لگا۔ اسباب بہت ہوسکتے ہیں ،مگر حرفِ آخر یہ کہ اس فن پر زوال کی شام آگئی۔

سونڈا کے اس قدیم قبرستان کے حوالے سے ماہرِ آثاریات کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سمہ دور کا قبرستان ہے، جہاں سنگ تراشی کا فن اپنے عروج پر تھا،مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ کسی ایک مخصوص ذات یا قبیلے کا قبرستان نہیں ہے۔ یہاں اردگرد جو قومیں اور قبیلے آباد تھے ،ان سب کی قبریں یہاں ہیں۔ یہاں جنگوں میں ہلاک ہونے والے افراد ،سرداروں اور عام لوگوں کی بھی قبریں ہیں۔ 

قبرستان کی حالت اب انتہائی خستہ ہے۔ہم سوچتے ہیں کہ آج سے صدیوں پہلے جب یہ منظر تراشے گئے تھے، تب وہ پل کیسے ہوں گے؟ سردی کا موسم ہوگا یا گرمی کا؟ وہ سنگ تراش جب یہ تراش رہا ہوگا، تو اس کے کیا جذبات ہوں گے؟ چہار سو دور دور تک وہ کیا دیکھتا ہوگا؟ یہاں فقط قبرستان، مقبرے یا قلعے نہیں ہیں، بلکہ ان میں صدیوں کے موسم اور لمحے قید ہیں ،ان میں سحر چھپا ہوا ہے،یہ سحر ہمارا ماضی ہے، جو ہم کو نظر نہ بھی آئے ،مگر اس سے ہمارا ایک رشتہ ہے، جس کو ہم اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔

تازہ ترین