• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہاں گم ہوگئی؟ ’’جنگ شاہی کی شاہی چکی‘‘

ہمارے آبا ؤ اجداد جس ارتقائی زمانے سےگزرے، اُن کی تکالیف اور درد کو وہ ہی بہتر جانتے ہوں گے، کیوں کہ ہم نے جب آنکھ کھولی ،تو ہمیں بہت کچھ بنا بنایا ہی مل گیا۔ بلا شبہ ہمیں ہمارے بزرگوں کی جانب سے بہت کچھ ورثے میںملا ،تہذیب، ثقافت، تمدن ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اس ورثے کو حقیقی طور پر سنبھال نہ سکے، ہم نے بہت کچھ گنوادیا۔ سہل پسندی اور آگے بڑھنے کا جوش، ترقی کرنے کی جستجو میں ہم نے کچھ انمول چیزوں کو کھو دیا۔

’’جُنگ شاہی ‘‘سندھ کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں، کی بالو شاہی، ریلوے اسٹیشن اور آٹا پیسنے کی شاہی چکی بہت مشہو ر تھی، بالو شاہی تو اب بھی اس علاقے کی پہچان ہے، ریلوے اسٹیشن ، جو دیکھنے سے تعلق رکھتاہے، اب تو ویران ہوچکا ہے۔ جنگ شاہی کے لیے نکلے تو تیز دھوپ آنکھوں کو چبھنے لگی تھی۔ اگر آپ جنوبی سندھ میں جولائی یا اگست کے مہینوں میں جائیں گے، تو سمندر نزدیک ہونے کی وجہ سے سفید و سیاہ بادل مغرب سے مشرق کی طرف جاتے ہوئے پائیں گے، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت کا احساس نہیں ہوتا البتہ اپریل اور مئی میں آسمان پر بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہم جنگ شاہی کے لیے نکلے ،تو باقاعدہ کوئی سڑک یا راستہ نہیں تھا، کہیں کہیں چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور جہاں پہاڑیاں نہیں تھیں وہاں بھورے رنگ کی ریت تھی۔ جیسے جیسے شمال کی طرف بڑھیں ،تو زمین کو اس قدر زرد اور سوکھاپائیں گے کہ جیسے صدیوں سےیہاں مینا نہیں برسی۔ ہم جب ڈھونڈتے ڈھونڈتےجنگ شاہی پہنچے، جہاں دھوپ کی تیزی کا احساس زیادہ ہو رہا تھا، تو وہاںدکانیں وغیرہ تو کھلی تھیں، لیکن بازار ویران تھا۔وہاں ہمیں ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر مل گئے، جنہوں نے بتایا کہ یہاں کا ریلوے اسٹیشن انتہائی مصروف تھا، لیکن ناقص پالیسیوں کی وجہ سے برباد ہوگیا اور اب یہاں ویرانی کے ڈیرے ہیں۔ جب کہ چکّی بنانے والے بھی اب انگلیوں پر گننے جتنے چند کاریگر رہ گئے ہیں، البتہ بالو شاہی اب بھی مشہور ہیں۔ ‘‘ہم ہاتھ چکی بنانے والوں کی تلاش میں آگے نکل پڑے۔راستے میں ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ’’ہاں ایک دو چھاپرے رہ گئے ہیں، جہاں اب بھی چکیاں بنتی ہیں، لیکن جب ریلوے اسٹیشن کا عروج تھا اور گاڑیاں یہاں رُکتی تھیں، تب یہاں کی بنی ہوئی چکیاں ملک کے دور دراز علاقوں میں جاتی تھیں۔‘‘ہم سوچ رہے تھے کہ نہ جانے کیوں اس علاقے کی ہر مشہور چیز ’’شاہی‘‘ کے ساتھ کیوںمنسوب ہے، مگر اس کا جواب ، بہت تلاش کرنے پر بھی نہ مل سکا،البتہ ایک بات تو طے ہے کہ اس جگہ کا کوئی نہ کوئی تعلق بادشاہت سے ضرور رہا ہوگا، بالآخر کچھ گھنٹوں کی محنت اور تلاش کے بعد ہمیں اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کا گمان سا ہونے لگا، یعنی پتھروں کو تراشنے کی آوازیں سماعت سے ٹکرانے لگیں،جب ہم اُس چھاپرے کے نزدیک پہنچے، تو پتھروں کو تراشنے کی آواز تیز ہونے لگی، اور ہمیں یقین ہو چلا کہ ہم صحیح جگہ پہنچ گئے ہیں۔ سامنےمسکیت کا ایک نحیف سا درخت تھا ،جسے غالباً بارشوں کے علاوہ کبھی پانی نہیں ملاہوگا، اس درخت کے پاس گھاس پھوس کا ایک خستہ حال چھپر بنا ہوا تھا، سورج کی تیز کرنوں سے بچنے کے لیے چھپر پر پلاسٹک کے ٹکڑے بھی رکھے گئے تھے، چھپر کے گرد دیواریں نہیں تھیں، اس لیے تیز ہوا کے جھو نکے وہاں سے گزر رہے تھے۔ چھپر کے اندر چند سنگ تراش ہتھوڑی اور تیشوں سے پتھروں کو کاٹ رہے تھے۔ ہر کاریگر کوبہ خوبی اندازہ تھا کہ تیشہ کہاں رکھنا ہے اور ہتھوڑی کو کتنی طاقت سے چوٹ لگانی ہے۔ چوٹ لگنے کے ساتھ پتھر کا ٹکڑا اُڑتا اور ساتھ میں ہلکی پتھر کی گرد کا دھواں سا اٹھتا، انہوں نے اپنی ناک کو نہیں ڈھانپا تھا۔ان کے سر کے بال اور ہاتھ پیلے پتھر کی گرد سے اَٹے ہوئے تھے۔ سنگ تراشوں نے ہماری جانب ایک بارنظر اُٹھا کر دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ ہم بھی بہت دیر تک سوچتے رہے کہ آخر اس بے رخی کی کیا وجہ ہےوجہ کافی دیر بعد سمجھ میں آئی۔ وہاں ایک کام کرنے والے ایک سنگ تراش نے کہا ،’ ’سائیں یہاںشہر سے بہت سے لوگ آتے ہیں، ہم سے ملتے ہیں، کچھ میڈیا والے بھی آتے ہیں، ہماری فلم بنا کر لے جاتے ہیں، مگر اس سے ہمیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ یہاں ہمارے لیے روزگار کے دیگر مواقع نہیں ہیں، اسی لیے ہمیں یہی کام کرنا پڑ رہا ہےہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اسکول جائیں، تعلیم حاصل کریں، اچھی جگہ نوکری کریں، لیکن بچوں کو پڑھانا ، تو دور کی بات لیکن گھر کا چولہا ہی مشکل سے جلتا ہے۔ایسے حالات میں بچوں کو تعلیم کیسے دلوائیں گے؟ شاید ہی کوئی عید یا تہوار ایسا ہوتا ہو، جس میں ہمارے بچے نئے کپڑے پہنتے ہوں۔ ایک عید پر بھی اگر نئے کپڑے مل جائیں تو بڑی بات ہوتی ہے۔ یہاں آنے والے میڈیا کے نمائندے ہماری تصویر بنا کر لے جاتے ہیں ، ہم کوئی سرکس کے جانور ہیں کیا؟‘‘یہ کہتے ہوئے سنگ تراش کی آواز بھرا گئی،وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا اور ہم بس یہ سوچتے رہ گئے کہ آخر ہنر مند ہونے کے باوجود یہ اتنی کسمپرسی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں۔ وہاں موجود ایک اور کاریگر نے ہمیںمخاطب کرتے ہوئے بتایا ، ’میں 40 برس کا ہوں ، اس کام کی وجہ سے ٹی بی کا مریض بن چکا ہو،ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ علاج سے میں ٹھیک ہو سکتا ہوں، لیکن پھیپھڑوں کو خوراک کی صورت میں پروٹین ملنا چاہیے جو نہیں مل رہا بلکہ پھیپھڑوں میںپتھر سے اُٹھتی ہوئی دُھول جارہی ہے۔جنگ شاہی کی چکیاں پہلے پورے ملک میں مشہور تھیں ، مگر اب یہ کام تقریباً ختم ہو چکا ہے، فی الوقت یہاں اس کام کے دس مزدور رہ گئے ہیں، جو اس تیز دھوپ میں آٹا پیسنے کی مشینوں کے لیے بڑی چکیاں، اُکھلی، بیلن، ہتھ چکی اور دیگر پتھر سے بننے والی اشیاء بناتے ہیں۔اس کام سے ایک مہینے میں تین ، چار ہزار کی آمدنی ہوتی ہے،ہمیں ان کی باتیں سن کر انتہائی افسوس ہورہا تھا کہ ان کے دکھ درد کا مداوا نہیں کیا جا سکتا، کوئی حل نہیںہے۔ جنگ شاہی اس ہنر کے زوال کی ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں درد اور تکلیف کی کھاردار جھاڑیاں ہی اُگتی ہیں۔تاریخ کے صفحات پلٹیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ شروعات میں چکی انتہائی سادہ تھی، بالکل سل بٹے کی طرح ایک سپاٹ پتھر اور اس کے اوپر ایک گول پتھر، انسان گول پتھر کو مضبوطی سے پکڑ کر بیجوں کو سپاٹ پر رکھ پیس لیتا تھا۔ یہ چکی کی ابتدائی شکل تھی، یہ چکی دو پتھروں پر مشتمل ہوتی تھی، جس کے نیچے والے حصے کی سطح قدرے مجوف اور ڈھلوانی تھی، جب کہ اُوپر کا پتھر چھوٹا ہوتا تھا۔ اسے چلانے والی عورت عموماً چکی کی پچھلی جانب گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی اُوپر والے پتھر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوتی تھی۔ پھر وہ پورے زور سے اس پر دباؤ ڈالتی اور اُوپر والے پتھر کو نیچے والے پتھر پر رگڑتی اور دونوں پتھروں کے بیچ موجود اناج کو پیستی تھی۔ ان چکیوں کا رشتہ جب ہر گھر سے جُڑ گیا ،تو ان پر کمال بھی آیا، بلکہ سندھ میں ان چکیوں کے بنانے والوں کو ایک مخصوص نام بھی دیا گیا ’’جنڈاوڑا‘ ‘،سندھی میں ہتھ چکی کو ’’جنڈ‘‘ کہتے ہیں، تو جو جنڈ بنانے والے ہیں، اُن کا فقط یہ ہی کام ہے کہ وہ جنڈ بنائیں اور گھر گھر جا کر بیچیں اور اپنی روزی روٹی کمائیں۔ آج بھی دور دراز علاقوں میں کہیں کہیں علی الصباح چکی کی آواز سنائی دیتی ہے۔بچپن میں جب کبھی کبھار گاؤں جانا ہوتا ،تب گھروں میں نصب خوب صورت چکیاں بھی دیکھنے کو ملتیں۔ اُن پر مٹی سے مور، چڑیاں، تارے، پھول پتیاں اور مختلف نقوش بنے ہوتے تھے، بالکل ایسے جیسے آج کل کڑھی ہوئی چادروں اور تکیوں پر بنائے جاتے ہیں۔ چکی ہمارے گھر اور ثقافت کا ایک اہم جُز بھی بن گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ چکی پر لوک گیت بھی تخلیق ہوئے اور شاعروں نے اسے اپنا موضوع بنایا۔ جس وقت جنگ شاہی کو الوداع کہا اُس وقت شام ہوچکی تھی ۔ جنگ شاہی اس ہنر کے زوال کی ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے کہ اس چکی کے ہنر کی ابتدا بھی چھوٹی چھوٹی بستیوں سے ہوئی تھی، کتنی عجیب مشابہت ہے ابتدا اور انتہا میں۔ جہاں سفر کی ابتدا گھاس پھوس کی بستیوں سے ہوئی اور 20 صدیاں گزرنے کے بعد جب اس کا زوال آیا، تو وہ بھی گھاس پھوس کے چھپرے میں! دنیا ترقی کرتی آگے چلی گئی اور یہ سنگ تراش اس ترقی کے قافلے میں پیچھے رہ گئے۔ شاید وہ اپنے درد اور تکلیفوں کے چبھے ہوئے کانٹوں کو نکال رہے ہوں گے اور جب اوپر دیکھا ہوگا، تو قافلہ کب کا جا چکا ہوگا۔ اب یہ بے آب و گیاہ زندگی کے ریگستانوں میں رہتے ہیں اور کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں۔

تازہ ترین