• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ میانی اور انگریزوں کا سندھ پر قبضہ

1843ء میں میانی اور ڈبی کی لڑائی کے نتیجے میں سندھ کی حکمرانی انگریزوں کے ہاتھ چلی گئی۔ امیران سندھ کو،کولکتہ میں بھیج دیا گیا۔ اس دوران کئی مرتبہ انگریزوں کو امیران سندھ کی جانب سے گزارشیں کی گئیں کہ انہیں سندھ واپس بھیجا جائے، جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقامی سربراہوں نے ان کی درخواستوں پر دادرسی نہ کی، تب امیران سندھ نے اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے اپنے قابل اعتماد افراد کو وکیل بنا کر ملکہ وکٹوریا کے پاس لندن روانہ کیا۔ اس وفد میں امیران سندھ کے قابل افراد اخوند حبیب اللہ، دیوان دیا رام اور دیوان میٹھا رام شامل تھے۔ انہوں نے وہاں امور ہندوستان کے وزیر لارڈ رپن اور کورٹ آف ڈائریکٹرز کو درخواستیں دیں،مگر کسی نے بھی نہیں سنی اور ملکہ تک رسائی بھی نہیں ہونے دی۔ لندن جیسے مہنگے شہر میں ان لوگوں کے پاس رہنے کے لیے پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔اس لیے انہوں نے فوراً واپس آنے کا فیصلہ کیا۔لیکن ان لوگوں نے امیران سندھ کو واپس سندھ لانے کے لیے ہار نہیں مانی، مقدمہ پیش کرنے کے لیےدیوان میٹھا رام نے ایک مفصل درخواست تیار کی ۔ اس میں انگریزوں اور تالپوروں کی شروع سے لے کر آخر تک تعلقات اور لڑائی، تالپوروں کو شکست اور کولکتہ میں نظربندی تک کا احوال قلم بند کیا اور اس درخواست کو ملکہ ٔ انگلستان کے گوش گزار کر نے کی ٹھانی۔جنگ میانی اور ڈبی کی نوبت کیسے آئی، جنگ کے بعد امیران سندھ کو جن اذیتوں ، کرب اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑااس کا احوال درج ذیل ہے۔

اگست 1809ء میں پہلے لارڈ نٹو نے تالپوروں سے ایک عہد کیا اور ان کے بعد وہ دو اور عہدہوئے، یہ دونوں عہد سر ہنری پاٹنجر کی معرفت ہوئے ،جن میں لکھا گیا تھا کہ انگریز سرکارتالپور امیروں سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے گی اور وہ سندھ کی سر زمین پر کبھی قابض نہیں ہوگی۔اس کے بعد سر ہنری پاٹنجر گورنر جنرل کی طرف سے سفیر مقرر ہوکر سندھ آئے اور تالپور امیروں سے کہا کہ ان کے تجارتی جہاز دریائے سندھ سے بغیر کسی رکاوٹ آتے جاتے رہیں گے۔ کسی کو بھی اختیار نہیں ہوگا ،کہ ان کو روکے۔ اسی عہد کی بنا پر انگریز سرکار کی طرف سے کاروباری شخصیات کو سندھ میں بغیر کسی رکاوٹ کے کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔گوکہ عہد میں انگریزوں کی جانب سے اسلحہ، افواج وغیرہ سندھ میں لانے پر یا دریائے سندھ سے لے کر گزرنے پر کوئی عہد نہیں ہوا تھا، مگر پھر بھی انگریزوں کے کہنے پر امیروں نے اس بات کو منظور کرلیا،مگر بلوچ قبیلے کے افراد کسی طرح بھی ان امیروں کی روش سے خوش نہیں تھے کہ انگریزوں کو مطلوبہ سازوسامان مہیا کیا جائے۔ جب سرجان کین جھرک پہنچا ، انہوں نے صلح نامے کے برخلاف کیپٹن ایسٹوک کو الزامات کی فہرست لکھ کر بھیجی۔ جس میں لکھا تھا کہ امیر ان سندھ تین لاکھ روپے سالانہ انگریزوں کی افواج کو خرچ کے لیے دیں گے، اور وہ اکیس لاکھ روپے انگریز سرکار کے خرچ کے لیےفی الفور ادا کریں، ورنہ اس کا نتیجہ برا ہوگا۔یہ بات عہد کے منافی تھی،لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، اس لیے امیران سندھ نے وہ مطالبات منظور کرلیے، لارڈ آکلیڈ نے بغیر کسی وجہ سے جو رقم طلب کی تھی، وہ امیروں نے بھیج دی۔ یہ رقم امیران سندھ کے ذاتی خزانے سے ادا کی گئی ۔

1842ء میں سر چارلس نیپئر کراچی آیا اور وہاں بیماری کے سبب کچھ عرصہ رہنے کے بعد حیدرآباد آیا۔کچھ عرصے کے بعد کیپٹن اسٹانلی سکھر سے ایک صلح نامہ اور سر چارلس نیپئر کا خط لے کر حیدرآباد آیا۔ امیر صلح نامہ اور نیپئر کا خط دیکھ کر تعجب میں پڑ گئے ، کہ نئے صلح نامے کا قمصد کیا ہے۔ سرچارلس نیپئر نے جواب دیا کہ مجھے کچھ پتا نہیں ہے اور میں فقط لارڈ ایلنبرو کے حکم کی تعمیل کررہا ہوں ۔ اس کے بعد سر چارلس نیپئر فوج کے سامان سے لیس ہوکر خیرپور پر حملہ آور ہوا اور میر رستم کو ان کی موروثی حکومت سے بے دخل کردیا۔ اسی دوران میجر آئو ٹرام بمبئی سے سکھر آیا اور سر چارلس نیپئر سے کوٹڈیجی میں ملاقات کی اس وقت نیپئر نے امام گڑھ قلعہ پر حملے کرکے اسے تباہ کردیا تھا، امیروں نے اس کے آنے کی خبرسن کر اس کو پیغام بھیجوایا کہ ہم نے اپنی مرضی کے خلاف آپ کی دھمکیوں کی وجہ سے نئے صلح نامے کو منظور کیا ہے ،تو پھر آپ کیوں فوج کے ساتھ حیدرآباد کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں،وکلاء نے نیپئر کو امیران سندھ کی سرکاری مہریں دیں، جو نئے صلح نامے کی تصدیق کے لیے لے کر آئے تھے۔ سر چارلس نیپئر نے مہریں لگائے بغیر واپس وکیلوں کو دے دیں ، ایک خط بھی دیا اور حکم دیا کہ جیسا کہا جاتا ہے، وہی کام کرو۔خط میں لکھا تھا کہ چارلس نیپئر حیدرآباد پر حملہ کرنے کا پکا ارادہ کرچکے ہیں لیکن ابھی حملہ ملتوی کیا جاتا ہے۔ اگر ہدایت موجب میر رستم خان میجر آئوٹرام سے نہیں ملیں گے ،تو پھر یہ دشمنی کے برابر تصور کیا جائے گا۔میر رستم نے خان اپنے دو وکیلوں کے ہمراہ میجر آٹوٹرام سے حیدرآباد میں ملاقات کی۔ آئوٹرام کو امیران سندھ نے بتایا کہ سر چارلس نیپئر کے حملے کی خبر سن کر بلوچ قوم نے ان کو یاد دلایا کہ گزشتہ دن ہم نے ان کو اپنی مہریں صلح نامے کی تصدیق کے لیےبھیجی تھیں اور یہ گزارش بھی کی تھی کہ وہ کسی افسر کو چارلس نیپئر کے پاس جلدی بھیجیں اور ان کو کہے کہ وہ حیدرآباد کی طرف پیش قدمی کو روکیں۔ میجر آئوٹرام نے یہ گزارش قبول کرکے اسی رات ایک افسر کو میر نصیر خان کی طرف روانہ کیا، جس نے ایک دم سر چارلس نیپئر کی طرف ایک تیز رفتار اونٹ پر افسر کو سوار کرا کر بھیجا۔ ایک خط منشی مولرام جس کے پاس امیران سندھ کا تھا، جو وہ آرمی افسر کے ساتھ نیپئر کے پاس لے کر جارہے تھے، وہ سر چارلس نیپئر کی فوج میں موجود تھا۔ خط میں لکھا تھا کہ جیسے ہی آرمی افسر سر چارلس تک پہنچ جائے، اس وقت جنرل ایک دم خیموں کو اکھاڑ کر حیدرآباد کی طرف روانہ ہوں۔ امیران سندھ نے یہ خبر میجر آئوٹرام تک پہنچائی۔ وہ اسی دن امیروں کے پاس آیا اور صلح نامے پر مہریں ثبت کرنے کے لیے کہا اور کہا کہ اگر وہ اس کی تعمیل کریں گے تو میجر آئوٹرام بھی اپنا خط امیروں کو دیں گے۔ جس کو وہ اپنے ایک فوجی افسر کے ہاتھ سرچارلس نیپئر کے پاس روانہ کرسکتے ہیں اور خط سر چارلس نیپئر پڑھتے ہی سندھ کی طرف واپس چلا جائے گا۔ امیروں نے یہ بات مجبوراً منظور کرکے صلح نامے پر دستخط کرکے مہر ثبت کی۔ اس وقت میر نصیر خان نے میجر آئوٹرام کو کہا کہ میر رستم کو بڑھاپے میں باہر نکالنا اچھا نہیں اور سر چارلس نے میر رستم کی جائداد اور روہڑی سے سبزل کوٹ تک قبضے میں ہے اس لئے ابھی ان کو چاہئے کہ جو باقی بچا ہے، وہ ان کو واپس کریں۔ سر چارلیس نیپئر نے کہاکہ جب میجر آئوٹرام حیدرآباد آئیں گے، تب وہ میر رستم کا فیصلہ کریں گے مگر میجر آئوٹرام نے اس سے صاف انکار کیا اور کہا کہ میر رستم خان سے کوئی بھی صلح نہیں ہوسکتی۔

بلوچ رہنمائوں نے میر رستم خان کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور حیات خان کی گرفتاری کی خبر کو سنا اور یہ بھی دیکھا کہ چارلس نیپئر سے صلح کی امید نہیں ہے، تب میجر آئوٹرام پر قلعے سے باہر نکلنے پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ امیروں نے جب آئوٹرام پر حملہ کی خبر سنی تو ان کو اپنے ارادہ سے باز رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خاص سرداروں کی حفاظت میں میجر آئوٹرام کو فوجی چھائونی میں بحفاظت پہنچایا۔ اس وقت انہوں نے امیران سندھ کو ایک خط بھیجا جس کا وعدہ کیا تھا ،جس میں جنرل کو آگے بڑھنے سے منع کیا گیا تھا۔ وہ خط ایک دم امیروں نے جنرل کی طرف سے بھیجا مگر جو قاصد خط لے کر گیا تھا، وہ اس خبر سے واپس آیا کہ جیسے ہی نیپئر نے خط کو دیکھا تو اسی وقت خیمہ اکھاڑ کر حیدرآباد کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ امیروں اور بلوچ سرداروں نے اپنے ساتھ زیادتی ہونے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے حیدرآباد شہر کے باہر جمع ہوئے اور کہا کہ انگریز ہمیں قتل کریں، گھروں کو لوٹے ہمیں منظور نہیں۔ میر نصیر خان نے بلوچوں کو سر چارلس نیپئر کو جنگ کرنے سے روکا اور ایک دوسرے وکیل کو نیپئر کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ کیا، ان کے جتنے بھی مطالبات ہیں، ان کو قبول کرکے ملک پر حملہ کرنے سے بچائیں ،مگر بلوچوں کے ایک گروہ نے میجر آئوٹرام کے کیمپ پر حملہ کردیا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر فائرنگ شروع ہوگئی جس کی وجہ سے دو بلوچ سپاہی اور انگریز سپاہی ہلاک ہوگئے۔ اس مختصر جنگ کے بعد میجر آئوٹرام اور دوسرے لوگ جو ان کے ساتھ تھے، کیمپ سے نکل کر جہاز پر سوار ہوکر چلے گئے۔ بلوچوں نے دو انگریز فوجی سپاہیوں کو قید کرلیا۔

اس کے بعد میر نصیر خان ایک اور وکیل کو انگریز فوج کے پاس بھیجنے والے تھے کہ اس دوران جنرل سر چارلس نیپئر نے بلوچوں پر توپوں سے حملہ کردیا ۔ جنگ تھوڑی دیر تک جاری رہی اور بہت سے بلوچ سپاہی مارے گئے۔ میر نصیر خان اس مصیبت انگیز واقعے پر سخت رنجیدہ ہوئے۔ حیدر آباد کے نزدیک بلوچوں کا ایک لشکر جمع ہو گیا،میر نصیر خان نے انگریزی لشکر سے لڑنے سے منع کیا اور انہیں واپس روانہ کیا۔میر نصیر خان، سر چارلس کے خیمے میں گیا اورصلح کی بات کی،جسے انگریزوں نے منظور کرلیا۔دوسرے دن چارلس نیپئر نے آگے بڑھ کر ریذیڈنسی میں قیام کیا اور ایک گارڈ امیروں کی نگہبانی کے لیے مقرر کیا۔دو دن بعد میجر آئوٹرام بمبئی چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد دوسرے دن منشی علی اکبر امیروں کے پاس جنرل کا پیغام لے کر آیا کہ وہ قلعہ دیکھنا چاہتا ہے ۔ سر چارلس نیپئر، کرنل کیپٹین اور بہت سارے فوجی افسروں کے ساتھ پیدل سوار کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا۔انگریز فوجی میر کرم علی خان کے گھر میں داخل ہوگئے اور میرزا خسرو بیگ کوگرفتار کر لیا، میر کرم علی خان کے گھر میں، جو قیمتی اشیاء جن کی قیمت تقریباً 10لاکھ روپے تھی، وہ تمام ساتھ لے گئے۔ میر کرم علی خان کی عورتوں نے یہ حالت دیکھ کر پیغام بھیجا کہ ان کے لیےپالکی منگوائے ،تاکہ وہ اس پر سوار ہوکر شہر سے دور چلی جائیں۔میر محمد خان کو قلعے سے نکال کر برطانوی کیمپ میں بطور قیدی رکھا گیا ۔ قلعے میں جانے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ میر نور محمد خان اور میر نصیر خان کے اہل خانہ ابھی تک قلعے میں موجود تھے۔ وہ دو دن تک پیاسے رہے۔ میر نصیر خان کے فرزند میر حسن علی خان اور میر عباس علی خان بھی ابھی تک قلعے میں اسیر تھے۔

لارڈ ایلنبرو کے معزول ہونے کے بعد سر ہنری ہارڈنگ گورنر جنرل ہوا۔ اس کو بھی امیروں نے اپنی دادرسی اور ملاقات کےلیے درخواست کی۔ 3؍ستمبر 1844ء کو بارکپور میں یہ ملاقات ہوئی جس میں سر ہنری ہارڈنگ نے کہا کہ امیروں پر ظلم ہوا ہے مگر مجھے ان کے معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ میروں نے کوئی دوسرا راستہ نہیں دیکھا تو قرض لے کر انگلستان کی طرف اپنے وکیلوں کو بھیجا۔ ان وکیلوں نے ہندوستان کے وزیر لارڈ رپن اور کورٹ آف ڈائریکٹرز اور ملکہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی تمام تر کوششیں کیں، مگر بے سود رہیں اور انہیں پیسے کی کمی کے سبب واپس ہندوستان جانا پڑا۔

تازہ ترین