• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آمری اور مومل جی ماڑی‘‘ذکر چند آثار قدیمہ کا

’’آمری اور مومل جی ماڑی‘‘ذکر چند آثار قدیمہ کا

سندھ کا گوشہ گوشہ قدرت کی بیش بہا نعمتوں سے مالا مال ہے، اس کی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت ہمیشہ ہی سے اس کی پہچان رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ ماہرین آثار قدیمہ اور محققین کی بھی توجہ کا مرکزرہا ہے۔موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے آثار کے بارے میں تو آپ سب ہی جانتے ہیں، اور کئی بار پڑھ بھی چکے ہیں، لیکن آج ہم آپ کو آمری، مومل جی ماڑی اورچنہوڑو دڑو کے بارے میں بتا رہے ہیں،جن کے بارے میں شاید آپ کو علم نہ ہو۔

آمری: کراچی سے 175 میل کوٹری کے شمال میں 67میل اور دادو کے جنوب میں 45میل جب کہ جامشورو میں واقع یہ آثار اہمیت کے حامل ہیں۔ 4.10ایکڑ پر مشتمل یہ ٹیلہ 1929ء میں این سی موجمدار نے دریافت کیا۔ فرانسیسی آرکیالوجیکل مشن اور پاکستان آرکیالوجی نے 1959ء تا 1962ء تک کھدائی کی۔ اس مقصد کے لیے تین ٹیلوں کی کھدائی کی گئی۔ ہر ایک ٹیلے سے ملنے والے خصوصی برتن اور ٹھیکریوں سے اندازہ ہوتا ہے، کہ سب سے اوپر والے حصے میں چمک دار ظروف ٹھٹھہ اور ملتانی طرز کے ملےہیں، مغلیہ دور کے چند سکے بھی ملےہیں۔ مسلم آبادی کے نیچے تیسری صدی قبل مسیح کے آثار ہیں۔ زیر زمین جب کھدائی کی گئی ، تو وہاں سے بھٹیاں ملیں۔ مٹی کے برتن پر جیومیٹریکل اور دوسرے نشانات ہیں، سرخی مائل کتھئی رنگ کے ہیں۔ ماہر آثاریات موجمدارنے اس حوالے سے لکھا کہ ’’کرسمس کےدوران ہم آمری واپس آئے اور ڈھیری نمبردوکو وہاں سے کھودنے لگے ، جہاں چرٹ یعنی معدنیاتی ٹکڑے ملے تھے ،جیسا کہ سندھ میں اکثر مقامات پر ملےہیں۔ اس ڈھیری کی چوٹی پر بھی مسلمانوں کا قبرستان تھا، لہٰذا ہمیں بے حد احتیاط سے چلنا پڑا اور اپنی کھدائی کو قبرستان سے زیادہ سے زیادہ دور ایک تنگ علاقے تک محدود کرنا پڑا۔راستہ معدنیاتی ٹکڑوں سے بنا ہوا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ نئی قسم کے ظروف ڈھیری کے باہر بھی پڑے ہیں ،یعنی سیلاب آور وہ مٹی سے نیچے دوسری خندق کھودی گئی۔ اس نئی خندق میں تقریباً ایک فیٹ نیچے ایک پتھر کی عمارت کے کھنڈر ملے ہیں۔ اس کے مشرقی پیش منظر کے ساتھ ساتھ چھوٹے کمروں کی بنیادیں نظر آنے لگی ہیں، دیواروں کی تہوں سے کھدائی کے دوران گومڑیوں یا بجری کے ڈھیر صاف کیےگئے، جو بنیادوں میںاستعمال کیےگئے تھے۔ جب کالی مٹی کی ایک تہہ دوبارہ نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی مختلف رنگ کے ظروف بھی دریافت کیے۔خندقوں کی کھدائی میں ثابت برتن تو نہیں ملے، مگر بہت سے بیکر یعنی پیالے اور گلاس جیسے کھلے برتن ضرور دریافت ہوئے۔ آمری کے دو قسم کے ظروف بنیادی طور پر مختلف ہیں۔ ہم غالباً یہ سمجھنے کے مجاز ہوں گے کہ یہ دو مختلف تہذیبوں کے نمائندہ ہیں جن میں سے دوسری موہن جودڑو کی ہم عصر ہے۔

مومل جی ماڑی: گھوٹکی شہر سے 11کلومیٹر مشرق کی طرف جروار روڈ پر یہ آثار موجود ہیں۔ تاریخ معصومی میں اس قلعے کا تذکرہ قلعہ ’’ماتھیلہ ‘‘کے نام سے رائے ساہی کے عہد میں ملتا ہے ۔ مشہور لوک داستان مومل رانو ان ہی آثار سے منسوب ہے۔ یہاں سے ہندو فن تعمیر کا کوئی نمونہ نہیں مل سکا۔ چند لوک کہانیوں کے سوا ،اس شہر کے بارے میں کچھ خاص شواہد نہیں ملتے۔ تاریخ معصومی کے مطابق محمد بن قاسم ثقفی نے 711ء (93ھ) کے قریب قبضہ کرلیا اور اس وقت کا ہندو راجہ داہر حملے میں مارا گیا۔ مسٹر این جی موجمدار نے محکمہ آثار قدیمہ ہند کی سالانہ رپورٹ 1939-30ء سے اپنی کتاب ’’ایکسپلوریشنز ان سندھ‘‘ میں اروڑ کا معائنہ کرنے کے بعد لکھا۔ ’’جنوبی سڑک کے ساتھ ساتھ گائوں اروڑ کے عین شمالی مشرق میں چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کا مجموعہ ہے جنہیں مقامی طور پر ’’گڑھی گور‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 8فیٹ ہے۔ ان میں سے ایک میں آزمائشی خندق سے ساتویں، آٹھویں صدی کی کئی کندہ اینٹیں ملی ہیں۔جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ،کہ اروڑ کا یہ حصہ ماقبل عرب ہندو شہر تھا۔ روہڑی سے تقریباً ساڑھے تین میل جنوب میں ایک گائوں ہاکڑاہے ، اس کے اور اروڑ کے درمیان اب نارا بہتا ہے۔ 1855ء میں کیپٹن کربی نے اس نہر کی کھدائی کے سلسلے میں لکھاتھا کہ ’’عظیم نارا نہر کو کھودتے ہوئے ہمیں کبھی کبھار اینٹوں کے ٹوٹے پھوٹے ڈھیر ملے ، بالآخر زمین سے تقریباًدس فیٹ نیچے بہت سے گھروں کی بنیادیں ملیں۔ ان آثار میں ہمیں خشتی مٹی کی بنی ہوئی کئی چیزیں ملیں، جیسے پانی کے پیالے، ایک کوزہ، کچھ پرنالے اوربہت سے بچوں کے کھلونے۔ سطح سے دس فیٹ نیچے اس مدفون شہر کے متعلق ہمارا تجسس ہمیں ہاکڑا لے گیا، جہاں ایک بزرگ آدمی نےاس کی تصدیق کی اور وہ ہمیں نارا ہیڈ سے دو میل ایک فرلانگ کے فاصلے پر لے گیا ،جہاں نبرس صاحب نے گزرے دنوں میں نہروں کے درمیان ایک بازار نظر آیا، لیکن اب ان دبی ہوئی عمارتوں کا کوئی نشان نہیں، شاید کھدائی کے نتیجے میںاس سے پہلے کسی بستی کے کھنڈرات ضرور ملیں گے۔

تازہ ترین